تکیہ بھیڈی پوترہ………… ملتان میں کلاسیکل موسیقی کا قدیم ترین مرکز…

میاں قادر بخش پکھاوجی اور استاد عاشق علی خاں نے تکیہ بھیڈی پوترہ پر ایک طویل عرصہ قیام کیا۔

میاں قادر بخش پکھاوجی اور استاد عاشق علی خاں نے تکیہ بھیڈی پوترہ پر ایک طویل عرصہ قیام کیا۔ :فوٹو : شاہد سعید مرزا

قیام پاکستان سے بہت پہلے ملتان' دہلی' لاہور اور بمبئی موسیقی کے بہت بڑے مراکز تصور کئے جاتے تھے، ان شہروں کی موسیقی کے حوالے سے اہمیت دراصل ان خاندانوں کی وجہ سے تھی جو یہاں صدیوں سے آباد تھے اور کلاسیکل موسیقی کے فن میں غیر معمولی مہارت بھی رکھتے تھے۔

برصغیر پاک و ہند میں موسیقی کے حوالے سے دو تکیے بھی غیر معمولی شہرت کے حامل گردانے جاتے ہیں، ان میں ایک تکیہ اندرون موچی دروازہ لاہور کا وہ قدیم تکیہ مراثیاں ہے جہاں بڑے بڑے اساتذہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ 20ویں صدی کے اہم ترین گائیک استاد عاشق علی خان بھی اسی تکیہ مراثیاں لاہور میں مدفون ہیں۔ موسیقی کے حوالے سے دوسرا اہم ترین اور تاریخی تکیہ ملتان کا بھیڈی پوترہ تکیہ ہے جو بھیڈی پوترہ خاندان کی صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کا اہم ترین گواہ ہے۔ آئیے تکیہ بھیڈی پوترہ کی طرف چلتے ہیں...!!

ملتان شہر کے معروف علاقے چوک شہیداں سے سٹی سٹیشن کی طرف جائیں تو چند قدم کے فاصلے پر ایک گلی محلہ بھیڈی پوترہ کی طرف جاتی ہے اس محلہ کی وجہ شہرت مزار حضرت حاجی شاہ بخاریؒ اور موسیقی سے وابستہ بھیڈی پوترہ خاندان ہے۔ مزار حضرت حاجی شاہ بخاریؒ سے ملحق 804 گز رقبہ پر مشتمل ایک قطعہ اراضی تکیہ بھیڈی پوترہ کے نام سے منسوب ہے۔



 

اس تکیہ کو برصغیر بھر میں موسیقی کے حوالے سے ایک خاص شہرت حاصل ہے۔ اس کی شہرت کا ایک حوالہ تو بھیڈی پوترہ خاندان ہے جو صدیوں سے موسیقی سے وابستہ چلا آ رہا ہے جبکہ دوسرا حوالہ اس کی تاریخی اہمیت کا ہے کہ ملتان میں جو بھی ساحران موسیقی آئے انہوں نے نہ صرف اس تکیہ پر قیام کیا بلکہ یہاں گایا بجایا بھی۔ جنوبی پنجاب کے بزرگ ترین شہر ملتان کے تاریخی آثار میں تکیہ بھیڈی پوترہ بھی اپنی منفرد تاریخ کے ساتھ موجود ہے پاکستان بھر میں تکیہ مراثیاں لاہور کے علاوہ کوئی بھی ایسا تکیہ نہیں جس کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہو یا جہاں بڑے بڑے اساتذہ نے پرفارم کیا ہو۔ ملتان میں تکیہ بھیڈی پوترہ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ملتان صدیوں سے موسیقی کا مرکز چلا آ رہا ہے۔

تکیہ بھیڈی پوترہ کے آباد ہونے اور یہاں موسیقی کے آغاز کی تاریخ بھی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ دراصل اس تکیہ کو آباد کرنے کا سہرا بھیڈی پوترہ خاندان کے سر ہے جو یہاں ایک اندازے کے مطابق 800 سال پہلے آباد ہوا۔ یہ خاندان بنیادی طور پر بھیرہ خوشاب کا رہنے والا ہے۔ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ نے اس خاندان کو بھیرہ میں مشرف بہ اسلام کیا اور اپنے ساتھ ہی اس گھرانے کو ملتان لے آئے' ملتان میں یہ خاندان اسی جگہ آباد ہوا جہاں آج محلہ بھیڈی پوترہ واقع ہے۔ اس خاندان کی ملتان آمد کے بعد ایک عجیب واقعہ پیش آیا حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے قلعہ پر موجود مدرسہ بہائیہ کے باہر ایک بہت بڑی نوبت (نقارہ) رکھی رہتی تھی (نوبت کو سرائیکی میں بھیڈ کہا جاتا ہے، بھیڈی پوترہ خاندان کا مؤقف ہے کہ اصل لفظ بھیر ہے جو بگڑ کر بھیڈ بن گیا) یہ نوبت اس قدر بڑی تھی کہ کوئی بھی اسے فنی تقاضوں کے مطابق بجا نہ سکتا تھا۔

بھیڈی پوترہ خاندان کے ایک بزرگ جو فن موسیقی کے ساتھ ساتھ شہ زور بھی تھے نے ایک رات یہ نوبت بجائی، نوبت کی آواز سن کر حضرت بہاء الدین زکریاؒ اپنے حجرے سے باہر آئے اور انہوں نے خوش ہو کر بھیڈی پوترہ خاندان کے اس بزرگ کو ''میاں بھیر'' کا نام دیا' میاں بھیر بعدازاں تصوف کے راستے پر چل پڑے اور انہیں حضرت بھیر شریف کہا جانے لگا یہی حضرت بھیر شریف بھیڈی پوترہ خاندان کے جدامجد ہیں،محلہ جوگ مایا چوک شاہ عباس میں ان کا مزار آج بھی موجود ہے۔

بھیڈی پوترہ خاندان جب اس تکیہ پر آباد ہوا تو یہاں صرف ایک اونچے ٹیلے پر حضرت حاجی شاہ بخاریؒ کا مزار تھا۔ موجودہ تکیہ بھیڈی پوترہ اس وقت تین حصوں پر مشتمل تھا، پہلا حصہ ایک اونچا ٹیلہ تھا جہاں بخاری شاہؒ کا مزار تھا دوسرا حصہ کچھ کم گہرا جبکہ تیسرا حصہ بالکل ہی نشیب میں تھا۔ بھیڈی پوترہ خاندان نے آہستہ آہستہ اس تکیہ کو آباد کیا، یہاں درخت لگائے اور اس جگہ کو ایک ایسی پرسکون جگہ میں تبدیل کر دیا جہاں آدمی دنیا و مافیہا سے کٹ کر گھنٹوں بیٹھا رہے۔ بھیڈی پوترہ خاندان ابتداء ہی سے سازکاری کی روایت سے جڑا ہوا ہے، نقارہ' پکھاوج' مردنگ' دلربا' سارنگی اور طبلہ اس گھرانے کے نمائندہ ساز ہیں۔ سازکاری میں بھیڈی پوترہ خاندان نے پنجاب گھرانے کی شاگردی اختیار کی، تکیہ بھیڈی پوترہ پر مشاہیر موسیقی کی آمدکا سلسلہ بھی پنجاب گھرانے کے بزرگوں سے شروع ہوتا ہے۔

طبلے کے رستم پنجاب گھرانے کا آغاز میاں قادر بخش اول سے ہوا۔ بھیڈی پوترہ گھرانے کے بزرگ میاں محمد علی میاں قادر بخش اول کے شاگرد ہوئے تھے، میاں قادر بخش اول جو معروف صوفی شاعر شاہ حسین کے عہد کے فنکار تھے، اپنی زندگی میں ملتان بھی آئے اور تکیہ بھیڈی پوترہ پر قیام بھی کیا۔ میاں قادر بخش اول کے بعد ان کے گھرانے میں میاں سدو خاں، میاں گامی خاں' میاں کلو خاں' میاں حسین بخش' میاں فقیر بخش' بالترتیب طبلہ کے رستم ہوئے، اس گھرانے کے آخری رستم طبلہ میاں قادر بخش پکھاوجی تھے، میاں قادر بخش کا گھرانہ سوا لاکھ اوکھلی کا مالک مانا جاتا ہے یعنی اس گھرانے کے سوا لاکھ شاگرد ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں آج بھی جو بڑے طبلہ نواز مانے جاتے ہیں وہ اسی گھرانے کے شاگرد ہیں۔ بھیڈی پوترہ خاندان کے مایہ ناز طلبہ نواز استاد معشوقے خان پنجاب گھرانے کے آخری رستم طبلہ میاں قادر بخش پکھاوجی کے شاگرد تھے۔

استاد معشوقے خاں کے والد استاد رمضان خان' میاں قادر بخش کے والد میاں فقیر بخش کے شاگرد تھے، استاد معشوقے خان کے دادا میاں واحد بخش' میاں حسین بخش کے شاگرد تھے۔ اسی طرح میاں واحد بخش کے والد میاں رنگ علی' میاں کلو خاں کے شاگرد تھے۔ پنجاب کے گھرانے سے بھیڈی پوترہ خاندان کا تعلق سات نسلوں پرمحیط ہے۔

پنجاب گھرانے کے سبھی بزرگ اس تکیہ پر تشریف لاتے رہے اور مہینوں قیام کرتے رہے۔ ان اساتذہ کی آمد سے جہاں شاگردوں کی حوصلہ افزائی ہوتی وہاں یہ اپنے شاگردوں کے سوالوں کے جواب بھی دیتے۔ میاں قادر بخش پکھاوجی کا بچپن بھی اسی تکیہ پر گزرا' وہ اپنے بچپن میں کئی سال ملتان میں مقیم رہے اور اسی تکیہ پر ریاض کیا کرتے تھے۔ میاں قادر بخش پکھاوجی بعدازاں لاہور چلے گئے، استاد معشوقے خان نے ان سے لاہور میں ہی طبلہ سیکھا۔ میاں صاحب بعد میں بھی ملتان آتے رہے یہاں مہینوں قیام کرتے رہے۔ انہوں نے استاد معشوقے خان کے علاوہ بھیڈی پوترہ خاندان کے دیگر افراد کو بھی شاگرد کیا جن میں بابا خدا بخش، استاد محمد رمضان عرف ڈوڈ خاں اور استاد احمد بخش نتھو خاں کے نام شامل ہیں۔

بھیڈی پوترہ خاندان کی پٹیالہ گھرانے سے بھی بڑی پرانی نسبت ہے، اس خاندان کے معروف سارنگی نواز استاد حسین بخش کے والد میاں غلام محمد بنیادی طور پر سارنگی نواز تھے لیکن انہوں نے راگ داری کی تعلیم استاد فتح علی خاں کرنیل سے حاصل کی۔ استاد فتح علی خان کرنیل بھی اپنی زندگی میں ملتان آئے اور اسی تکیہ بھیڈی پوترہ پر میاں غلام محمد اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو شاگرد کیا، استاد فتح علی خاں کرنیل نے یہاں اپنی بے مثال گائیکی کا بھی مظاہرہ کیا' ان کے ساتھ میاں غلام محمد نے سارنگی بجائی' استاد فتح علی خان کرنیل کے ساتھ ان کے برادر نسبتی استاد امیر خاں بھی ملتان تشریف لائے، استاد امیر خاں اپنے بہنوئی استاد فتح علی خان کرنیل کے ساتھ پہلے طبلہ پر سنگت کرتے تھے، ان کی وفات کے بعد استاد امیر خاں گانے بھی لگے۔




وہ دلربا' سارنگی اور ہارمونیم بجانے کے بھی غیر معمولی استاد تھے۔ استاد امیر خاں کو تکیہ بھیڈی پوترہ اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے استاد فتح علی خاں کرنیل کی وفات کے بعد اپنی زندگی کا باقی حصہ اسی تکیہ بھیڈی پوترہ پر گزارا، ان کی وفات قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے اسی تکیہ پر ہوئی، استاد امیر خان کی قبر مزار بخاری شاہؒ کے احاطے کے اندر ہی ہے۔ استاد امیر خان ایسے نابغئہ روزگار موسیقی دان کا تکیہ بھیڈی پوترہ پر ایک طویل عرصہ قیام کئی حوالوں سے یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا ملتان میں قیام جہاں بھیڈی پوترہ خاندان کیلئے سودمند ثابت ہوا وہاں دیگر لوگوں نے بھی ان سے کسبِ فیض کیا، استاد امیر خاں جنہیں یہاں پر لوگ بابا امیر خان کے نام سے جانتے تھے۔

موسیقی کے اتنے بڑے استاد تھے کہ ہندوستان بھر سے لوگ ان سے راگوں کی نوٹیشن پر حتمی رائے لینے کیلئے ملتان آیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہاں استاد خادم حسین' نگینہ جان' استاد فیض بخش نقارچی' میاں پیر بخش مڑل اور استاد فیض بخش چک والا سمیت بہت سے لوگوں کو موسیقی کی تعلیم دی۔ استاد فتح علی خاں کرنیل کے صاحبزادے اور بیسویں صدی کے اہم ترین گائیک استاد عاشق علی خان کا تکیہ بھیڈی پوترہ پر قیام' ان کا بچپن یہاں گزرنا اور اپنے ماموں بابا امیر خاں سے موسیقی کی تعلیم لینا بھی موسیقی کی اہم ترین تاریخ کا حصہ ہے۔

بھیڈی پوترہ گھرانہ ان سے پہلے ہی پٹیالہ گھرانے کا شاگرد تھا، استاد عاشق علی خان نے بھی تکیہ بھیڈی پوترہ پر اسی خاندان کے استاد حسین بخش خاں کو شاگرد کیا اور انہیں اسی تکیہ پر منعقدہ ایک بڑی محفل میں راگ ''بھیم'' اور ''پوریا دھناسری'' سکھائے' استاد عاشق علی خان وہ گائیک ہیں جن کے ملتان میں قیام نے اس خطے کی گائیکی پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے' ان کا اولین احسان تو جدید کافی گائیکی کی صورت گری ہے جبکہ زاہدہ پروین اور حسین بخش ڈھاڈی جیسے فنکار بھی اس خطے کو استاد عاشق علی خاں نے ہی دیئے۔

استاد عاشق علی خاں اپنے عروج کے دور میں جب بھی ملتان آتے تو یہاں دو تین ماہ سے کم قیام نہ کرتے۔ قیام پاکستان سے پہلے اس خطے میں استاد عاشق علی خاں کی گائیکی کی گونج تھی۔ اس تکیہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ استاد عاشق علی خاں اس تکیہ کی ایک کوٹھڑی میں بیٹھ کر ریاض کرتے اور اپنے ماموں بابا امیر خاں سے موسیقی کا علم سیکھتے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں کلکتہ سے آنے والے سارنگی نواز میاں رحیم بخش نے بھی اپنی زندگی اسی تکیہ پر گزاری۔ ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق موسیقی کے کس گھرانے سے تھا لیکن وہ سارنگی کے بڑے استاد اور راگ داری کا گہرا علم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسی تکیہ پر بھیڈی پوترہ خاندان کے نامور سارنگی نواز استاد حسین بخش خان کے دادا میاں حسن بخش کو سارنگی سکھائی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملتان کے لودھی گھرانے کی نامور مغنیہ مائی ہوتاں اور اس کی بہن مائی فضلاں کو بھی موسیقی کی تعلیم دی تھی۔

قیام پاکستان سے پہلے اس خطے میں آنے والے باکمال گویے استاد توکل خاں کا بھی اس تکیہ سے گہرا تعلق رہا۔ استاد توکل خاں تکیہ بھیڈی پوترہ پر ریاض بھی کرتے رہے۔ انہوں نے یہاں بہت سی محفلوں میں پرفارم بھی کیا، استاد معشوقے خاں ان کے ساتھ طبلہ پر سنگت کرتے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خاں بھی اپنی زندگی میں دو بار ملتان آئے، ایک بار کسی پروگرام کے سلسلہ میں دوسری بار نقارچی خاندان کے مایہ ناز طبلہ نواز استاد کوڑے خاں کی شادی پر۔ اس موقع پر وہ تکیہ بھیڈی پوترہ بھی تشریف لائے اور یہاں ایک یادگار محفل موسیقی منعقد ہوئی، استاد بڑے غلام علی کے ساتھ استاد معشوقے خان نے طبلہ پر سنگت کی۔ استاد چھوٹے غلام علی خاں جو قصور کے رہنے والے تھے، نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ملتان میں گزارا، ملتان میں ان کا ٹھکانہ تکیہ بھیڈی پوترہ تھا جہاں وہ سارا دن اپنے سرمنڈل کے ساتھ ریاض کرتے تھے۔ چھوٹے غلام علی خاں نے اپنے ملتان میں قیام کے دوران زاہدہ پروین کی صاحبزادی شاہدہ پروین اور مینا لودھی کو موسیقی کی تعلیم دی۔

ملتان کا تکیہ بھیڈی پوترہ موسیقی کی تاریخ کے حوالے سے منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ ملتان اور لاہور کے تکیوں کا موسیقی کی تاریخ میں ایک پہلو یہ بھی تھا کہ یہاں گانے والوں کو مستند خیال کیا جاتا تھا' گویے ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ لاہور یا ملتان کے تکیوں پر گایا' ان تکیوں پر گانے والے لوگ خود خواہش کر کے آتے اور یہاں گانا اپنی عزت افزائی سمجھتے۔ تکیہ بھیڈی پوترہ پر آنے والے اساتذہ کیلئے سب سے بڑی کشش تو ملتان کا بھیڈی پوترہ خاندان تھا، دوسرا یہاں آنے والے اساتذہ کو عزت و احترام کے ساتھ ساتھ قیام و طعام کی سہولت بھی دی جاتی تھی، یہاں آنے والے اساتذہ کے لئے موسیقی کے بارے میں وہ مباحث بھی کشش کا سبب تھیں جو اس تکیہ پر ہروقت جاری رہتیں۔

قیام پاکستان سے پہلے اس تکیہ کا ماحول بڑا دلفریب تھا' یہاں بہت سارے گھنے درخت تھے جن میں نیم کے درخت زیادہ تھے پرانے درختوں میں تین پیپل اور ایک نیم کا درخت اب بھی موجود ہے۔ تکیہ کے احاطے میں ایک بڑا برگد بھی تھا، تکیہ کا احاطہ ختم ہوتے ہی ایک چھوٹی سی نہر بہا کرتی تھی، تکیہ میں لگے سایہ دار برگد کی شاخیں نہر کے پانیوں سے ہم کلام رہتیں، ان درختوں کے گھنے سایوں میں بیٹھے لوگ موسیقی کے اسرار میں گم نظر آتے، ایک دور تھا کہ بھیڈی پوترہ اور نقارچی خاندان کے لوگ ہر وقت اس تکیہ پر بیٹھے رہتے، ریاض کے ساتھ موسیقی پر گفتگو بھی جاری رہتی، بھیڈی پوترہ خاندان نے شروع سے ہی تکیہ پر ریاض کو معمول بنایا یہاں ریاض کے لئے پرسکون ماحول تھا۔

ملتان کا یہ تکیہ موسیقی سے وابستہ تمام گھرانوں میں شہرت رکھتا تھا، بہت سے اساتذہ تکیہ بھیڈی پوترہ پر گانا اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے یہاں گانے والے اساتذہ کو ایسے گنی سامعین میسر آتے جو موسیقی کی تمام اصناف کی سمجھ بوجھ رکھتے تھے، ماضی میں اس تکیہ پر برصغیر بھر کے گائیکوں اور ساز کاروں نے پرفارم کیا جن میں استاد فتح علی خان کرنیل، استاد امیر خان، استاد عاشق علی خان، استاد توکل خان، استاد بڑے غلام علی خان، استاد برکت علی خان، استاد بہرے وحید خان، استاد سلامت علی خان، استاد مولا بخش، استاد امید علی خان، استاد مراد علی خان، استاد بیبے خان، استاد مبارک علی خان، استاد نبی داد خان، استاد اللہ دتہ بہاری پوریا، کریم بخش پیرنا، استاد اللہ رکھے خان، استاد شوکت حسین خان، استاد امانت علی، فتح علی خان، استاد طافو خان، استاد نتھو خان، استاد شریف خان پونچھ والے، ابو خان، استاد چھوٹے غلام علی خان، حبیب علی خان، استاد عبدالعزیز خان، رشید بین کار، بابا ملنگ علی بوہنیا، عنایت خان شکر گڑھ والے، عاشق کرتار پوریا، منیر توکل اس کے علاوہ خواتین میں لالاں مائی، مائی ہوتاں، مائی فضلاں، انور مائی، منظوری، زاہدہ پروین، بدرو ملنگ والی، بدرو ملتانی، نواب ککی، اقبال بانو، مینا لودھی، ثریا ملتانیکر، نسیم اختر اور شمشاد بانو کے نام شامل ہیں ۔

ایک دور تھا کہ محلہ بھیڈی پوترہ بستی بھیڈی پوترہ کہلاتی تھی، اس دور میں یہاں صرف موسیقی سے وابستہ خاندان ہی آباد تھے، قیام پاکستان کے بعد دیگر گھرانوں کے لوگ بھی آباد ہوگئے، قیام پاکستان کے بعد ہی اس محلہ میں معروف مغنیہ اقبال بانو بھی مقیم ہوئیں۔ تکیہ بھیڈی پوترہ کے قریب ہی واقع اقبال بانو کا گھر جس کی حدود شرقی سمت پرانے تھانہ سی آئی سٹاف تک تھیں اب کئی حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے، لیکن اس کا گیٹ آج بھی موجود ہے۔

60 کی دہائی میں محلہ بھیڈی پوترہ میں ملکہ کافی زاہدہ پروین کا گھر بھی ہوا کرتا تھا۔ تکیہ بھیڈی پوترہ پر جب بھی موسیقی کے پروگرام ہوتے تو دور دراز سے لوگ یہاں آتے' رات گئے تک محفلیں جاری رہتیں، اس تکیہ پر منعقد ہونے والی موسیقی کی محافل نے ملتان میں موسیقی کی روایت کو بھی مضبوط کیا، تکیہ پر محافل کا انعقاد کسی مہمان گائیک یا ساز کار کی آمد پر ہوتا یا حضرت بخاری شاہؒ کے عرس کے موقع پر پروگرام کئے جاتے، استاد معشوقے خاں کی زندگی میں یہاں بہت سے یاد گار پروگرام ہوئے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی آخری پروگرام وہ کرایا جس میں ان کے استاد گھرانے کے خلیفہ اختر حسین نے طبلہ کا میدان بجایا، اسی محفل میں بھیڈی پوترہ خاندان کے چار افراد خلیفہ اختر حسین کے شاگرد ہوئے، جن میں استاد معشوقے خاں کے صاحبزادے استاد غلام شبیر خان، نتھو خان، منظور حسین اور خان محمد شامل ہیں۔

تکیہ بھیڈی پوترہ پر موسیقی کی روایت آج بھی زندہ ہے، اس تکیہ کی واحد عمارت ایک کچی کوٹھڑی تھی جس کی چھت اب منہدم ہوچکی ہے یہی وہ کوٹھڑی ہے جہاں بڑے بڑے اساتذہ قیام کیا کرتے تھے، استاد عاشق علی خان اور ان کے ماموں ایک طویل عرصہ اس کوٹھری میں مقیم رہے۔ یہ تکیہ آج بھی ملتان میں موسیقی کی تاریخ کے اہم حوالے کے طور پر موجود تو ہے لیکن کلاسیکل موسیقی کے زوال کے ساتھ ہی اس تکیہ پر بھی موسیقی کی سرگرمیاں مدھم پڑ گئی ہیں، پہلے یہاں اکثر و بیشتر موسیقی کے پروگرام منعقد ہوا کرتے تھے لیکن اب طویل عرصہ سے یہاں کوئی پروگرام نہیں ہوا، ان تمام باتوں کے باوجود بھیڈی پوترہ تکیہ کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے۔

ملتان میں جس طرح بہت سے تاریخی آثار عوامی اور انتظامی بے توجہی کا شکار ہوئے یہ تکیہ بھی بے توجہی کا شکار ہوا' ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملتان کے اس تاریخی تکیہ کو ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جاتا اور موسیقی کے طالب علموں کو اس تکیہ کی تاریخی اہمیت سے روشناس کرایا جاتا۔ تکیہ بھیڈی پوترہ کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسے موسیقی کا انسٹی ٹیوٹ بھی بنایا جاسکتا ہے، اس سلسلہ میں بھیڈی پوترہ خاندان بھی تعاون کے لئے تیار ہے۔ تکیہ بھیڈی پوترہ ایسے موسیقی کے قدیم ترین مرکز کو اس وقت محفوظ کیا جانا بہت ضروری ہے وگرنہ ملتان کے دیگر تاریخی آثار کے ساتھ اس تکیہ کے آثار بھی مٹ جائیں گے۔

 
Load Next Story