رمضان المبارک میں صحت کی دولت کیسے پائیں
وہ مفید مشورے جن کی مدد سے آپ اس مقدس مہینے میں تندرستی کی نعمت سے مالامال ہو سکتے ہیں
برکات و اکرام کا مقدس مہینا، رمضان المبارک اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ ایک عاقل نے کیا خوب کہا ہے: ''اپنی زندگی رمضان کریم کے ہر دن کی طرح گزاریئے۔ یوں آخرت کا وقت آپ کے لیے یومِ عید بن جائے گا۔''
رمضان کریم کا بیش قیمت تحفہ یہ ہے کہ وہ انسان کو روحانی اور جسمانی، دونوں لحاظ سے اعلیٰ درجے تک پہنچانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اور جسمانی تندرستی پانے کا راز اس گر میں پوشیدہ ہے کہ روزے دار اس مبارک مہینے صحیح غذا کھائے۔ اگر ایسا نہ ہو، تووہ الٹا اپنی صحت خراب کرسکتا ہے۔ ذیل میں رمضان کریم کے دوران جسمانی صحت بہترین رکھنے کے نادر مشورے پیش خدمت ہیں۔
کھجور سے ناتا جوڑیئے
سحری اور افطار میں رواے داروں کے سامنے رنگ برنگ کھانوں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ اشتہا انگیز غذائیں دیکھ کر بہت سے مردوزن خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور الم غلم اشیا سے پیٹ بھرلیتے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ مضر صحت غذائیں بڑی تعداد میں چٹ کرجاتے ہیں۔ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ سحرو افطار میں کھجور ضرور کھائیے۔ یہ بہترین پھل بڑی تعداد میں کاربوہائیڈریٹ، ریشہ (فائبر)، شکر اور پوٹاشیم رکھتا ہے۔ چناںچہ روزے کے طویل دور میں جسم کو اس پھل سے مسلسل توانائی ملتی رہتی ہے۔ کھجور بھوک ختم کرتا اور ہاضمہ بہتر بناتا ہے۔ اس میں چکنائی موجود نہیں ہوتی اور نہ کولیسٹرول ملتا ہے۔ کھجور میگنیشیم اور وٹامن بی۔6 کا بھی عمدہ ذریعہ ہے۔
افطاری میں کھجوریں کھائی جائیں تو انسان بسیار خوری سے بچ سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ چند کھجوریں کھا کر ہی پیٹ بھر جاتا ہے۔ کسی سیانے نے خوب کہا ہے: ''کھانا ہماری ضرورت ہے، مگر سوچ سمجھ کر کھایا جائے، تو وہ آرٹ بن جاتا ہے۔'' چناں چہ افطاری میں کھجوریں کھائیے اور اپنے کھانے کو آرٹ کے درجے پر پہنچا دیجیے۔
پانی پینا مت بھولیے
آج کل یہ رواج بن چکا کہ سحر و افطار، دونوں مواقع پر ہمہ قسم کے مشروبات نوش کیے جاتے ہیں۔ عام طور پہ دسترخوان پر پانی کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ مشروبات چینی اور کیمیائی مادوں کے حامل ہوتے اور انسان کو فربہ کرتے ہیں۔ پانی ان سے کہیں بہتر قدرتی مشروب ہے۔ افسوس کہ روزے داروں کی اکثریت خصوصاً افطاری کے وقت عموماً پانی سے اجتناب برتتی ہے۔
ہمارے جسم کا تقریباً 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اسی لیے جسم میں پانی کی کمی ہمیں مختلف تکالیف میں گرفتار کرادیتی ہے۔ چناں چہ رمضان کریم میں پانی پینے کا اپنا باقاعدہ نظام الاوقات بنائیے تاکہ جسم میں اس قیمتی نعمت کی کمی نہ ہونے پائے۔ یاد رہے، پانی جسم سے زہریلے مادے ختم کرتا اور ہماری بھوک مٹاتا ہے۔
طریق کار یہ ہے کہ افطاری کے وقت کم از کم 2 گلاس پانی پیجئے۔ پھر تراویح پڑھنے جارہے ہیں تو ایک لیٹر بوتل میں پانی بھر کر ساتھ لے جائیے۔ اس طرح سونے لیٹیں، تو سرہانے پانی کا جگ رکھ لیجیے اور وقتاً فوقتاً پانی پیتے رہیے۔ افطاری کے بعد کم از کم دو لیٹر پانی ضرور پیجیے۔اس نظام الاوقات پر عمل کرنے سے آپ کے جسم میں پانی کا توازن مناسب رہے گا۔ تب آپ سحری کے وقت دو گلاس پانی پی کر بھی روزہ رکھ سکتے ہیں۔
بعض مردوزن افطاری میں مشروبات کے کئی گلاس چڑھا جاتے ہیں۔ یہ صحت بخش چلن نہیں۔ یوں وہ خصوصاً گرمیوں میں مسلسل پیاس کا شکار رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مشروبات برف ڈال کر ٹھنڈے ٹھار بنائے جاتے ہیں۔اور مشروب یا پانی جتنا زیادہ ٹھنڈا ہو، وہ اتنی ہی زیادہ پیاس لگاتا ہے۔ لہٰذا زیادہ سرد پانی بھی ہرگز نوش نہ کریں۔روزے کے دوران سعی کیجیے کہ آپ کا پسینہ نہ نکلے۔ پسینہ نکلنے سے جسم بیش قیمت پانی سے محروم ہوجاتا ہے۔ چناں چہ دھوپ میں یا گرم جگہ کم سے کم وقت گزارئیے۔
افطاری میں جلد بازی نہ کیجیے
ہمارے ہاں یہ چلن بھی جنم لے چکا کہ افطاری کے موقع پر پکوڑے، سموسے، کچوریاں، چپس وغیرہ ضرور موجود ہوں اور لوگوں کی اکثریت انہیں کھا کر ہی روزہ افطار کرتی ہے۔ یہ مضر صحت رواج ہے۔
ماہرین غذائیات کے مطابق روزے میں افطاری ہی سب سے اہم وقت ہے۔ تب پچھلے پندرہ گھنٹے سے جسم حالتِ آرام میں ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں پیٹ سکڑ جاتا ہے اور آنتیں بھی متحرک نہیں رہتیں۔ ایسی حالت میں نہایت ضروی ہے کہ ٹھوس غذا رفتہ رفتہ نظام ہضم میں داخل کی جائے۔ اگر افطاری میں انسان پیٹ سموسوں، پکوڑوں وغیرہ سے بھرلے، تو نہ صرف نظام ہضم خراب ہوتا ہے بلکہ گردوں جیسے اہم اعضا کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسی طرح افطار کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے چند کھجوریں کھائیے پھر دو گلاس پانی نوش کریں۔ پھر گوشت یا سبزیوں کی یخنی پیجیے جو جسم کی کھوئی ہوئی توانائی بحال کرتی ہے۔ آخر میں سلاد کھائیے۔ جب یہ سب کچھ کھاپی چکنے کے بعد بھی آپ بھوک محسوس کریں، تب ٹھوس غذا کی طرف متوجہ ہوں۔
اگر سلاد کھانے کے بعد آپ کا پیٹ بھرجائے، تو دسترخوان سے اٹھ جائیے۔ نماز پڑھیے اور کچھ کام کاج کیجیے۔ آپ ٹھوس غذا بعد میں بھی کھاسکتے ہیں۔ یاد رکھیے، افطار کے موقع پر بسیار خوری کرنا کئی امراض کو دعوت دینا ہے۔ زیادہ کھانے پینے سے نفسیاتی و جسمانی، دونوں طرح سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔
روزے دار خوب کھاپی لے، تو وہ طبیعت میں سستی اور کسل مندی محسوس کرتا ہے۔ ایسی حالت میں بعض اوقات نماز بھی چھوٹ جاتی ہے جو گناہ ہے۔ جبکہ بسیار خوری سے سو بیماریوں کی ماں، موٹاپا انسان کو آ چمٹتا ہے۔ لہٰذا بہ موقع افطار سیال اشیا سے پیٹ بھرئیے تاکہ پہلے جسم کھوئی ہوئی توانائی پاسکے۔اگر بھوک ختم نہ ہو،تب ٹھوس غذا کام میں لائیے۔
صحت بخش غذا کو ترجیح دیں
کوشش کیجیے کہ سحری اور افطار میں معدنیات و وٹامن سے بھر پور غذائیں کھائیے۔ جبکہ زیادہ حرارے (کیلوریز)، نمک، چینی اور چکنائی رکھنے والی غذاؤں سے پرہیز کیجیے۔ یہ یاد رہے کہ غذاؤں کے پانچ بڑے گروپ ہیں: اناج، سبزیاں، پھل، گوشت اور ڈیری مصنوعات۔ ان گروہوں میں سے صحت مند غذاؤں کا انتخاب کیجیے۔
ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ روزانہ انسان کی آدھی غذا سبزیوں و پھلوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ اس کے بعد 25 فیصد غذا اناج اور بقیہ 25 غذا گوشت اور ڈیری پر مشتمل ہو۔ یوں انسان کو غذا سے وافر معدنیات اور وٹامن ملتے ہیں اور اس کی صحت تسلی بخش رہتی ہے۔
تیل میں تلے کھانے کم سے کم کھائیے۔ نیز چکنائی سے بھرپور غذاؤں سے بھی دور رہیے۔ آپ گوشت کھانے کے شوقین نہیں، تو غذا میں انڈا، دودھ اور دالیں ضرور شامل رکھیے۔ یہ غذائیں ہمیں پروٹین فراہم کرتی ہیں۔ جسم کے خلیے یہی عنصر پاکر اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔
نمکین اور میٹھی غذاؤں سے پرہیز
افطار میں پانی پینے کے بعد کھجور کے علاوہ دیگر شکر والی غذاؤں سے پرہیز کیجیے جن میں کیک، بسکٹ، مٹھائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ایسی میٹھی اشیا دراصل پیٹ میں گیس و اپھارہ پیدا کرتیں نیز ہاضمے کا عمل سست کردیتی ہیں۔
میٹھی غذاؤں کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ خون میں شکر کا توازن بگاڑ دیتی ہیں۔ اسی بگاڑ کی وجہ سے انسان کا معدہ مزید میٹھی غذائیں مانگتا اور ان کا عادی بن جاتا ہے۔ ماہرین غذائیات مشورہ دیتے ہیں کہ افطار کے دو تین گھنٹے بعد اعتدال سے میٹھی غذائیں مثلاً کھیر، سوئیاں، کیک وغیرہ تناول کیجیے۔
واضح رہے، پھلوں اور دیگر غذاؤں میں قدرتی طور پر پائی جانے والی شکر ہماری صحت بخش غذا کا حصہ ہے۔ اس شکر کا اعتدال سے استعمال ضروری ہے۔ اصل مسئلہ چینی اور دیگر مصنوعی مٹھاسیں پیدا کرتی ہیں۔ ان کے زیادہ استعمال سے انسان ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور موٹاپے جیسی موذی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
اسی طرح خصوصاً افطار کے موقع پر نمکین غذاؤں مثلاً پکوڑے، سموسے، کچوریاں، چپس ،پیزہ وغیرہ کی فراوانی بھی انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ انسان کو روزانہ صرف ایک چمچ نمک درکار ہوتا ہے۔ اس نمک میں شامل سوڈیم انسانی جسمانی نظام کو صحت مند رکھتا ہے۔ مگر نمکین غذاؤں کا زیادہ استعمال خاصا خطرناک ہے۔جسم میں نمک کی زیادتی سے انسان کینسر، امراض قلب، فالج، ہائی بلڈپریشر اور امراض گردہ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کی خاطر نمکین غذاؤں کو اعتدال میں کھائیے۔
میٹھی، نمکین، مسالے دار اور پروسیسڈ یعنی تیار شدہ غذائیں حد سے زیادہ کھانے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ انھیں کھانے کے بعد پیاس بہت لگتی ہے۔ مزید براں جسم ان غذاؤں کو بہت جلد ہضم کرلیتا ہے۔ چناںچہ بھوک بھی جلد چمک اٹھتی ہے۔ نتیجتاً انسان ایسی غذائیں خوب کھاپی کر موٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے آخر میں وہ حیرت سے سوچتا ہے: ''ارے یہ کیا ہوا؟ میں نے روزے تو پورے رکھے ہیں، پھر میرا وزن کیسے بڑھ گیا؟'' اسے احساس نہیں ہوتا کہ اس خرابی کے ذمے دار غیر صحت بخش کھانے ہیں ۔
یہ ڈائٹنگ کا وقت نہیں!
گلوکوز ہمارے جسم کا ایندھن ہے۔ ہم یہی ایندھن پاکر اپنے کام سرگرمی سے انجام دیتے ہیں۔ ہمارا جسم غذا کے ذریعے گلوکوز حاصل کرتا ہے۔ یہ گلوکوز زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے کام آتی ہے۔ پھر جسم کو گلوکوز نہ ملے، تو وہ جسم میں ذخیرہ شدہ چکنائی سے بطور ایندھن کام لیتا ہے۔ یہ بات روزے داروں کو یاد رکھنی چاہیے۔
بہت سے پاکستانی مردوزن رمضان المبارک کی آمد پر وزن کم کرنے کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ تب وہ جان بوجھ کر کم غذا کھاتے ہیں تاکہ اپنا وزن کم کرسکیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں ذخیرہ شدہ چکنائی چند دن ہی جسمانی نظام کو ایندھن فراہم کرپاتی ہے۔ جب کہ رمضان کریم تو پورا ایک ماہ برقرار رہتا ہے۔
چناں چہ انسان پورا ایک ماہ کم غذا کھائے، تو وہ ایک خطرناک طبی خلل ''کیٹو ایسڈوسیسز''(Ketoacidosis) میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دراصل جب انسانی جسم ذخیرہ شدہ چکنائی یا چربی استعمال کرے، تو اس کی ٹوٹ پھوٹ سے کیٹون (Ketone) نامی تیزابی مادہ جنم لیتا ہے۔ اگر جسم میں اس تیزابی مادے کی کثرت ہوجائے، تو یہ حالت ''کیٹو ایسڈوسیسز'' کہلاتی ہے۔ اس حالت میں خون زہریلا ہونے کے باعث انسان مر بھی سکتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر انسانی جسم ذخیرہ شدہ چکنائی استعمال کرے، تو یہ صورت حال چند دن ہی رہنی چاہیے۔ طویل مدت برقرار رہے تو کیٹو ایسڈوسیسز کی خطرناک کیفیت جنم لے گی۔ اس خطرے کے باعث ماہ رمضان میں وزن کم کرنے کا منصوبہ ہرگز نہ بنائیے۔
سحری ضرور کیجیے
مرد وزن سحری میں غذا کھا پی لیں، تو انھیں روزمرہ کام انجام دینے کی خاطر توانائی مل جاتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ سحری میں ثابت اناج سے بنی اشیا کھائیے۔ یہ غذائیں آہستہ آہستہ ہضم ہوتیں اور طویل عرصہ خون میں شکر کی سطح متوازن رکھتی ہیں۔
رمضان کریم کا بیش قیمت تحفہ یہ ہے کہ وہ انسان کو روحانی اور جسمانی، دونوں لحاظ سے اعلیٰ درجے تک پہنچانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اور جسمانی تندرستی پانے کا راز اس گر میں پوشیدہ ہے کہ روزے دار اس مبارک مہینے صحیح غذا کھائے۔ اگر ایسا نہ ہو، تووہ الٹا اپنی صحت خراب کرسکتا ہے۔ ذیل میں رمضان کریم کے دوران جسمانی صحت بہترین رکھنے کے نادر مشورے پیش خدمت ہیں۔
کھجور سے ناتا جوڑیئے
سحری اور افطار میں رواے داروں کے سامنے رنگ برنگ کھانوں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ اشتہا انگیز غذائیں دیکھ کر بہت سے مردوزن خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور الم غلم اشیا سے پیٹ بھرلیتے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ مضر صحت غذائیں بڑی تعداد میں چٹ کرجاتے ہیں۔ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ سحرو افطار میں کھجور ضرور کھائیے۔ یہ بہترین پھل بڑی تعداد میں کاربوہائیڈریٹ، ریشہ (فائبر)، شکر اور پوٹاشیم رکھتا ہے۔ چناںچہ روزے کے طویل دور میں جسم کو اس پھل سے مسلسل توانائی ملتی رہتی ہے۔ کھجور بھوک ختم کرتا اور ہاضمہ بہتر بناتا ہے۔ اس میں چکنائی موجود نہیں ہوتی اور نہ کولیسٹرول ملتا ہے۔ کھجور میگنیشیم اور وٹامن بی۔6 کا بھی عمدہ ذریعہ ہے۔
افطاری میں کھجوریں کھائی جائیں تو انسان بسیار خوری سے بچ سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ چند کھجوریں کھا کر ہی پیٹ بھر جاتا ہے۔ کسی سیانے نے خوب کہا ہے: ''کھانا ہماری ضرورت ہے، مگر سوچ سمجھ کر کھایا جائے، تو وہ آرٹ بن جاتا ہے۔'' چناں چہ افطاری میں کھجوریں کھائیے اور اپنے کھانے کو آرٹ کے درجے پر پہنچا دیجیے۔
پانی پینا مت بھولیے
آج کل یہ رواج بن چکا کہ سحر و افطار، دونوں مواقع پر ہمہ قسم کے مشروبات نوش کیے جاتے ہیں۔ عام طور پہ دسترخوان پر پانی کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ مشروبات چینی اور کیمیائی مادوں کے حامل ہوتے اور انسان کو فربہ کرتے ہیں۔ پانی ان سے کہیں بہتر قدرتی مشروب ہے۔ افسوس کہ روزے داروں کی اکثریت خصوصاً افطاری کے وقت عموماً پانی سے اجتناب برتتی ہے۔
ہمارے جسم کا تقریباً 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اسی لیے جسم میں پانی کی کمی ہمیں مختلف تکالیف میں گرفتار کرادیتی ہے۔ چناں چہ رمضان کریم میں پانی پینے کا اپنا باقاعدہ نظام الاوقات بنائیے تاکہ جسم میں اس قیمتی نعمت کی کمی نہ ہونے پائے۔ یاد رہے، پانی جسم سے زہریلے مادے ختم کرتا اور ہماری بھوک مٹاتا ہے۔
طریق کار یہ ہے کہ افطاری کے وقت کم از کم 2 گلاس پانی پیجئے۔ پھر تراویح پڑھنے جارہے ہیں تو ایک لیٹر بوتل میں پانی بھر کر ساتھ لے جائیے۔ اس طرح سونے لیٹیں، تو سرہانے پانی کا جگ رکھ لیجیے اور وقتاً فوقتاً پانی پیتے رہیے۔ افطاری کے بعد کم از کم دو لیٹر پانی ضرور پیجیے۔اس نظام الاوقات پر عمل کرنے سے آپ کے جسم میں پانی کا توازن مناسب رہے گا۔ تب آپ سحری کے وقت دو گلاس پانی پی کر بھی روزہ رکھ سکتے ہیں۔
بعض مردوزن افطاری میں مشروبات کے کئی گلاس چڑھا جاتے ہیں۔ یہ صحت بخش چلن نہیں۔ یوں وہ خصوصاً گرمیوں میں مسلسل پیاس کا شکار رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مشروبات برف ڈال کر ٹھنڈے ٹھار بنائے جاتے ہیں۔اور مشروب یا پانی جتنا زیادہ ٹھنڈا ہو، وہ اتنی ہی زیادہ پیاس لگاتا ہے۔ لہٰذا زیادہ سرد پانی بھی ہرگز نوش نہ کریں۔روزے کے دوران سعی کیجیے کہ آپ کا پسینہ نہ نکلے۔ پسینہ نکلنے سے جسم بیش قیمت پانی سے محروم ہوجاتا ہے۔ چناں چہ دھوپ میں یا گرم جگہ کم سے کم وقت گزارئیے۔
افطاری میں جلد بازی نہ کیجیے
ہمارے ہاں یہ چلن بھی جنم لے چکا کہ افطاری کے موقع پر پکوڑے، سموسے، کچوریاں، چپس وغیرہ ضرور موجود ہوں اور لوگوں کی اکثریت انہیں کھا کر ہی روزہ افطار کرتی ہے۔ یہ مضر صحت رواج ہے۔
ماہرین غذائیات کے مطابق روزے میں افطاری ہی سب سے اہم وقت ہے۔ تب پچھلے پندرہ گھنٹے سے جسم حالتِ آرام میں ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں پیٹ سکڑ جاتا ہے اور آنتیں بھی متحرک نہیں رہتیں۔ ایسی حالت میں نہایت ضروی ہے کہ ٹھوس غذا رفتہ رفتہ نظام ہضم میں داخل کی جائے۔ اگر افطاری میں انسان پیٹ سموسوں، پکوڑوں وغیرہ سے بھرلے، تو نہ صرف نظام ہضم خراب ہوتا ہے بلکہ گردوں جیسے اہم اعضا کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسی طرح افطار کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے چند کھجوریں کھائیے پھر دو گلاس پانی نوش کریں۔ پھر گوشت یا سبزیوں کی یخنی پیجیے جو جسم کی کھوئی ہوئی توانائی بحال کرتی ہے۔ آخر میں سلاد کھائیے۔ جب یہ سب کچھ کھاپی چکنے کے بعد بھی آپ بھوک محسوس کریں، تب ٹھوس غذا کی طرف متوجہ ہوں۔
اگر سلاد کھانے کے بعد آپ کا پیٹ بھرجائے، تو دسترخوان سے اٹھ جائیے۔ نماز پڑھیے اور کچھ کام کاج کیجیے۔ آپ ٹھوس غذا بعد میں بھی کھاسکتے ہیں۔ یاد رکھیے، افطار کے موقع پر بسیار خوری کرنا کئی امراض کو دعوت دینا ہے۔ زیادہ کھانے پینے سے نفسیاتی و جسمانی، دونوں طرح سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔
روزے دار خوب کھاپی لے، تو وہ طبیعت میں سستی اور کسل مندی محسوس کرتا ہے۔ ایسی حالت میں بعض اوقات نماز بھی چھوٹ جاتی ہے جو گناہ ہے۔ جبکہ بسیار خوری سے سو بیماریوں کی ماں، موٹاپا انسان کو آ چمٹتا ہے۔ لہٰذا بہ موقع افطار سیال اشیا سے پیٹ بھرئیے تاکہ پہلے جسم کھوئی ہوئی توانائی پاسکے۔اگر بھوک ختم نہ ہو،تب ٹھوس غذا کام میں لائیے۔
صحت بخش غذا کو ترجیح دیں
کوشش کیجیے کہ سحری اور افطار میں معدنیات و وٹامن سے بھر پور غذائیں کھائیے۔ جبکہ زیادہ حرارے (کیلوریز)، نمک، چینی اور چکنائی رکھنے والی غذاؤں سے پرہیز کیجیے۔ یہ یاد رہے کہ غذاؤں کے پانچ بڑے گروپ ہیں: اناج، سبزیاں، پھل، گوشت اور ڈیری مصنوعات۔ ان گروہوں میں سے صحت مند غذاؤں کا انتخاب کیجیے۔
ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ روزانہ انسان کی آدھی غذا سبزیوں و پھلوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ اس کے بعد 25 فیصد غذا اناج اور بقیہ 25 غذا گوشت اور ڈیری پر مشتمل ہو۔ یوں انسان کو غذا سے وافر معدنیات اور وٹامن ملتے ہیں اور اس کی صحت تسلی بخش رہتی ہے۔
تیل میں تلے کھانے کم سے کم کھائیے۔ نیز چکنائی سے بھرپور غذاؤں سے بھی دور رہیے۔ آپ گوشت کھانے کے شوقین نہیں، تو غذا میں انڈا، دودھ اور دالیں ضرور شامل رکھیے۔ یہ غذائیں ہمیں پروٹین فراہم کرتی ہیں۔ جسم کے خلیے یہی عنصر پاکر اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔
نمکین اور میٹھی غذاؤں سے پرہیز
افطار میں پانی پینے کے بعد کھجور کے علاوہ دیگر شکر والی غذاؤں سے پرہیز کیجیے جن میں کیک، بسکٹ، مٹھائیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ایسی میٹھی اشیا دراصل پیٹ میں گیس و اپھارہ پیدا کرتیں نیز ہاضمے کا عمل سست کردیتی ہیں۔
میٹھی غذاؤں کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ خون میں شکر کا توازن بگاڑ دیتی ہیں۔ اسی بگاڑ کی وجہ سے انسان کا معدہ مزید میٹھی غذائیں مانگتا اور ان کا عادی بن جاتا ہے۔ ماہرین غذائیات مشورہ دیتے ہیں کہ افطار کے دو تین گھنٹے بعد اعتدال سے میٹھی غذائیں مثلاً کھیر، سوئیاں، کیک وغیرہ تناول کیجیے۔
واضح رہے، پھلوں اور دیگر غذاؤں میں قدرتی طور پر پائی جانے والی شکر ہماری صحت بخش غذا کا حصہ ہے۔ اس شکر کا اعتدال سے استعمال ضروری ہے۔ اصل مسئلہ چینی اور دیگر مصنوعی مٹھاسیں پیدا کرتی ہیں۔ ان کے زیادہ استعمال سے انسان ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور موٹاپے جیسی موذی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
اسی طرح خصوصاً افطار کے موقع پر نمکین غذاؤں مثلاً پکوڑے، سموسے، کچوریاں، چپس ،پیزہ وغیرہ کی فراوانی بھی انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ انسان کو روزانہ صرف ایک چمچ نمک درکار ہوتا ہے۔ اس نمک میں شامل سوڈیم انسانی جسمانی نظام کو صحت مند رکھتا ہے۔ مگر نمکین غذاؤں کا زیادہ استعمال خاصا خطرناک ہے۔جسم میں نمک کی زیادتی سے انسان کینسر، امراض قلب، فالج، ہائی بلڈپریشر اور امراض گردہ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کی خاطر نمکین غذاؤں کو اعتدال میں کھائیے۔
میٹھی، نمکین، مسالے دار اور پروسیسڈ یعنی تیار شدہ غذائیں حد سے زیادہ کھانے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ انھیں کھانے کے بعد پیاس بہت لگتی ہے۔ مزید براں جسم ان غذاؤں کو بہت جلد ہضم کرلیتا ہے۔ چناںچہ بھوک بھی جلد چمک اٹھتی ہے۔ نتیجتاً انسان ایسی غذائیں خوب کھاپی کر موٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے آخر میں وہ حیرت سے سوچتا ہے: ''ارے یہ کیا ہوا؟ میں نے روزے تو پورے رکھے ہیں، پھر میرا وزن کیسے بڑھ گیا؟'' اسے احساس نہیں ہوتا کہ اس خرابی کے ذمے دار غیر صحت بخش کھانے ہیں ۔
یہ ڈائٹنگ کا وقت نہیں!
گلوکوز ہمارے جسم کا ایندھن ہے۔ ہم یہی ایندھن پاکر اپنے کام سرگرمی سے انجام دیتے ہیں۔ ہمارا جسم غذا کے ذریعے گلوکوز حاصل کرتا ہے۔ یہ گلوکوز زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے کام آتی ہے۔ پھر جسم کو گلوکوز نہ ملے، تو وہ جسم میں ذخیرہ شدہ چکنائی سے بطور ایندھن کام لیتا ہے۔ یہ بات روزے داروں کو یاد رکھنی چاہیے۔
بہت سے پاکستانی مردوزن رمضان المبارک کی آمد پر وزن کم کرنے کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ تب وہ جان بوجھ کر کم غذا کھاتے ہیں تاکہ اپنا وزن کم کرسکیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں ذخیرہ شدہ چکنائی چند دن ہی جسمانی نظام کو ایندھن فراہم کرپاتی ہے۔ جب کہ رمضان کریم تو پورا ایک ماہ برقرار رہتا ہے۔
چناں چہ انسان پورا ایک ماہ کم غذا کھائے، تو وہ ایک خطرناک طبی خلل ''کیٹو ایسڈوسیسز''(Ketoacidosis) میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دراصل جب انسانی جسم ذخیرہ شدہ چکنائی یا چربی استعمال کرے، تو اس کی ٹوٹ پھوٹ سے کیٹون (Ketone) نامی تیزابی مادہ جنم لیتا ہے۔ اگر جسم میں اس تیزابی مادے کی کثرت ہوجائے، تو یہ حالت ''کیٹو ایسڈوسیسز'' کہلاتی ہے۔ اس حالت میں خون زہریلا ہونے کے باعث انسان مر بھی سکتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر انسانی جسم ذخیرہ شدہ چکنائی استعمال کرے، تو یہ صورت حال چند دن ہی رہنی چاہیے۔ طویل مدت برقرار رہے تو کیٹو ایسڈوسیسز کی خطرناک کیفیت جنم لے گی۔ اس خطرے کے باعث ماہ رمضان میں وزن کم کرنے کا منصوبہ ہرگز نہ بنائیے۔
سحری ضرور کیجیے
مرد وزن سحری میں غذا کھا پی لیں، تو انھیں روزمرہ کام انجام دینے کی خاطر توانائی مل جاتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ سحری میں ثابت اناج سے بنی اشیا کھائیے۔ یہ غذائیں آہستہ آہستہ ہضم ہوتیں اور طویل عرصہ خون میں شکر کی سطح متوازن رکھتی ہیں۔