پاک امریکا تعلقات کی تاریخ

چیسٹر باؤلز درحقیقت ایشیاء کے لیے ’’مونرو ڈاکٹرائن‘‘ کا کلیدی معاون تھا


اکرام سہگل June 17, 2016

پاکستان کا محل وقوع سیاسی اور جغرافیائی طور پر ایسے حساس چوراہے پر واقع ہے کہ 1950ء کے عشرے سے مشرق وسطیٰ' مشرق بعید اور مشرق قریب کے لیے امریکا کی پالیسی میں پاکستان کو اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ 1954ء میں امریکا نے جنوب مشرقی ایشیا معاہدے کی تنظیم (سیٹو) بنائی۔ 1955ء میں ''بغداد پیکٹ'' عمل میں لایا گیا۔ 1979ء میں سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (سنیٹو) بنائی گئی جس میں غیر عرب مسلمان ممالک ترکی' ایران اور پاکستان شامل تھے۔ سینٹو کے مقابلے میں علاقائی تعاون کی اقتصادی تنظیم آر سی ڈی قائم کی گئی جو بعدازاں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) میں تبدیل ہو گئی جس میں بلآخر آٹھ ممالک شامل ہو گئے۔ ای سی او میں توسیع ایران پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد ہوئی۔

جب سوویت یونین کے 1984ء میں افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکا کے لیے ہماری تزویراتی ضرورت ختم ہو گئی تو ہمارے تعلقات میں تنزل پیدا ہو گیا۔ 1980ء کے اوائل سے امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں اتار چڑھاؤ نمایاں ہے جس کی درج ذیل وجوہات میں (1) ہمارے مشتبہ جوہری عزائم (2) منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ کا شبہ (3) دہشتگردانہ سرگرمیوں کے ملوث ہونے کا الزام (1992ء میں ہم پر دہشت گرد ریاست کا الزام لگتے لگتے رہ گیا) 1990ء کی دہائی میں ہم امریکا کے اتحادی تھے لیکن جب 28 مئی 1999ء میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکا کیا گیا تو یہ تعلقات 180 درجے کے زاویے پر واپس مڑ گئے جس کے نتیجے میں ہم پر پابندیاں عائد کر دی گئیں تاہم 9/11 کے بعد امریکا نے پھر ہمیں اپنے تعلقات میں اہم سنگ میل کا درجہ دیدیا کیونکہ افغان جنگ میں امریکا نے پاکستان کو پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔

امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول نے جنرل مشرف کو ایک مختصر سی ٹیلی فون کال کے ذریعے اپنی خدمات تقریباً مفت میں امریکا کو دینے پر مجبور کر دیا۔ہر دس سال بعد امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں مکمل تبدیلی آتی رہی تاہم امریکا بھارت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہو گیا۔ سرد جنگ کے تمام عرصے میں بھارت سوویت یونین کی حمایت کرتا رہا جس کے جواب میں اسے سوویت یونین سے بھرپور اسلحہ فراہم کیا گیا جو پاکستان کو امریکا کی طرف سے ملنے والی فوجی امداد سے کئی گنا زیادہ تھا جب کہ بھارت نے 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ کی سخت مخالفت کی تھی۔ 1961ء کے زمانے کی بات ہے جب 8 اور 9اگست کو نئی دہلی میں امریکی سفیر چیسٹر باؤلز نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے ملاقات کی اور انھیں فوجی امداد کی پیشکش کی تا کہ وہ اپنے کمیونسٹ پڑوسی چین کو تجاوز کرنے سے روک سکیں۔

چیسٹر باؤلز بھارت میں امریکا کے سفیر تھے جنہوں نے 14 اپریل 1965ء کو امریکی صدر لنڈن بی جانسن کو امریکا خط لکھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا موجودہ فوجی اتحاد ایشیا کی تازہ صورت حال کی روشنی میں بے معنی ہو گیا ہے کیونکہ یہ اتحاد مختلف وقت میں مختلف مقاصد اور مختلف حالات کے تحت کیا گیا تھا جب کہ بھارت اپنے حجم' وسائل، اقتصادی حیثیت اور جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے امریکا کے لیے بے حد قومی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے داخلی اور خارجی مقاصد ہمارے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور کمیونسٹ چین کے خطرے کو روکنے کے لیے بھی بھارت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

چیسٹر باؤلز درحقیقت ایشیاء کے لیے ''مونرو ڈاکٹرائن'' کا کلیدی معاون تھا جو بحرہند کے تمام ممالک پر بھارت کی برتری کا حامی تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کی 1962ء میں مختصر جنگ کے دوران امریکا نے ہوائی جہازوں کے ذریعے کلکتہ میں بہت بھاری مقدار میں اسلحہ پہنچایا لیکن بھارت یہ جنگ ہار گیا اور اس نے سوویت یونین کا ساتھ 1991ء میں اس کے بکھرنے تک نہ چھوڑا۔ اگر 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا تو بھارت کے ساتھ امریکا کی مضبوط وابستگی قائم ہو چکی ہوتی کیونکہ 9/11 کے واقعے کے بعد امریکا کو ساری توجہ پاکستان پر مرکوز کرنی پڑی۔ بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلق کی غرض صرف کمیونسٹ چین کو اس کی سرحدوں کے اندر روکنے تک محدود تھی۔

2014ء میں صدر اوباما نے نریندر مودی کے بھارتی وزیراعظم بننے کے بعد اس کی طرف توجہ منعطف کی جب کہ امریکا کے صدر نے بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر مسلح افواج کی پریڈ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ اب امریکا بھارت کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شمولیت کی بھرپور حمایت کر رہا ہے جب کہ پاکستان کو این ایس جی کارکن بننے کے لیے اپنی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔

اس حوالے سے میں 16 نومبر 2006ء کو شایع ہونیوالے اپنے آرٹیکل کا حوالہ دوں گا جس کا عنوان تھا ''Not so ugly Americans'' واضح رہے امریکی مصنف گراہم گرین نے The Ugly Americans نامی ایک ناول لکھا تھا جس پر بعدازاں فلم بھی بنائی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ دنیا کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں کی اس کے تمام عوام بھی حمایت نہیں کرتے کیونکہ یہ پالیسیاں ان کی خواہشات کی ترجمان نہیں ہوتیں۔ مزیدبرآں امریکی عوام کو بیرونی دنیا کے بارے میں کوئی زیادہ علم نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کو اس بارے میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے جیسے کہ موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا کو دوسرے ممالک کے مسائل میں الجھنے کے بجائے اپنے داخلی مسائل حل کرنے چاہئیں۔

اسی قسم کے خیالات کا اظہار امریکا کے اولین صدر جارج واشنگٹن نے بھی تقریباً 200 سال قبل قوم سے اپنے الوداعی خطاب میں کیا تھا۔ امریکی تاریخ دان جان بورو (John Burrough) کا کہنا ہے کہ ہمیں حقائق کو تصورات سے الگ کر کے دیکھنا چاہیے۔ بصورت دیگر ہمارے پاس زیادہ اختیارات نہیں رہیں گے۔

1971ء میں جب پاکستان نے امریکا کے چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا تھا تو چینی وزیراعظم چو این لائی نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کے لیے چین تک رسائی کا پل بننے کا کردار ادا کیا ہے لہٰذا امریکا کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اسے اس پل کی دوبارہ بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے امریکی سفارت کار کو ایک چینی کہاوت بھی سنائی جس کا مطلب تھا کہ اپنے دوست کے ماتھے سے مکھی اڑانے کے لیے لاٹھی کا استعمال ہر گز نہ کرو'' ممکن ہے امریکا کو اگلی بار پھر پاکستان کے پل کی ضرورت پیش آ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔