شریکۃ الحسین بی بی زینبؓ

بی بی زینب کو ام المصائب بھی کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کیوں کہ آپ نے مسلسل غم و آلام نہایت قریب سے دیکھے۔


Abbas Naqvi November 23, 2012
زینب نام ہے اس شخصیت کا جس نے کربلا میں لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دین حق کی سربلندی میں عورت کے عظیم کردار کی وضاحت کی ہے۔ فوٹو : فائل

سانحہ کربلا، اسلامی تاریخ، بلکہ پوری انسانی تاریخ کا وہ لرزہ خیز واقعہ ہے۔

جس میں رہتی دنیا تک کے لیے اسرار و رموز پنہاں ہیں۔ نواسۂ رسول، حضرت امام حسین نے 10 محرم 16ہجری یومِ عاشور کربلا میں اپنے احباب و انصار و اہل حرم کے ساتھ دین حق کی خاطر ریگ زارِ کربلا پر عظیم قربانیوں کے نقوش ثبت کیے۔ یومِ عاشور جہاں نواسۂ رسولؐ کے ساتھ کربلا میں ہر عمر اور ہر صنف کے افراد خوابِ ابراہیمؑ کو تعبیر دینے کے لیے تیار دکھائی دیتے تھے، وہیں خواتین کربلا نے بھی عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت کے باب رقم کیے۔ انہی سرکردہ خواتین میں ایک نام حضرت زینبؓ کا بھی آتا ہے جنھوں نے دینِ حق کی سربلندی کی خاطر کربلا میں نہ صرف اپنے دو بچوں عون و محمد کی قربانی پیش کی، بلکہ اول تا آخر جہاد کربلا میں ایک فعال قائد کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں نبھائیں۔

حضرت زینبؓ، نبی پاک حضور ختمی مرتبتﷺ کی نواسی اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ اور حضرت علیؓ ابن ابی طالب کی بڑی صاحب زادی تھیں۔ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کی بہن تھیں۔ حضرت جعفرِ طیار کی بہو اور حضرت عبداﷲ ابن جعفرِ طیار کی زوجہ تھیں۔

حضرت زینبؓ بنت علیؓ کی ولادت 5 ہجری میں مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ جب آپ دنیا میں تشریف لائیں تو آپ کے نانا حضور پاک ﷺ کسی سفر پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت علی نے اپنی نومولود صاحب زادی کا نام اس وقت تک تجویز نہیں کیا جب تک حضورؐ اپنے سفر سے واپس تشریف نہ لے آئے۔ جب اﷲ کے رسول ؐ واپس تشریف لائے تو پارۂ عصمت حضرت زینب کو اپنی آغوش میں لے کر حکمِ خداوندی کے مطابق زینب نام تجویز فرمایا۔ روایت ہے کہ اس منزل پر حضورؐ کی آنکھوں سے اس قدر آنسو جاری ہوئے کہ ریشِ مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔

کسی کے دریافت کرنے پر رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا:''جبرائیل امین نے مجھے بتایا ہے کہ میری یہ بیٹی کربلا کے روح فرسا مصائب میں میرے حسین کے ساتھ برابر کی شریک ہوگی۔'' اس کے بعد آپؐ نے وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:''یہ میری بچی خدیجۃ الکبریٰ کی من و عن تصویر ہے۔''

حضرت زینب کی ابتدائی تربیت حضور ختمی مرتبتؐ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃالزہراؓ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔ ثانیٔ زہرا کو بچپن ہی سے اپنے بے مثال بھائی حضرت امام حسینؓ سے خصوصی محبت و الفت تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ بچپن میں بھی اگر آپ کو تھوڑی دیر کے لیے امام حسینؓ کے چہرے کی زیارت نصیب نہ ہوتی تو آپؓ پر گریہ طاری ہوجاتا تھا۔ یہ محبت و الفت بچپن سے کربلا تک اس درجۂ کمال کو پہنچ چکی تھی جہاں یک جان دو قالب کی صورت پیدا ہوگئی اور حضرت امام حسینؓ جیسی شخصیت نے واقعۂ کربلا کے دوران حضرت زینبؓ سے مشاورت فرمائی۔ یہی سبب ہے کہ واقعۂ کربلا میں آپ نے امام حسین کے اتباع میں نہ صرف بہ تمام و کمال پیش آنے والے تمام مصائب کو برداشت کیا، بلکہ اپنے دو بیٹوں حضرت عون و محمد کو بھی راہِ خدا میں فدیہ کیا۔ اور اس کے بعد کربلا سے کوفہ و شام تک بے پردگی کے عالم میں بھائی کے پیغام کو عام کرتی چلی گئیں، اسی لیے آپؓ کو شریکۃ الحسینؓ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بی بی زینب کو ام المصائب بھی کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کیوں کہ آپ نے مسلسل غم و آلام نہایت قریب سے دیکھے۔ اول اول پانچ برس کی عمر میں حضور ختمی مرتبتﷺ کی رحلت پر گھر میں صفِ ماتم دیکھی۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ بی بی فاطمۃ الزہراؓ کی وفات پر غم و الم کا شکار ہوئیں۔ پھر چوتھے خلیفۂ راشد اور اپنے والد محترم حضرت علی ابن ابی طالب کی شہادت کا غم سہا، اس کے بعد بڑے بھائی امام حسنؓ کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا اور آخر میں اپنے چہیتے برادر حضرت امام حسینؓ کی شہادت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ حضرت امام حسین سے پہلے کے تمام واقعات و حادثات کا مشاہدہ کربلا کے لیے آپؓ کا تربیتی اثاثہ قرار پایا اور یومِ عاشور آپؓ نے اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور بیٹوں کو خون میں غلطاں دیکھا، مگر اﷲ کے شکر کے سوا آپ کی زبان مبارک سے کوئی اور لفظ نہ نکلا۔

حضرت زینبؓ کی طبیعت میں عبادت و پرہیزگاری کا عنصر نہایت غالب دکھائی دیتا ہے۔ تمام غم و آلام پوری خندہ پیشانی سے سہتی رہیں، مگر عباداتِ خداوندی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حضرت زین العابدینؓ فرماتے ہیں:''میری پھوپھی نے تمام سفر و اسیری کے دوران کبھی نماز قضا نہ کی اور وقت رخصت آخر امام حسین نے بھی اپنی بہن زینب سے فرمایا تھا،'' اے بہن! مجھے اپنی نمازِ شب میں فراموش نہ کرنا۔''

یہ سند ہے کہ حضرت زینبؓ نہایت عبادت گزار اور پرہیزگار شخصیت تھیں۔ آپ کو ثانیٔ زہرا کہنے کی وجہ غالباً یہی ہے کہ آپ حسبی و نسبی اعتبار سے کئی منازل میں حضرت فاطمۃالزہرا ؓ سے مماثلت رکھتی ہیں۔ حضرت فاطمۃالزہرا نے آغوشِ رسالت ﷺ میں پرورش پائی تو حضرت زینبؓ کو آغوشِ رسالتؐ و ولایت میسر آئی۔ حضرت فاطمۃالزہرا کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ہیں تو حضرت زینب کی والدہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃالزہرا ہیں۔ حضرت خدیجہؓ کے دو فرزند راہِ خدا میں شہید ہوئے تو حضرت زینبؓ نے بھی اپنے دو بیٹے راہِ خدا میں فدیہ کیے۔

11محرم الحرام کو ''یومِ زینب'' کا مقام حاصل ہوا اور آپ پر مصائب کی انتہا ہوگئی۔ راہِ کوفہ و شام کا سر برہنہ سفر آپ کے مصائب کی ہمت و جرأت کا امتحان ثابت ہوا۔ اﷲ اکبر! زینبؓ اس مقام سے بھی سرخرو گزریں اور کوفہ و شام میں آپ کے بھرپور خطبات ثابت کرتے ہیں کہ آپ نے بغیر کسی گھبراہٹ و خوف کے کبھی راہِ کوفہ میں تو کبھی دربارِ یزید میں نہایت جرأت و شجاعت کے ساتھ ظالم کے ظلم اور مظلوم کے حق کی وضاحت فرمائی۔ ان خطبوں کی علمیت، ان کی اہمیت اور اندازِ خطابت حضرت علیؓ کے خطبات کی یاد دلاتا ہے اور ان سے حضرت زینب کی علمیت و تدبر کی عکاسی ہوتی ہے۔

واقعۂ کربلا میں حضرت زینبؓ کی ذاتِ اقدس محض ایک بہن کی نہیں ہے، صرف ایک ماں کی نہیں ہے، صرف ایک مجاہدہ اور خطیبہ کی نہیں ہے، بلکہ زینب نام ہے اس شخصیت کا جس نے کربلا میں لاتعداد کرداروں کو ایک سانچے میں ڈھالتے ہوئے دین حق کی سربلندی میں عورت کے عظیم کردار کی وضاحت کی ہے۔ کربلا میں آپ کی شخصیت سے قریب قریب ہر شعبۂ ہائے زندگی سے متعلق ہدایت آفریں کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |