سیاست کی نذر ہونے والی ایک سڑک

سیاسی کے بجائے عوامی مفادات پر توجہ دیں اسی میں ہماری آپ کی بھلائی ہے۔


جس ملک میں ایکسپریس ویز، ہائی ویز، میٹرو بس، اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر اربوں، کھربوں خرچ کئے جاسکتے ہیں تو وہاں 35 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کیا معنی رکھتی ہے۔

ISLAMABAD: رمضان المبارک کا مہینہ ہے، جہاں ایک طرف سورج سوا نیزے پر ہے اور آگ برسا رہا ہے وہیں لوڈ شیڈنگ نے رحمت کے مہینے میں بھی زحمت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسے میں ملک بھر سے روزہ داروں نے سوات کے پرفضاء مقامات بحرین، کیدام، مانکیال، کالام، مٹلتان اور اتروڑ میں اپنے خاندان سمیت ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ جو اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردیتا ہے کہ جب انسان سکون کا متلاشی ہو تو ''جنت بروئے زمین'' وادی سوات کا رخ کرتا ہے۔

سوات کے ایسے سیاحتی مقامات جہاں جون جولائی میں بھی موسم انتہائی سرد رہتا ہے، وہ مدین سے لے کر مہوڈنڈ اور گبرال تک کے علاقے ہیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ سوات میں وسائل کی فراہمی پر کسی حکمران نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور اس کی واضح مثال 35 کلومیٹر رقبہ پر محیط وہ سڑک ہے، جو بحرین سے اوپر کے علاقوں کو آپس میں ملاتی ہے لیکن خستہ حالی کی وجہ سے مقامی لوگوں اور آنے والے سیاحوں کے لئے عذاب بن چکی ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ جس ملک میں بڑے بڑے ایکسپریس ویز، ہائی ویز، میٹرو بس، اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر اربوں، کھربوں خرچ کئے جاسکتے ہیں تو وہاں 35 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کیا معنی رکھتی ہے؟

اگر ملکی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو سیاسی درجہ حرارت بام عروج پر ہے، ایسی صورتحال میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے یہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ماضی میں اس حلقے میں پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور اے این پی نے بھرپور پنجہ آزمائی کی۔ اس کے بعد جب خیبر پختونخوا کی سیاست نے اچانک کروٹ بدلی تو یہاں سے صوبے کی مضبوط سیاسی جماعت بری طرح ناکام ہوگئی اور صوبائی سیٹ پر دوسری بار اے این پی کے سید جعفر شاہ کامیاب ہوگئے۔ جب قومی سطح پر سیاست ڈگمگاتی ہے تو ایسے میں سیاست دانوں کو ایک ایسا نکتہ ڈھونڈنا پڑتا ہے جس میں ملکی سالمیت اور مفاد کا عنصر پایا جاتا ہو اور وہ وہی نعرہ لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں، لیکن کسی مخصوص حلقے میں کامیابی کے لئے اتنی تگ و دو کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک ایسا مسئلہ ڈھونڈنا پڑتا ہے، جو حلقے کا اجتماعی مسئلہ ہو، جسے اپنی سیاست کا محور بنایا جاسکے۔

اسی فارمولے کے تحت سوات کے اس سیاحتی زون کو دوسرے علاقوں سے ملانے والی کالام سڑک بھی سیاسی دھینگا مشتی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ حلقے کے ایم پی اے چونکہ مخالف پارٹی سے ہیں، اسلئے وہ صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈ کی عدم فراہمی کا رونا رو رہے ہیں۔ ایسے میں مشیر وزیر اعظم پاکستان انجنیئر امیر مقام کیلئے کالام سڑک کے ذریعے اپنی سیاسی بساط بچھانے کی راہ ہموار ہوگئی۔ حلقے کے ایم پی اے اورمقامی عمائدین کی کوششوں سے ایشئین ڈیولپمنٹ بینک کی فراہم کردہ 48 کروڑ کی رقم سے انہوں نے راتوں رات آ کر افتتاحی تقریب بھی منائی جس کے بعد اے این پی اور پی ایم ایل این کے کارکنان آپس میں دست وگریباں ہوگئے، لیکن سڑک پھر بھی نہ بن سکی۔

جب صوبے میں بلدیاتی اسٹرکچر بنا تو اس سے یہ فائدہ ہوا کہ حلقے کے مختلف یونین کونسلز اور ولیج کونسلز کے نمائندوں کو اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا ہوا، ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے افراد اور میڈیا نے سڑک کی عدم تعمیر کے خلاف بلدیاتی نمائندوں اور علاقہ عوام کو اس بات پر متحرک کردیا کہ حق چھینے بغیر نہیں مل سکتا اس لئے تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں دھرنا آخری آپشن ہے۔

جب دھرنے کی تیاریاں ہورہی تھیں تو جناب امیر مقام نے مقامی بلدیاتی نمائندوں اور عمائدین کو بلا کر ایک مہینے کے اندر سڑک پر تعمیراتی کام شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی اور احتجاج سے روک دیا، بلکہ اخبار میں باقاعدہ ٹینڈر بھی شائع کیا۔ 6 جون کو ٹینڈربھی کھول دیا گیا، تو امیر مقام نے لوگوں کو مبارک باد دی کہ 9.1 ارب روپے کا ٹینڈر کھل گیا ہے، جلد ٹھیکہ بھی دے دیا جائے گا۔

جب کہ دوسری طرف حلقے کے ایم این اے سلیم الرحمن جو کہ وفاق میں مواصلات کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ممبر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ، نہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے فنڈ مختص کیا ہے اور نہ سڑک ٹھیکہ پر دی جارہی ہے، بلکہ ان کا مزید کہنا تھا کہ چکدرہ تا سوات ایکسپریس وے کے لئے جو 3.1 ارب کا اعلان وزیر اعظم نے کیا تھا، اس کے لئے بجٹ میں صرف پانچ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، تو بحرین تا کالام 35 کلومیٹر سڑک کے لئے وفاقی بجٹ میں 9.1 ارب کی خطیر رقم کہاں سے شامل کر سکتے ہیں؟

بہرحال غیر سنجیدہ عوامی نمائندوں اور ذمہ داران کو سیاسی دکان چمکانے والوں کو یاد دلاتا چلوں کہ چند دنوں پہلے ایک المناک حادثہ اسی سڑک پر پیش آیا اور اتروڑ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 6 افراد دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے تھے۔ جب کہ 2 سال پہلے حادثے میں اتروڑ ہی سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 17 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ہر سال درجنوں افراد اس سڑک کی خستہ حالی کے باعث جان کی بازی ہارتے ہیں، تو اس معاملے میں سیاسی مفادات کے بجائے عوامی مفادات پر توجہ دیں اسی میں ہماری آپ کی بھلائی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں