رپورٹ پٹواری مفصل ہے

دنیا کے جو دس ممالک عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں سب سے زیادہ ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے

KARACHI:
پاکستان مون سون کی سرحد میں داخل ہو چکا ہے اور موسمیاتی پنڈتوں کی پیش گوئی ہے کہ اس برس معمول سے بیس فیصد زائد بارشیں متوقع ہیں۔

اس دوران سوشل میڈیا پر سکھر ریجن کے ایک آبپاشی ڈائریکٹر کی وڈیو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ ہم ممکنہ سیلابی مون سون کے استقبال کے لیے کتنے تیار ہیں۔

یہ جھنجھلایا اہلکار سندھی زبان میں کسی نامہ نگار کو بتا رہا ہے کہ ویسے تو اس ریجن میں پانچ انجینئر ہیں مگر ایک کام پر حاضرہے۔ چودہ سب ڈویژنل انجینئرز میں سے چار، اکتالیس سروئیرز میں سے تین، ایک سو چھپن چوکیداروں میں سے ایک سو تیرہ اور سات سو اکتالیس بیلداروں میں سے ایک سو اکتالیس کام پر ہیں باقی ادھر ادھر ہیں۔ اب تو بس یہ کثر رہ گئی ہے کہ میں یہ سب کام بھی خود کروں اور آخر میں جمعدار کی جھاڑو بھی اٹھا لوں یا پھر چھٹی لے کر گھر بیٹھ جاؤں۔ (اس گفتگو کے دوران ڈائریکٹر نے نااہلیت کی پرورش کرنے والے نظام کو جو گالیاں دیں وہ مضمون کا حصہ نہیں بن سکتیں مگر آپ کے تصور میں جو بھی گالی آئے ٹھیک ہی ہو گی)۔

اوپر کا حال اس سے بھی برا ہے۔ تین روز پہلے اسلام آباد میں وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے ممکنہ مون سون بارشوں اور سیلابی خطرے سے نمٹنے سے متعلق اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں عین سیلابی موسم کی دھلیزپر ''خوش خبری''سنائی گئی کہ سیلاب سے پیشگی خبردار کرنے والے ساتوں موسمیاتی ریڈار اپنی مدتِ زندگی پوری کر چکے ہیں۔ اور موجودہ موسمیاتی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کے لیے سات ارب روپے درکار ہیں۔

مجھے یہ تو علم نہیں کہ سیلاب کی وارننگ دینے کے ذمے دار محکمے نے متعلقہ وزارت یا وزارتِ خزانہ سے قبل از وقت سیلابی وارننگ کے نظام کی اپ گریڈنگ کے لیے نئے مالی سال یا گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں رقم مختص کرنے کی درخواست کتنی بار بھیجی؟ تاہم محکمہ موسمیات کی گونگی بے چارگی سے تاثر یہی مل رہا ہے کہ وفاقی حکومت نے یہ سات ارب روپے مختص کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔

ایسا نہیں کہ سیلاب کے پیشگی نظام کی جدت کاری کا مسئلہ پچھلے ہفتے ہی سامنے آیا ہو گا۔ یہ معاملہ یقیناً عرصے سے ٹلتا جا رہا ہو گا۔ ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے پرانا سیلابی وارننگ نظام انیس سو اٹھہترسے سیالکوٹ میں نصب ہے۔ آخری اپ گریڈیشن دو ہزار چار میں یعنی بارہ برس پہلے منگلا میں نصب نظام میں کی گئی۔ جب کہ دنیا بھر میں ہر دس برس بعد موسمیاتی نظام اپ گریڈ کرنا لازمی ہے۔

سال دو ہزار دس کے سیلابوں میں سب سے زیادہ تباہ کاری خیبر پختون خوا میں ہوئی لیکن آج بھی وہاں پیشگی خبردار کرنے والا نظام صرف ایک مقام یعنی ڈیرہ اسماعیل خان میں نصب ہے اور وہ بھی بائیس برس پرانا۔


دو ہزار دس میں جو سیلاب آیا اس کے سبب پاکستانی معیشت و انفراسٹرکچر کو لگ بھگ پانچ بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ پاکستان میں ماحولیاتی ابتری کی بابت بارہ برس پہلے جاری ایک تحقیقی سروے رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا کہ پانی ضایع یا گندا کرنے، کوڑے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے، درختوں کی کٹائی اور دیگر عوامل کے سبب پاکستان کو روزانہ ایک ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ( یہ نقصان بارش و سیلابی تباہ کاری سے الگ ہے۔ بارہ برس پہلے کے ایک ارب روپے کو آپ آج دو ارب روپے روزانہ کا نقصان باآسانی فرض کر سکتے ہیں)۔

دنیا کے جو دس ممالک عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں سب سے زیادہ ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گزشتہ چند برس میں یہاں موسمیاتی برسات اور آندھی طوفانوں کا پیٹرن الٹ پلٹ گیا ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں چترال میں آنے والا پہاڑی سیلاب بے نظیر تھا۔ دو ہفتے پہلے خیبر پختون خواہ سے وسطی پنجاب تک چلنے والا گردابی جھکڑ ایک نئے موسمیاتی رجحان کا غماز ہے۔ ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں موسمیاتی تبدیلیاں جتنی تیزی سے اور نت نئے انداز میں آ رہی ہیں ان کی بنا پر سیلاب، خشک سالی، فصلوں کی بربادی اور بنجریت کا مقابلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا تاوقتیکہ موسمیاتی بحران کو بھی اندرونی دہشت گردی کی طرح قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھا جائے۔

عالمی محکمہ موسمیات کے مطابق قدرتی و موسمیاتی آفات سے پیشگی بچاؤ کے نظام پر ہر ایک ڈالر خرچ کرنے سے آپ کو چھتیس ڈالر کا اقتصادی فائدہ ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں حالت یہ ہے کہ حال ہی میں ایک جاپانی ٹیم پاکستان میں سیلابی وارننگ کے نظام کا جائزہ لینے آئی تو اس نے ہمارے ''قدیم نظام'' کی یہ کہتے ہوئے دھڑا دھڑ تصاویر کھینچیں کہ ہم انھیں اپنے لوگوں کو دکھائیں گے کہ دنیا میں کس قدر پرانی موسمیاتی ٹیکنالوجی آج بھی استعمال ہو رہی ہے۔

ہمارے لال بھجکڑ ماحولیات و موسمیات کو قومی سلامتی چھوڑ ایک عام سا خطرہ بھی سمجھنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ مون سون کی بارشوں سے بچاؤ کے انتظامات برٹش انڈیا میں تحصیل کی سطح تک ہر سال مئی کے اواخر تک مکمل کر لیے جاتے تھے۔ مگر پاکستان میں جون کے مہینے میں وفاقی و صوبائی حکومتیں اور محکمے جاگنا شروع کرتے ہیں اور جب تک وہ بیدار ہوتے ہیں بارشیں محاصرہ کر چکی ہوتی ہیں اور پھر عارضی و ہنگامی نوعیت کی بھاگ دوڑ اور پھرتیاں شروع ہو جاتی ہیں۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے انتظامات کو مربوط بنانے کے لیے مشرف دور سے نیشنل ڈزآسٹر مینجمنٹ کمیشن قائم کر رہا ہے۔ یہ کمیشن وزیرِ اعظم کی سربراہی میں آزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم، دفاع، داخلہ، خزانہ، خارجہ اور سماجی بہبودکے وفاقی وزرا،چاروں صوبائی وزرائے اعلی، چیرمین این ڈی ایم اے اور سول سوسائٹی کے نمایندوں پر مشتمل ہے۔ قاعدے قرینے سے کمیشن کے سال میں دو اور کم از کم ایک اجلاس ہونا چاہیے۔ مگر آخری اجلاس فروری دو ہزار تیرہ میں ہوا۔

پاکستان ماحولیاتی خطرے سے نمٹنے میں اس قدر سنجیدہ ہے کہ بجٹ میں اس مد میں دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جب کہ وزیرِ اعلی پنجاب کے لیے سیکنڈ ہینڈ سرکاری طیارہ خریدنے کے لیے بھی دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ اس بار بھی مون سون کوئی بڑا نقصان پہنچائے بغیر خیریت سے گزر جائے کیونکہ ہمارے پاس تو نو دن سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں۔ بھارت کے پاس تیس دن اور امریکا کے پاس دو سو دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے لیکن سیلاب کم بخت ادھر کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں۔

مگر کچھ لوگوں کی لاٹری اس سال بھی نکلے گی۔ ہنگامی امدادی بجٹ، سیلابی پشتوں کی مضبوطی کے لیے کروڑوں روپے کی مٹی، پتھر، مزدوری کے واؤچر، سیلاب زدگان کی بحالی پر ہونے والا اچانک خرچہ۔ لاکھ گھر اجڑیں گے تو سو گھر بسیں گے بھی تو... سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔ نہ بھی سمجھیں تب بھی رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔
Load Next Story