امریکا میں دہشتگردی کا واقعہ

مشرق وسطیٰ ہو، پاکستان، یورپ یا پھر امریکا، دہشت گردی جہاں بھی ہو، قابل مذمت ہے


محمد عارف شاہ June 17, 2016

KARACHI: مشرق وسطیٰ ہو، پاکستان، یورپ یا پھر امریکا، دہشت گردی جہاں بھی ہو، قابل مذمت ہے۔ دہشتگردی کی کارروائیاں صرف جسم پر لگے زخم اور ان سے پیدا ہونے والی تکلیف نہیں دیتی بلکہ یہ ایسے گھاؤ بھی دیتی ہیں کہ جن کی تکلیف صرف جسم کے زخموں تک محدود نہیں ہوتی، یہ اذیت اوریہ تکلیف ہر سانس اور ہر آہ میں اپنا بسیرا کرلیتی ہے اور یہ روگ عمر بھر کے لیے لگ جاتا ہے۔ ایسی اذیت کا شکارصرف ایک زخمی یا مرنے والا نہیں ہوتا، اس اذیت کا سامنا ہر وہ انسان کرتا ہے جس کا بھائی، باپ، بیٹا، شوہر، ماں یا بیٹی یا بیوی اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں، یہ تکلیف اور یہ اذیت مذہب، رنگ، یا نسل نہیں دیکھتی، مذہب، رنگ یا نسل دیکھنے اور اس پر تفریق و سیاست کرنے کا ٹھیکہ ویسے بھی انسانوں نے لے رکھا ہے۔

امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر آرلینڈو میں اتوار کی رات ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب پر ایک امریکی شہری کی اندھا دھند فائرنگ سے 50افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوگئے، نائن الیون کے بعد یہ حملہ امریکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ہولناک ترین سانحہ ہے۔ افغان نژاد امریکی حملہ اورعمر متین نے حملہ کیوں کیا؟ اس کے کیا مقصد تھے؟ فی الحال اس بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا مگر مغربی میڈیا نے حسب معمول واقعے کو اسلامی انتہا پسندی سے جوڑتے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا ہے اور حملے کا تعلق مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے نتائج کسی بھی صورت عالمی امن کے حق میں نہیں کیونکہ اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا اور بین الاقوامی کشیدگی میں اضافے ہوگا۔

مقام حیرت ہے کہ ایک شخص معروف نائٹ کلب میں گھس کر سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیتا ہے؟ انتہائی ترقی یافتہ اور سیکیورٹی کے اعتبار سے طاقتور ترین ملک کی پولیس واقعے کے کئی گھنٹے بعد جائے وقوع پر پہنچتی ہے اور حملہ آورکوگرفتار کرنے میں ناکام ہوکر اسے گولی سے اڑا کر معاملے کو اختتام تک پہنچاتی ہے۔ واقعے میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ خفیہ ایجنسیاں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بہت سے گھناؤنے اور بے رحم کھیل کھیلتی ہے، ماضی میں صدر بش کی صدارتی مہم کے موقعے پر اسامہ بن لادن کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس کا فائدہ بش کو پہنچا اور وہ صدر منتخب ہوگئے۔ اس واقعے کو بھی بنیاد بناکر امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے کیونکہ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔

درحقیقت 9/11 کے بعد امریکا بہادر اور اس کے حواریوں کی وجہ سے دنیا کو دہشتگردی کے عفریت کا سامنا کرنا پڑا، دیکھتے ہی دیکھتے مسلم ممالک کو دہشتگردی کی بھٹی میں جھونک دیاگیا اور اب یہی دہشتگرد اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ ان کے ہاتھ اپنے آقاؤں کے گریبانوں تک جاپہنچے ہیں۔ گزشتہ تین عشروں سے امریکا اور اس کے حواریوں نے دنیا کو ایک خوفناک اور گمراہ کن صورتحال سے دوچار رکھا ہے اور یہ بات اب دوسری نسل کو سمجھ میں آنے لگی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے محاذ میں روس کے کودنے سے تاریخ میں یہ بات کھلی کہ داعش، طالبان، بوکوحرام اور القاعدہ جیسی تمام انتہا پسند تنظیمیں نیو ورلڈ آرڈر کے اسکرپٹ کے مطابق قائم کی گئی ہیں اور امریکا نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ان تنظیموں کو استعمال کیا ہے۔

پہلے القاعدہ کو ختم کرنیکا دعویٰ ہوا اورپھرطالبان کوکمزورکرنے کی بات ہوئی۔ اب ایک نئی تنظیم داعش کے نام سے سامنے آئی ہے،آج جس داعش پر عالمی تبصرے کیے جارہے ہیں وہ کون ہیں؟ انھیں کس نے تخلیق کیا ہے؟ آسمان سے اترے ہیں یا پاتال سے آئے ہیں؟ صرف چند برسوں میں جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو بے رحمی اور سنگ دلی کے نیزوں سے تڑپا تڑپا کر مار ڈالا وہ آخر مسلمانوں کے ترجمان کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہ بات بھی مزید کھلتی جارہی ہے کہ امریکا اور اس کے حواری دہشتگردی ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان دہشتگرد تنظیموں کو مزید مضبوط کرکے وہ اپنے مقابلے میں نہ تو کوئی دوسری سپر پاور دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی نئے بلاکس کو بننے دے رہے ہیں۔ یہ دہشتگردی امریکا کے مفاد میں ہے، امریکہ اور اس کے حواریوں نے ساری دنیا پر ایک طرح سے جنگ مسلط کررکھی ہے۔ اس جنگ میں دہشتگرد تنظیموں کے نام سے جو فریق لڑرہا ہے وہ بھی امریکا اور اس کے حواریوں کے مقاصد کو پورا کررہا ہے۔

آج کی دنیا ترقی اور خوشحالی کی دنیا کہلاتی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے باعث فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں اور انسان بے شمار ایسی منازل سر کر چکا ہے جس کا کبھی اس نے گمان بھی نہیں کیا تھا لیکن آج بھی وہ خوف زدہ ہے، بالکل پہاڑ اور پتھر کے دور کے انسان کی طرح آج بھی وہ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کیونکہ دنیا کے ٹھیکیدار انسان کی خوشی ڈھونڈنے کی بجائے اس کی موت اور پریشانی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں مصروف ہیں۔ تعلیم اور ترقی کی اتنی منازل طے کرنے کے بعد بھی جنگل کے قانون کی پیروی کی جارہی ہے۔

علم کے بجائے طاقت کو معتبر درجہ حاصل ہے، اس لیے مہلک ترین اسلحہ اور بم اس کی ترجیح ہیں، اسے احساس ہے کہ ان کے استعمال سے اس کی اپنی بقاء کو بھی خطرہ لاحق ہے مگر وہ اس راستے سے پلٹنے کو تیار نہیں۔ لوگ دلوں کو فتح کرنے کی بجائے علاقوں کو فتح کرنے کی روش پر چل رہے ہیں، ہر طاقتورکمزور پر نشانہ لگائے بیٹھا ہے۔ اس کے جذبہ اقتدار کے سامنے معصوم اور مظلوم کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ روزانہ سیکڑوں بچوں سمیت بے گناہ افراد اذیت ناک موت کا شکار ہورہے ہیں۔

ان کے ورثاء کی آہیں اور نالے پوری عالم انسانیت کو آواز دیتے ہیں لیکن دلوں پر مہریں لگی ہوں اورکان دردکی پکار سننے سے ناآشنا ہو تو ان کی مدد کوکیسے پہنچیں لیکن یہ معاملہ صرف ظلم کرنے والوں تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے ہر ذی نفس کو بھی اس کی ذمے داری قبول کرنی پڑے گی اور اس کے عوض سزا بھگتنا پڑے گی کیونکہ مرنے والوں نے دم آخر جس لاچاری سے اپنا درد فضاء کے حوالے کیا تھا وہ ہم سب کی میراث بننے والا ہے اور یہی چیخیں اور آہیں آج کے حساس انسان کا المیہ ہیں۔

وہ اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے، اس کے وجود کی قوت مدافعت جبر سہہ سہہ کر ختم ہوچکی ہے اس لیے بیماریاں اسے اپنا شکار کررہی ہیں۔ وہ مضطرب اور مضمحل ہے، اس لیے اس کے مزاج میں اکتاہٹ اور زندگی سے بیزاری کی علامات پائی جاتی ہیں۔ آخر اس کا انجام کیا ہوگا۔ کیا ہم سب چند متشدد اور شرپسند عناصر کی تخلیق کردہ خطرناک لیبارٹری کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے یا کسی دن رک کراپنا اور دنیا کا موازنہ کرنے کی کوشش کریں گے اور آزادانہ فکرکے ذریعے خبرکی نئی دنیا تعمیرکرنے کی منصوبہ بندی کریں گے؟

دہشتگردی کی حالیہ لہر دنیا میں امن کے ٹھیکیداروں سے تقاضا کرتی ہے کہ بلاوجہ دیگر ممالک کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے، امریکا ویورپ کی خوفناک پالیسیوں کا خمیازہ پوری دنیا بھگت رہی ہے، وقت آگیا ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرے تب ہی اس عالمی عفریت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |