پہلے آپ
آف شور کمپنیوں کے انکشافات کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں جو الفاظ اور بیانات کی جنگ شروع ہوئی تھی
آف شور کمپنیوں کے انکشافات کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں جو الفاظ اور بیانات کی جنگ شروع ہوئی تھی، اسے جمہوریت کے حصار میں لا کر ٹی او آرز کے تعین کی طرف دھکیل دیا گیا، ٹی او آرز پر اتفاق رائے کے لیے جو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی اس کی متعدد نششتیں ہو چکی ہیں، مسئلہ نازک ہے اور اسے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
اس مسئلے سے ہمارے وزیراعظم اس قدر ٹینشن کا شکار تھے کہ انھیں وقت سے پہلے ہی بائی پاس کرانا پڑا۔ وزیراعظم بڑے دل گردے کے آدمی ہیں، وہ کئی کیسوں سے بڑی کامیابی کے ساتھ گزر چکے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اتفاق فاؤنڈری کیس میں میاں صاحب کا پورا خاندان ملوث تھا اور میاں برادران نے اس حوالے سے قرض لینے سے انکار بھی نہیں کیا تھا، بلکہ ان کا موقف یہ تھا کہ ہمیں نقصان ہو گیا ہے، اگر بینک قرض وصول کرنا چاہتا ہے تو اتفاق فاؤنڈری کو فروخت کر کے لے لے۔ کوئی شریف آدمی اس سے زیادہ شریفانہ آفر اور کیا کر سکتا ہے لیکن اسے اتفاق کیس یا ''حسن اتفاق'' کہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے شریف برادران کو ان کے خلاف چلائے گئے تمام مقدمات سے باعزت بری کروا دیا اور وہ سرخرو ہو کر ان بلاؤں سے نکلے۔
میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ ناک کی سیدھ میں بڑی بے فکری سے چل رہی تھی بس فکر تھی تو عمران خان کی جو میاں صاحب کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گئے تھے لیکن میاں صاحب کی شریف النفسی دیکھیے کہ ایسے مخالف نمبر 1 کا انھوں نے بھی نام نہیں لیا بس کہا تو اتنا کہا کہ ''ایک شخص موقعے کی تاک میں لگا رہتا ہے اور موقع ملتے ہی ٹانگ کھینچنا شروع کر دیتا ہے''۔ اسے ہم نواز شریف کی بد قسمتی کہیں یا عمران خان کی خوش قسمتی کہ پانامہ لیکس والوں نے آف شور کمپنیوں کو اس طرح لیک کیا کہ میاں صاحب کے دو فرزندان ارجمند اور ایک دختر نیک اختر پانامہ لیکس کے گھیرے میں آ گئے اور یہ ایشو اس قدر برننگ بن گیا کہ اس کی تپش کم کرنے کے لیے وزیراعظم کو دو بار قوم سے خطاب کرنا پڑا۔ وزیراعظم نے بڑی نیک نیتی سے پانامہ لیکس کے الزامات کی تردید اپنے خطاب میں کرنے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن کے بال کی کھال نکالنے والے مدبرین نے قومی خطاب کو فرد جرم بنا دیا۔
پانامہ پیپز نے جو لیک کیا ہے اس میں میاں صاحب کی فیملی ہی نہیں بلکہ سیکڑوں دیگر شرفا بھی ملوث ہیں۔ اصولاً تمام ملوث شدگان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے جس پر سب کو اتفاق ہے لیکن مسئلہ آ کر اٹکا ہے ''پہلے آپ'' پر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ چونکہ وزیراعظم ملک کی آن اور عوام کی جان ہوتا ہے اور اتفاق سے آن اور جان دونوں پر بنی ہوئی ہے، لہٰذا بسم اﷲ وزیراعظم سے ہونی چاہیے۔ ادھر مصاحبین کا موقف یہ ہے کہ تحقیقات سب کے خلاف ایک ساتھ ہونی چاہیے، وہ پہلے آپ کے فارمولے کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اپوزیشن کہتی ہے کہ بے شک سارے ملزمان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے لیکن اس کی بسم اﷲ میاں صاحب سے اس لیے ہونا چاہیے کہ وہ اس پاکستان کے سب سے بڑے ہیں۔ اسی حوالے سے ان کی ملک کے اندر اور ملک کے باہر عزت ہوتی ہے اب چونکہ ملک کے سب سے بڑے میاں کی عزت پر حرف آ گیا ہے لہٰذا سب سے پہلے اس کی کلیئرنس کی ضرورت ہے۔
حکومت کے مصاحبین اس حوالے سے ہزار دلیلیں دے رہے ہیں، منتیں کر رہے ہیں ساتھ ساتھ دھونس بھی دے رہے ہیں لیکن اعتزاز احسن ٹس سے مس نہیں ہو رہے کہ جو بات بھی ہو گی پہلے آپ سے ہو گی۔ اسے میاں فیملی کی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے صاحبزادوں نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف سرعام کر لیا ہے۔ بی بی مریم نواز نے پہلے تو یہ کہا کہ نہ میری کوئی آف شور کمپنی ہے نہ لندن میں اربوں مالیت کے فلیٹس ہیں لیکن پانامہ لیکس نے مریم نواز کی آف شور کمپنیوں کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے اور اپوزیشن کے کھوجیوں نے لندن میں مریم نواز کے چار فلیٹس کا کھوج بھی نکال لیا ہے اور ایک سائل کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کے مبینہ چار فلیٹس کی تفصیلات ہائی کورٹ میں جمع کرنے کی اجازت دیدی ہے یوں میاں فیملی کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
ہم جب نوجوان تھے اور زیر تعلیم تھے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمارا اور ہمارے دوستوں کا ایک ہی کام ہوتا تھا کہ آبادی کے قریب کے ویران علاقوں میں جاتے اور ادھر ادھر بکھرے پتھر احتیاط سے اٹھاتے اور ''اتفاق'' سے ہر پتھر کے نیچے بچھو نکلتے تھے، بعض پتھروں کے نیچے سے سانپ بھی برآمد ہو جاتے تھے، ہمارے لڑکپن کا عالم یہ تھا کہ تمام بچھوؤں کو رسی میں باندھ کر ریل کی پڑی سے باندھ دیتے تھے اور جب یہ بچھو ٹرین کی زد میں آ کر کچلا ہوا گوشت بن جاتے تو ہمارے دوست تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا بھی یہی عالم ہے کہ اس کے ہر پتھر کے نیچے بچھو یا سانپ بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ پتھر ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں کس کس پتھر کو اٹھاؤ گے اور کتنے سانپ کتنے بچھو نکالو گے؟ قانون نہ ریل ہوتا ہے نہ ریل کی پٹری یہ ایک آنکھ مچولی کا کھیل ہے سرمایہ دارانہ نظام نے قانون میں ستر چید بنا رکھے ہیں جس میں سے بڑے سے بڑے مجرم آسانی سے گزر جاتے ہیں۔
غالباً اسی خوف اور احتیاط کی وجہ سے اپوزیشن کے داناؤں نے قانون کا رخ کرنے کے بجائے سڑکوں کا رخ کرنے کا اعلان کیا ہے چونکہ گرمی بھی شدید ہے اور رمضان بھی چل رہے ہیں، لہٰذا اس موسم میں تو سڑکوں پر آنا مشکل ہے۔ غالباً اسی احتیاط کی وجہ سے عقلمند اپوزیشن نے عید کے بعد عوام کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کیا ہے۔
اس اعلان میں اگرچہ حکمت پوشیدہ ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جولائی میں بھی سخت گرمی کا امکان ہے اور اصل بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس نے مہنگائی کم کرنے کے کسی نسخے کا انکشاف کیا ہے نہ بے روزگاری دور کرنے یا بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا کوئی مژدہ سنایا ہے عوام اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں اور اس کی مخالفت کو اشرافیہ کے گلی ڈنڈے کا کھیل سمجھتے ہیں۔ انھیں 1968ء اور 1977ء کے تجربات یاد ہیں ایسی صورت میں عوام سے سڑکوں پر آنے کی توقع رکھنا مناسب ہے بہر حال ''پہلے آپ'' کے کھیل کا آخر کار ایک اینڈ ہو گا، اہل سیاست کامیاب یا ناکام ، عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔