ہم سا ہو تو سامنے آئے

پاکستان میں ابتری کی موجودہ صورتحال اچانک آسمان سے نازل نہیں ہوئی۔


نجمہ عالم June 17, 2016
[email protected]

KARACHI: اقتصادی، معاشرتی، زرعی، صنعتی اور سب سے بڑھ کر علمی وسیاسی کون سا بحران ہے جو سرزمین پاک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ ہر شعبے کی پستی کے باوجود کون سی طاقت ہے جو اس ملک کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے جس ملک کے عوام ہی نہیں بلکہ حکمرانوں اور سیاستدانوں تک کی بدعنوانیاں منظر عام پر آرہی ہوں۔ اس سلسلے میں بزرگوں کا کہنا ہے اور بڑی حد تک درست بھی کہ جس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں افراد کا خون شامل ہو، جو مال، جان اور عزت کی قربانیوں کے بعد اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہو، اس کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی جو ''قادر مطلق ہے'' قائم رکھے ہوئے ہیں تاکہ خون شہدا رائیگاں نہ جائے۔ جو سرحد جان سے گزر گئے وہ ہمارے لیے رب کائنات سے پروانہ آزادی بھی دلاگئے۔ حق یہ ہے کہ اگر حق دار کا حق مارا جائے اور نااہل کو حق دار کی جگہ دی جائے تو اس سے بڑا ظلم اور بربادی کی اصل وجہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

پاکستان میں ابتری کی موجودہ صورتحال اچانک آسمان سے نازل نہیں ہوئی۔ اس ملک خداداد نے خوشحالی اور کسی حد تک ترقی و ایمانداری کا کچھ عرصہ بھی دیکھا ہے۔ جب پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں اور وطن کی مٹی سے محبت کرنے والوں کی وہ نسل موجود تھی جو خاک وخون کا دریا عبور کرکے اپنے خوابوں کی سرزمین پر وارد ہوئے تھے۔ کچھ بھی پاس نہ ہوتے ہوئے زندگی کا ازسر نوآغاز کرتے ہوئے بھی وہ خود کوخوش قسمت سمجھتے تھے کہ اپنے وطن کو آزاد ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، مگر رفتہ رفتہ اپنی اپنی ترجیحات پر ملک کے مستتقبل اور مفاد سے چشم پوشی کرکے ہم نے جو نقصان اٹھایا وہ ناقابل تلافی ثابت ہوا۔

پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے زراعت اس خطے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، صنعتکار حکمرانوں نے زراعت کو نظراندازکرکے زرعی مصنوعات میں کفالت کی جانب بڑھتے ہوئے ملک کو اس حال میں پہنچا دیا کہ اب ہماری گندم، کپاس اور (فروٹ) پھلوں کی بجائے مشرق وسطیٰ، یورپ اور سعودی عرب میں بھارتی اشیا نے بھرپور مارکیٹ بنالی ہے۔ ایک زمانہ تھا (اب سے محض 32,30 برس قبل) کہ متحدہ عرب امارات میں لوگ فروٹ مارکیٹ میں پاکستانی آم، کینو بطور خاص اور دیگر پھل خریدنے کو ترجیح دیتے تھے۔

ہمیں خود متحدہ عرب امارات میں کئی برس رہنے کا تجربہ ہوا ہے جب ہم پاکستانی پھل لوگوں کو خریدتے دیکھتے تھے تو فخر سے سربلند ہوجاتا ہے، مگر جب سے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا والی پالیسی نے فروغ پایا اور ہر شخص نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے پیاروں کو بلا اہلیت و صلاحیت جہاں موقع ملا فٹ کرادیا تو ہر شعبہ زندگی میں زوال کا آغاز ہوگیا۔ اگر احساس زوال کے بعد بھی یہ پالیسی تبدیل کردی جاتی اور اپنے نکمے، ناکارہ اقربا کے بجائے ملکی مفاد کو مدنظر رکھا جاتا تو جو نقصان ہوچکا تھا اس کا بھی ازالہ ممکن تھا اور ملکی صورتحال بہتر ہوسکتی تھی مگر اس عمل کے لیے حب الوطنی شرط اول ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری لغت سے لفظ ''حب الوطنی'' خارج ہی کردیا گیا ہے یا پھر اس لفظ کے معنی ہی تبدیل ہوگئے ہیں۔

جس کے ہاتھ کسی بھی جائزوناجائز طریقے سے کچھ دولت لگ گئی وہ تو ہوا میں اڑنے لگا اور دوکے چار، چار کے بارہ بنانے میں مصروف ہوگیا، چلیے جائز ذرایع سے دولت کمانا بھی کوئی برائی نہ تھی اگر وہ وطن ہی کے کام آتی مگر ملک میں رہ کر تمام حقوق حاصل کرکے، تمام مراعات کے باوجود صرف ٹیکس بچانے کی خاطر اپنی دولت غیر ملکی معیشت بڑھانے اور اپنے ملک کو قرض کے بوجھ تلے دبانے کے لیے غیر ممالک میں منتقل کرنا حب الوطنی کہی جاسکتی ہے یا کھلی غداری اگر کوئی صاحبان اقتدار سے بڑھتی ہوئی غربت اور ان کی پرتعیش طرز زندگی کے بارے میں سوال کرلے تو غدار وطن قرار دے دیا جائے۔

ملکی مفاد کے خلاف عمل تو کسی گرفت میں نہیں آتا ، عوامی مینڈیٹ کے بل بوتے پر ایوانوں میں اکثریت سے ہر طرح کی لوٹ مار کا لائسنس مل جاتا ہے کھیل کے میدان سے لے کر ہر اس شعبے میں جہاں جہاں ہمارے وطن کا نام روشن تھا سب جگہ سے ہماری شہرت و صلاحیت کا جنازہ نکل چکا ہے وجہ صرف باہنر، باصلاحیت افراد کا استحصال جس کے لیے علاقائی، لسانی، صوبائی، مذہبی ہر طرح کے تعصب کو ہوا دے کر باصلاحیت افراد کو ان کا حق نہ دینا ہے۔

منفی طرز سیاست نے بھی ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب سیاست محض حصول اقتدارکے لیے ہوگی ملک و قوم کی درست رہنمائی اور خدمت خلق کے لیے نہیں تو پھر ملکی مفادات کس کے پیش نظر ہوں گے؟ احتجاج، ہڑتال اور دھرنوں سے ملکی معیشت تو کبھی پنپ نہیں سکتی البتہ ملکی املاک کو نقصان ہی ہوگا۔ سیاست میں قدم رکھتے ہی ہر شخص راتوں رات ارب پتی بننے کے خواب دیکھنے لگتا ہے اور یہ صورتحال بزعم خود ''عوامی پارٹیوں'' نے اپنے ٹکٹ فروخت کرکے پیدا کی ہے۔ عوامی خدمت، محب وطن افراد کو سیاست سے دور رکھ کر بھی سیاست کو تجارت بنایا گیا ہے۔ آج ایوان میں صرف جاگیردار، سرمایہ دار ہی پہنچ سکتے ہیں۔ عام آدمی کا راستہ تو دولت اور اسلحے سے روکا گیا یا پھر جن سیاسی پارٹیوں کو جاگیرداروں کی آشیرباد حاصل نہیں ان کے لیے سیاست ذلت اور موت یا پھر قید اور ماورائے عدالت قتل یا لاپتہ ہونا کا دوسرا نام بنادیا گیا۔ لندن کا میئر صادق خان کے بننے پر تو بڑی خوشیاں منائی گئیں مگر کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ہمارے ملک میں بھی کسی بس یا ٹرک ڈرائیور کا یا کسی مزدورکا بیٹا میئر یا ایوان کا ممبر بن سکتا ہے؟

جہاں تک ملک کے ہر فرد کا بنیادی حق یعنی تعلیم کے حصول کا تعلق ہے تو تمام معیاری اسکول، بڑی بڑی جامعات کی موجودگی میں غریب کا بچہ آج بھی تعلیم سے محروم ہے کیونکہ یہ تمام جامعات علم کے فروغ کے بجائے تجارتی بنیادوں پر بنائی گئی ہیں ۔ ان جامعات، اسکولوں اور کالجوں کا نام تو بہت ہے مگرکیا وہاں کسی مزدور،کسان یا کسی محنت کش کا بچہ تعلیم حاصل کرسکتا ہے؟ تعلیم کو تجارت بنانے سے جو نقصان ہوا اس میں ملک کی اکثریت اپنی اہلیت و صلاحیت سے آگاہ ہی نہیں اور نئی قیادت کے بحران کی وجہ بھی وہی ہے اقتدار ماضی کی بادشاہت کی طرح وراثت میں مل رہا ہے چاہے وارث میں کوئی صلاحیت ہو یا نہ ہو۔

جو ملک اپنے تعلیمی نظام جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ نہ دے سکے اس سے کوئی امید وابستہ کرنا سوائے خوش فہمی کے اورکیا کہی جاسکتی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں