بربادی تباہی قہقہے لگا رہی ہے
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلانڈو کا واقعہ دنیا بھرکے مسلمانوں پرایک اور اجتماعی خود کش حملہ ہے
KARACHI:
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلانڈو کا واقعہ دنیا بھرکے مسلمانوں پرایک اور اجتماعی خود کش حملہ ہے جس کے ملبے سے مسلمانوں کے لیے بربادی، تباہی اور مکمل اکیلا پن کے علاوہ اورکچھ بھی نکلنے والا نہیں ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ایک ایسی آگ ہے جو کسی اورکو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی، ماسوائے پھیلانے والوں کے ۔ یہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے ورنہ مکمل تباہی اور بربادی قہقہے لگاتی ہماری منتظر ہے اور اگر ہم نے اپنے لیے یہ ہی سو چ رکھا ہے تو پھر آپ سب کو پیشگی مبارک ہو، آپ کی منزل اب زیادہ دور نہیں ہے ۔
اپنے مذہب کو نہ سمجھنے والے اس چھری کی مانند ہوجاتے ہیں جو نہ صرف خود کو زخمی کرتے پھرتے ہیں بلکہ جہاں جہاں ان کو موقع ملتا رہتا ہے وہ دوسروں کو بھی زخموں سے چور کرتے رہتے ہیں اور یہ عمل اس وقت اور خوفناک اور وحشت ناک ہو جاتا ہے جب مذہب کی تشریح کرنے والے تنگ نظر ، تعصبی ہوچکے ہوں تو پھر کسی بھی عقل رکھنے والے کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور عقل کی بات کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
انسان اچھا یا برا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی سوچ اچھی یا بری ہوتی ہے اور وہ ہی اسے اچھا یا برا بناتی ہے یا تو آپ خود سوچتے ہیں اورغورو فکر کرتے ہیں اور اگر آپ خود نہیں سوچتے ہیں یا آپ میں سوچنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے تو پھر ایسی صورت میں جو لوگ سوچ رہے ہوتے ہیں وہ ہی آپ بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ سوچنے کی بھی آپ ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں کہ جن کی سوچ کو آپ سوچ رہے ہیں آیا وہ صحیح سوچ رہے ہیں یا غلط سوچ رہے ہیں، آیا جوسوچ رہے ہیں وہ عقل بھی رکھتے ہیں یا پھر عقل کے بغیر ہی سوچے جارہے ہیں، آیا ان کی ذہنی سطح اس لائق بھی ہے کہ وہ کچھ سوچ سکیں ۔
ذہن میں رہے سوچنے کا سارا تعلق غور و فکر سے ہوتا ہے اور غور و فکر کا تعلق مشاہدے، تجربے اور پڑھنے سے ہوتا ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری عنصر کھلے ذہن کا ہونا ہوتا ہے یعنی سوچنے والا سوچنے سے پہلے ہی کسی نتیجے پر نہ پہنچا ہوا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پہلے ہی کسی نتیجے پر پہنچ کر کچھ نہیں سوچ سکتے۔ قدیم عہد میں تھیوکریسی عالمگیر نظام تھا، تھیوکریسی ریاست کی وہ قسم ہے ۔
جس میں حکومت کے قوانین احکام خداوندی سے منسوب کیے جاتے ہوں یا جہاں کا حاکم اعلیٰ خدا، خدا کا اوتار یا خدا کا نمایندہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو یعنی اقتدار اعلیٰ کے مالک عوام اور ان کے نمایندے نہ ہوں بلکہ مذہب کے نام پر حکمرانی کا دعوے دار واحد ہو۔ اسی لیے سب ہی کا خیال تھا کہ ریاست کی سربراہی اور قوانین عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں، رعایا کا فرض ہے کہ وہ حاکم وقت کی اطاعت اور اس کے احکامات کی پاس داری کرے بادشاہ اپنے سوا کسی دوسرے بادشاہ کو ''خدا کا اوتار '' تسلیم نہ کرتا تھا اور موقعے ملتے ہی چڑھائی کر دیتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بیشتر بادشاہ اپنے خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
اسرائیل کے 19 میں سے 8بادشاہ قتل ہوئے یہ ہی کچھ قیصران روم کے ساتھ ہوا جوخود کو دیوتا کہتے تھے ایران کے قاچاری بادشاہوں میں فقط ایک کو قدرتی موت نصیب ہوئی، سلاطین دہلی کو بھی ان ہی حالات سے دوچار ہونا پڑا، خاندان غلاماں کے 11 میں سے5 بادشاہ قتل یا برطرف ہوئے خلجیوں کے 6 میں سے4 اور تغلقوں کے 9 میں سے 5 کے ساتھ یہ ہی کچھ ہوا ۔ سلطنت مغلیہ کے کل 18 بادشاہ ہوئے جن میں سے 12 قتل ، برطرف یا اندھے کردیے گئے ۔ ملوکیت میں بادشاہ کا مذہب ریاست کا سرکاری مذہب ہوتا تھا۔ مغرب میں مسیحی کلیسا بڑی طاقتور سیاسی قوت بن کر ابھرا ۔ جب روم کے شہنشاہ قسطنطین اول نے عیسائی مذہب اختیار کیا اور عیسائیت سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پائی تو کلیسا کی طاقت بہت بڑھ گئی ۔
پوپ کا دعویٰ تھا کہ وہ زمین پر یسوع مسیح کا خلیفہ ہے، پوپ کے مقررکردہ پادری لاکھوں کی تعداد میں شہروں، شہروں، قریوں ، قریوں میں پھیل گئے۔ مغربی مورخین کلیسا کے ہزار سالہ اقتدار کو''عہد تاریک سے تعبیر کرتے ہیں وہاں چوتھی صدی سے چودھویں صدی تک تعصب، تنگ نظری، نفرت، توہم پرستی کا اندھیرا چھایا رہا ہر جگہ مذہبی عدالتیں قائم تھیں جن کے فیصلے آخری ہوتے تھے ہزاروں سولیاں ہر وقت خون سے تر رہتی تھیں اور بے شمار تلواریں انسانی سینوں میں پیوست ۔ قید خانے کھچا کھچ بھرے رہتے تھے اور سیکڑوں انسان دہکتی ہوئی آگ کے اندر پڑے ہوئے تڑپا کرتے تھے کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو روا نہ رکھا گیا ہو اور کوئی معصیت ایسی نہ تھی جس کا ارتکاب مذہب کے پردے میں نہ ہوتا ہو تعلیم پرکلیسا کی اجارہ داری قائم تھی۔ ذہن مفلوج تھے کوئی شخص آزادی سے نہیں سوچ سکتا تھا جو پادری سوچتے اورکہتے تھے وہ حکم آخر ہوتا تھا کیونکہ پادریوں کے ہاتھ میں بائبل تھی ۔
اسی دوران جرمنی میں 1465 میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا ۔ کتابوں اور رسالوں کی اشاعت سے پادریوں کی علمی اجارہ داری ختم ہوگئی اور سائنسی دریافتوں اور ایجادوں سے عقائد وافکار کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ مارٹن لوتھر، تھامس موئرز، زونگلی اورکالون کی مذہبی بغاوتوں نے کلیسا پرکاری ضرب لگا دی ۔ یہ لوگ خود پادری تھے لیکن ان کا پیمانہ صبر چھلک اٹھا تھا۔
انھوں نے کہا ہر شخص کو اختیار ہے کہ انجیل اپنی زبان میں پڑھے اپنی زبان میں عبادت کرے اور اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرے ۔ اور پھر انسان مذہبی جنونیوں سے آزاد ہوتے چلے گئے کیونکہ بائبل پادریوں کے بجائے خود ان کے ہاتھوں میں آچکی تھی اور انسانوں نے خود سوچنا اور سمجھنا شروع کردیا اس سے پہلے صرف پادری سوچتے اور سمجھتے تھے ۔ ادھر دوسر ی طرف مسلم معاشروں میں روشن خیالی عام تھی اور مسلم معاشرے تعصب، نفرت ،انتہاپسندی سے پاک تھے کیونکہ لوگ قرآن پاک خود پڑھتے اور سمجھتے تھے اور لوگ خود سوچتے تھے ، پھر آہستہ آہستہ مسلمان خود سوچنے اور سمجھنے کے عمل کو ترک کرتے چلے گئے اور لوگوں نے دین کو پڑھنے اور سوچنے کا کام ملاؤں کے حوالے کردیا جنہوں نے انتہائی باریکی کے ساتھ مسلم معاشروں میں انتہاپسندی ، نفرت ، تعصب پھیلانے کا عمل شروع کردیا اور آہستہ آہستہ لوگوں کو زہریلا بناتے چلے گئے اور لوگ وہ ہی سوچتے چلے گئے جس کو سوچنے کے لیے ملاؤں نے کہا تھا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسے سوچ کر انسان انسان نہیں بلکہ تیزاب بن جائیں گے اور وہ کسی اورکو نہیں بلکہ اپنے آپ کو جلا ڈالیں گے ۔
لہذا اب اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے پاکستان، شام،عراق، لبنان،افغانستان اور دیگرمسلمان ممالک میں بربادی ، تباہی، انتہاپسندی دیوانہ وار قہقہے پر قہقہے لگا رہی ہے اور معصوم اور سیدھے سادے مسلمان رو رہے ہیں ۔