سندھ میں جمہوریت یا بادشاہت
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت اعلان کردے
لاہور:
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت اعلان کردے کہ یہاں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے۔ سندھ حکومت صرف کہنے کی حد تک ہی عدالتی فیصلوں کی پابند ہے جو صرف کاغذوں تک ہی محدود ہے عمل جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا۔ سندھ حکومت میں گڈگورننس کہاں رہے گی جب پسند نا پسند پر تقرری ہوگی اور ایک شخص کو نوازنے کے لیے دوسرے کی حق تلفی کو 15 سال گزرگئے مگر اسے حق نہیں ملا۔ انھیں سپریم کورٹ میں آئے 7 سال ہوگئے لیکن سندھ حکومت کا یہی رویہ ہے۔
سندھ میں تبادلوں اورترقیوں میں عدالتی فیصلے عدم عمل درآمدکیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سندھ حکومت کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے مزید کہا کہ مقررہ قابلیت کے بغیرایک نائب قاصد کوگریڈ 16 میں ترقی دی گئی ،کیا اسی کو میرٹ کہا جاتا ہے اگر لوگ عدالت کا دروازہ ہی نہ کھٹکھٹاتے تو صورتحال کا پتا ہی نہ چلتا کہ عدالتی فیصلے پر عمل کی بجائے کہانیاں گھڑ لی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں چیف سیکریٹری سندھ سے تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ اس سے ایک روز قبل دائی کی جگہ مرد بھرتی کیے جانے کی اطلاع پر سوموٹو ایکشن کیس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آخر سندھ حکومت میرٹ پرکیوں نہیں چل رہی۔ جب میرٹ کو نظراندازکرکے گھر بیٹھے بھرتیاں ہوں گی توگڈگورننس کیسے آسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے وکیل سے استفسارکیا کہ سندھ حکومت میرٹ پر بھرتیاں کیوں نہیں کرتی؟ میرٹ پر کام نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ سندھ میں سب لوگ برابر نہیں ہیں ہم تو سندھ میں بہتری کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ ایکشن صرف ضلع جیکب آباد کے محکمہ صحت کی گئی 276 غیر قانونی بھرتیوں پر لیا تو انکشاف ہوا کہ سندھ میں قواعد وضوابط اور میرٹ نظراندازکرکے خواتین نرس اور دائیوں کی پوسٹوں پر مرد بھرتی کیے گئے ہیں۔سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو پتا تو سب ہے مگر وہ سپریم کورٹ کو حقائق کیسے بتاتے انھوں نے توسندھ حکومت کی وکالت ہی کرنا تھی اور یہی سلسلہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں 8 سال سے جاری ہے اور یہ اس بات کا واضح ثبوت بھی ہے کہ سندھ میں جمہوری حکومت نہیں بلکہ بادشاہت قائم ہے۔ جس میں قانون قواعد وضوابط اور اہلیت کی بجائے صرف پسند اور سیاسی بنیاد پر من پسند فیصلے ہورہے ہیں اور سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹس نے اس سلسلے میں جتنا اظہار برہمی سندھ حکومت پرکیا ہے اتنا کسی اور صوبائی حکومت کے ساتھ نہیں ہوا ہے۔
سندھ میں کہنے کو توگزشتہ 8 سالوں سے قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہیں جب کہ گزشتہ پی پی حکومت میں مرحوم پیر پگاڑا نے کہا تھا کہ سندھ میں ایک ہی نہیں بلکہ چار وزرائے اعلیٰ ہیں۔ اس وقت وفاق میں آصف علی زرداری صدر اور وفاقی حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی جب کہ سندھ میں متحدہ حکومت میں شامل تھی اور انھی دنوں وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کو بھی سندھ کا ایک وزیر اعلیٰ سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ صدر مملکت کے بااعتماد اور بااختیار وزیر تھے مگر بعد میں ان سے وہ کچھ برداشت نہ ہوا جو سندھ میں ہو رہا تھا اور انھوں نے متحدہ کی وجہ سے وزارت چھوڑی اور اپنے خاص دوست سے ناراض ہوکر پارٹی فیصلوں سے انحراف کیا اوراب وہ پیپلز پارٹی سے بہت دور جا چکے ہیں۔ذوالفقار مرزا میں جرأت تھی اور انھوں نے اپنی وزارت میں اپنے کیے گئے فیصلوں کا اعتراف کیا تھا اور اب بھی وہ عزیر بلوچ کو اپنا دوست مانتے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی عزیر بلوچ سے اپنے کام نکلوا کر بھی اسے اپنا نہیں مانتی جو اہم انکشافات کرچکے ہیں۔سندھ میں بادشاہت وزیر اعلیٰ کی نہیں کسی اور کی ہے جس کے دربار میں وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزرا ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے افسر بھی بیرون ملک جاکر حاضری دیتے ہیں اور ارکان اسمبلی اور پی پی کے رہنما بھی باہر جاکر اسی دربار سے فیض حاصل کرتے ہیں کیونکہ سندھ کا بادشاہ دوستوں کا دوست اور فیاض مشہور ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ میں بادشاہت اور مضبوط ہوگئی ہے اور وفاق سندھ میں اپنی مرضی کا چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس بھی مقرر نہیں کرسکتا۔ دو سال قبل سندھ کو خوش قسمتی سے ایک اچھا آئی جی اقبال محمود مل گیا تھا جو غلطی سے سندھ کی بادشاہی میں ہونے والی بڑی خریداریوں میں رکاوٹ بنا تو اسے چند ماہ بھی برداشت نہ کیا گیا اور اس کی جگہ اپنی مرضی کا آئی جی پی غلام حیدر جمالی لایا گیا جس نے سندھ پولیس میں کرپشن کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور اربوں روپے کی کرپشن کی جس پر بعض اعلیٰ پولیس افسر اعلیٰ عدالتوں میں گئے۔
جس پر سپریم کورٹ بھی آئی جی پر برہم ہوئی مگر سندھ کی مجبور سائیں سرکار چپ رہی اور آخر سپریم کورٹ کا اس سلسلے میں فیصلہ آنے کے خوف سے آئی جی کو ہٹانا پڑا۔حال ہی میں کراچی کو ایک اچھا کمشنر آصف حیدر شاہ ملا تھا جس نے دودھ مافیا کو لگام دی اور اسے 80 روپے کے سرکاری نرخ پر عمل پر مجبورکردیا۔ تجاوزات ہٹانے میں وزیر بلدیات کی نہیں مانی اور ٹینکر مافیا کے غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند کرادیے جس سے سندھ سرکار ناراض ہوگئی اور اسے بھی جلد ہٹا دیا گیا۔ میڈیا کے مطابق کمشنرکراچی کو ایک وزیر کی ناراضی پر ہٹایا گیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ سندھ کے کسی وزیر میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ کمشنر کو ہٹوا سکے ۔ حقیقت میں سندھ کے اصل حکمران نے اپنی نافرمانی پر آصف حیدر شاہ کو ہٹایا اور 48 گھنٹے بعد جس نئے کمشنر نے چارج لیا وہ دبئی سے کراچی آئے ہیں اور سندھ کا اصل حکمران دبئی ہی میں ہے۔
اس سے قبل سندھ کے سیکریٹری اطلاعات کو ہٹا کر جو نیا سیکریٹری لایا گیا وہ اس سے قبل بھی اسی عہدے پر تعینات تھا جسے کرپشن کے سنگین الزامات پر چند ماہ قبل ہی ہٹایا گیا تھا۔ ان کی تقرری کی خبریں میڈیا پر آنے پر حکومت کو ہوش آگیا اور یہ آرڈر واپس لے لیا گیا۔ چیئرمین اینٹی کرپشن بھی نافرمانی پر ہٹائے گئے ہیں۔
سندھ میں جمہوریت نہیں واقعی بادشاہت ہے اور بے شمار تقرروتبادلے، بے ضابطگیاں، اپنوں کو نوازنے کے غیرقانونی فیصلے اور بہت کچھ تو منظر عام پر آتا ہی نہیں جب کہ گڈگورننس کا تو ذکر ہی کیا اس کا جنازہ تو سالوں قبل نکل گیا تھا مگر سائیں سرکار کے نزدیک سندھ میں سب کچھ درست اور الزامات جھوٹے اور سیاسی پروپیگنڈا ہے۔ اگر سپریم کورٹ تک یہ معاملات نہ پہنچتے اور سپریم کورٹ برہم ہوکر چیف سیکریٹری سے جو خود سنگین الزامات کی زد میں ہیں تفصیلی رپورٹ طلب نہ کرتی تو کچھ پتا نہ چلنا تھا اور رہی وفاقی حکومت وہ تو ویسے بھی پیپلزپارٹی کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ،اس پر دباؤ اور عمران خان سیاسی مجبوری کے باعث خاموش ہیں۔