دونوں ایک صفحہ پر
سپر ڈیلی گیٹس (Super Daily Gates) نے اس کی واضح حمایت کی، لہٰذا علاقے کی سیاست بدلتی نظر نہیں آتی۔
ISLAMABAD:
گزشتہ آٹھ دس برسوں سے ایک اصطلاح رائج ہو گئی ہے کہ ایک صفحہ پر، یعنی دو موافق یا مخالف قوتیں ایک صفحہ پر ہیں یا دو صفحات پر، یعنی کسی مسئلے پر ان کا موقف یکساں ہے یا مخالف ہے۔ عام طور پر یہ اصطلاح ہمارے ہی ملک سے چل پڑی ہے، وہ بھی فوجی اور سیاسی معاملات پر ان کے قائدین کا رویہ ہے۔ دراصل یہ اصطلاح اس وقت وضع ہوئی جب سیاسی حکومت طالبان سے محو گفتگو تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اگر مسئلہ گفت و شنید سے حل نہ کیا گیا تو پاکستان آگ اور خون میں نہا جائے گا۔ گو گفتگو جاری تھی پھر بھی طالبان حملہ آور رہے، اس لیے ایک وقت ایسا آ گیا کہ دنوں کے موقف جدا جدا ہو گئے۔ پاک فوج نے ازخود ضرب عضب کا آغاز کیا اور سیاسی قیادت بھی نتائج دیکھ کر عسکری قیادت کی ہمنوا ہو گئی اور پھر کشت و خون کی ندیاں، آگ کے شعلے جو شہروں میں بلند ہورہے تھے اور بعض سیاسی تنظیمیں جو اس کا فائدہ اٹھا رہی تھیں، انھوں نے بھی رفتہ رفتہ ہار مان لی اور ملک میں نفرت کی جو دیواریں کھڑی ہو رہی تھیں، وہ بھی منہدم ہونے لگیں لیکن سر راہ جو لوٹ مار، اسٹریٹ کرائم میں ہو رہی تھی اس میں کمی ضرور آئی، مگر زیادہ کمی نہیں آ سکی۔
گزشتہ ڈرون حملہ، جس میں ملا منصور ضلع نوشکی میں ہلاک ہوئے، اور ایران کا 450 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب وہ پاکستانی حدود میں آئے تو امریکا نے ڈرون حملہ کیا۔ اس پر پاکستان کی عسکری قیادت اور سیاسی قیادت کی ایک ہی رائے اور موقف رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت اس مسئلے پر ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عسکری اور سیاسی قیادت جب ایک صفحہ پر ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ سیاسی احتجاج میں کوئی قوت نہیں کہ وہ امریکا کو روک سکے۔ جزیرہ نما ایک پٹی کیوبا کے احتجاج کو امریکا نظر انداز نہیں کر سکتا جب کہ پاکستان کا معاملہ ہے ایک کان سے سنا تو دوسرے کان سے نکال دیا۔ پاکستان کے احتجاج کی کوئی سیاسی حیثیت نہ رہی۔ ایک دور ایسا تھا جب ایسی کمزور قیادت کہیں ہوتی تھی تو امریکا وہاں فوجی انقلاب برپا کر دیتا تھا مگر اب گزشتہ 20 یا 25 برسوں سے یہ پالیسی بدل گئی ہے۔
سپر ڈیلی گیٹس (Super Daily Gates) نے اس کی واضح حمایت کی، لہٰذا علاقے کی سیاست بدلتی نظر نہیں آتی۔ موجودہ امریکی پوزیشن جوں کی توں رہے گی مگر اس پوزیشن کو دیکھتے ہوئے بھی پاکستانی سفارت کار بے خبر پڑے رہے۔ محمد علی کی موت کا نادر موقع ملا پر اس کی میت میں کوئی نہ گیا، جہاں امریکا کے چنیدہ لوگ جمع تھے، سفارتکار، انتظامی امور والے، یہ تعزیتی اجلاس بلامبالغہ امریکی سیاسی تاریخ کا طویل ترین اجلاس تھا، جس میں امریکا کی موجودہ کابینہ کے علاوہ حزب مخالف کے لوگ بھی شامل تھے۔ ایک اعتبار سے امریکی سابق صدر کلنٹن اس کی صدارت کر رہے تھے یا یوں کہیے کہ یہ جلسہ انھی کے زیر انتظام تھا۔ مگر تعجب ہے کہ پاکستان کے حلقہ سیاست کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لابی کے نام پر ہر شخص جو وابستہ ہے محض رقم بٹورنے میں مصروف ہے۔
اگر آپ جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ ہم سعودی عرب کے زیر سایہ سیاست پر عمل پیرا ہیں جب کہ سعودی عرب خود امریکی سیاست کے تابع ہے، ہماری اور امریکی سیاست کے ان امور میں مماثلت ملے گی جن امور پر سعودی عرب کا موقف واضح ہے، ورنہ دیگر معاملات پر واضح موقف نہیں ہے۔ آپ خود سعودی عرب کو دیکھیں کہ نریندر مودی کو کس قدر توقیر بخشی، ان کے دورے بھی کامیاب رہے اور امریکی دورہ بھی کامیاب، اس طرح نریندر مودی نے ہر وہ محاذ سر کر لیا جو پاکستان کو دراصل کرنا تھا، جب کہ پاکستان امریکی سیاسی مفاد کے لیے افغانستان میں استعمال ہوتا آ رہا ہے، معاشی طور پر تو امریکی مفاد کے لیے استعمال ہوا ہی اس کے علاوہ جان بھی گنوائی اور اپنے ملک کو امریکی سیاست کی نذر کر دیا، مگر سیاست کا میدان کوئی اخلاقیات کا میدان نہیں یا احسان کا بدلہ وہ احسان سے دے گا۔
چونکہ امریکا ہمیں امدادی رقوم دیتا ہے اس لیے وہ یہ سوچتا بھی نہیں کہ پاکستان کس کس موقع پر اس کے کام آیا اور آ رہا ہے۔ افغان جنگ جس طریقے سے بھی جاری ہے وہ براستہ پاکستان ہی ہے اور پاکستان کی سیاست بھی اسی جنگ کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ چونکہ پاکستان کی وزارت خارجہ کا قلمدان اس قابل نہیں کہ وہ کوئی حکمت عملی وضع کر سکے، ماسوائے بیان جاری کرنے کے۔گزشتہ دنوں امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مسٹر ٹونر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے اور مزید بہتری کی طرف جانے کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان ڈیفنس کونسل کی جانب سے مخالفانہ اور جنگجویانہ بیانات جاری رہتے ہیں، ایسے ہی بیانات بھارتی مذہبی پارٹیاں بھی دیتی رہتی ہیں، ان بیانات سے دونوں ملکوں کے عوام کے مابین دوریاں بڑھتی رہتی ہیں۔ امریکا کے حکمران کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں، اسی لیے دونوں ملکوں کے عوام میں دوریاں بڑھ رہی ہیں اور دونوں ملکوں کے مذہبی لیڈروں یعنی بھارتی ہندو لیڈر اور پاکستانی مذہبی لیڈروں کو یہ احساس نہیں ہے کہ دونوں ملکوں کی اقلیت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی قوت کے استعمال کا حامی ہے، پاکستان این ایس جی کے لیے سرگرداں ہے۔ ملک زبردست توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی سیاسی لیڈرشپ عالمی طور پر اچھی پوزیشن میں نہیں ہے، لہٰذا سیاسی لیڈر شپ کے بیانات بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں، بمقابلہ نریندر مودی ہمارے لیڈروں کا امیج بہت خراب ہے، خصوصاً زر اور کرپشن کا شور و غل ہمارے ملک کو کہاں سے کہاں لے گیا۔ ایسے ملک کی سیاسی مدد بھی کرنا آسان نہیں گو کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے افکار عالمی سطح پر یکساں ہیں۔
اس لیے امریکا پر عسکری قیادت کی وجہ سے کچھ دباؤ میں رہنا ممکن ہے مگر اچانک ڈیموکریٹس نے جو محمد علی کی وفات سے کمایا تھا وہ اچانک آئی ایس آئی کے دھماکے کی وجہ سے برباد ہو گیا اور اس موقع کو ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ گزشتہ اتوار کے نائٹ کلب دھماکے میں 50 افراد کی موت اور 100 کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کو مسلمانوں کی جانب نفرت میں موڑ دیا جو ڈیموکریٹس کے لیے اور ملک کے لیے ایک صدمے کا باعث ہے۔ بہرحال پاکستان کے سفارتی موقف میں کوئی واضح پیشرفت کے امکانات نہیں، ابھی پاکستان کو فکری محاذ پر بہت پرپیچ تفکر اور مکالموں کی ضرورت ہے اور قیادت کا اچھا عالمی معیاری ریکارڈ درکار ہے۔