بلدیاتی معاملات طلسم ہوشربا کیوں

یہ بھی حقیقت ہےکہ سندھ، پنجاب اورپختونخوا میں بھی ماسوائے بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کے کئی بہانے ڈھونڈے گئے

حکومت بلا تاخیر ایک جامع اور مربوط بلدیاتی موقف وضع کرے تاکہ الیکشن جلد ہوں۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR:
یہ بات عوامی حلقوں کے لیے سوالیہ نشان بن رہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے جمہوری حکومتوں کا مسلسل گریز کس بات کی علامت ہے، کیا اس لیے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاتے یا ہوتے بھی ہیں تو ان میں درجہ بہ درجہ تاخیر کے اتنے مضحکہ خیز التوائی معمے ہوتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے بینر تلے منتخب بلدیاتی نمایندوں کے حلف لینے تک کوئی یہ نہیں جانتا کہ میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے آخری مرحلہ کے انتخابات کیوں نہیں ہو پاتے، ان میں مسلسل تاخیر کی وجہ کیا ہے۔

اس حوالے سے سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی نظام اور مقامی حکومت کی تشکیل سب سے بڑا سوال بن چکا ہے، ادھر الیکشن کمیشن کے پاس جواز، استدلال، انتظامی مجبوریوں، قانونی تقاضوں اور پیدا شدہ صورتحال کے متعلق قابل فہم بیانئے کی بھی کمی نہیں۔ مگر جو بنیادی مسئلہ ہے وہ میئرز و ڈپٹی میئرز وغیرہ کے الیکشن کا فوری انعقاد ہے جس سے پہلو تہی کے قانونی و انتظامی جواز سے سیاسی جماعتوں کا اضطراب بلاوجہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔

اس ارتعاش، بے چینی اور برہمی کا ایک مظاہرہ گزشتہ روز سندھ اسمبلی میں جمعرات کو ہوا جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے رکن عظیم فاروقی اور پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر مکیش کمار چاولہ کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے کے بعد ہاتھا پائی ہو گئی، ایوان شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کے باعث مچھلی بازار بن گیا اور بادل ناخواستہ اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کر دینا پڑا۔ قبل ازیں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے بلدیاتی اداروں میں مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی حلف برداری ملتوی کرنے پرالیکشن کمیشن آف پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ حلف برداری کے التوا کا فیصلہ انتہائی تشویش ناک ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس صورت حال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے آخری مرحلے کے انتخابات میں تاخیر سندھ کے لوگوں کے خلاف سازش ہے، یہ ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، منتخب نمایندے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے منتظر ہیں، ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو حلف برداری ملتوی کرنے کا کوئی اختیار نہیں، وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے بلدیاتی نظام قائم کرنے میں کبھی رکاوٹ پیدا نہیں کی، ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ حکومت کا یہ تیسرا ستون جلد مکمل ہو۔


یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ، پنجاب اور پختونخوا میں بھی ماسوائے بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کے کئی بہانے ڈھونڈے گئے، حلقہ بندیوں، مخصوص نشستوں، اور ووٹرز لسٹ سمیت کئی امور پر قانونی موشگافیوں حتی کہ بلدیاتی ایکٹ اور اس میں ترامیم پر شور محشر اٹھایا گیا۔ لیکن سپریم کورٹ چونکہ تہیہ کر چکی تھی اس لیے جمہوری حکومتیں روگردانی کے باوجود الیکشن کے انعقاد پر مجبور ہو گئیں۔ گزشتہ دنوں دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ انتخابات میں تاخیر کے باعث ایم کیو ایم اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے قریب آئیں، دونوں جماعتیں میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات پر زور دے رہی ہیں۔

کراچی اور سندھ کے میئرز، ڈپٹی میئرز، ڈسٹرکٹ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات کے التوا کے خلاف جمعرات کو متحدہ قومی موومنٹ کے زیراہتمام کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں نامزد میئر کراچی وسیم اختر، ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرا، یوسیز کے نو منتخب چیئرمین، وائس چیئرمین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن عارف خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ میئرز، ڈپٹی میئرز، چیئرمین کے انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا اور اختیارات نہیں دیے گئے تو دمادم مست قلندرہو گا۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کے غیرقانونی التوا پر سوموٹو ایکشن لے۔ وسیم اختر نے کہا کہ کراچی کے عوام کا حق مارا جا رہا ہے، انھوں نے چیف جسٹس پاکستان سے بالواسطہ استفسار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فل کمیشن ایک نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے تو الیکشن کمشنر کے پاس کیا یہ اختیار ہے کہ وہ پورے الیکشن کمیشن کے جاری نوٹیفکیشن کو منسوخ کر دے۔ ان اعتراضات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن کی تشکیل کا معاملہ بھی اہم ہے، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ضمنی انتخابات کے التوا پر سخت برہم ہیں، بلدیاتی نمایندوں نے انتخابی ادارہ میں ادارہ جاتی شکست و ریخت کی بات بھی کی ہے، مثال کے طور پر گزشتہ روز حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا جمعرات کو بلایا گیا اجلاس اچانک ملتوی کر دیا گیا۔

اس اجلاس میں چیئرمین کا انتخاب کیا جانا تھا، کمیٹی کا اجلاس بعد میں جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں رکھا گیا۔جب کہ اسلام آباد، پنجاب اور سندھ میں الیکشن اس لیے بھی تاخیر کا شکار ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کی عدالت عالیہ میں پٹیشنز پڑی ہوئی تھیں۔ یوں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریز پر یہ عوامی تاثر سامنے آیا کہ ملکی اشرافیہ در حقیقت مقامی حکومتوں کے قیام کو اپنے اختیارات اور جاگیردارانہ تسلط کے خلاف سنگین خطرہ سمجھتی ہے۔ اس لیے حکومت بلا تاخیر ایک جامع اور مربوط بلدیاتی موقف وضع کرے تاکہ الیکشن جلد ہوں۔
Load Next Story