مہنگائی کا بھوت…

ابھی تو رمضان کا ایک عشرہ گزرا ہے اور اگلے مہینے عید بھی ہے!


Shirin Hyder June 18, 2016
[email protected]

NEW DELHI: '' غضب خدائے پاک کا، جانے کیا ہو گیا ہے، کیوں کمائی میں اتنی بے برکتی ہو گئی ہے، ابھی تو رمضان کا ایک عشرہ گزرا ہے اور اگلے مہینے عید بھی ہے! '' تائی جان اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں۔

'' کیا ہو گیا تائی جان... کیوں پریشان لگ رہی ہیں؟ '' تائی جان جیسی سگھڑ خاتون کو پریشان دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی۔ وہ تو سارے خاندان میں اپنی پلاننگ اور سلیقے کے باعث مشہور تھیں، سال بھر کا گھریلو بجٹ اتنے اچھے طریقے سے ترتیب دیتیں کہ کچھ بھی ہو وہ اخراجات کے معاملے میں وہ کبھی پریشان دکھائی نہ دیتیں، '' کیا اس سال ماہ رمضان کی منصوبہ بندی آپ کے بجٹ میں شامل نہ تھی؟ ''

'' سب کچھ تھا بیٹا، میں نے تو کچھ چیزیں پچھلے مہینے اضافی منگوا لی تھیں، بلکہ اسی مہینے میں نے غرباء اور مساکین کے لیے بھی رمضان کے پیکٹ بنا کر رکھ لیے تھے... اب تو سارا بجٹ خراب ہو رہا ہے جو ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی ہر روزکے حساب سے نئی نئی قیمتیں نظر آتی ہیں، بالخصوص جو چیزیں رمضان کے ساتھ لازم اور مربوط سمجھی جاتی ہیں... جیسے میدہ، بیسن، کھجور، پھل، چنے اور سبزیاں ! '' انھوں نے تفصیل بتائی، '' گوشت اور مرغی کی قیمت تو پوچھو ہی مت! ''

'' تائی جی ، یہ جن چیزوں کی لسٹ آپ نے گنوائی ہے، انھیں رمضان کے ساتھ لازم اور مربوط کس نے کیا ہے اور کیوں ؟ '' میں نے حیرت کوزبان دی۔...'' ارے بھئی یہ وہی چیزیں ہیں جو ہمارے سب کے گھروں میں سحر اور بالخصوص افطار میں استعمال ہوتی ہیں، میدے سے کچوریاں ، سموسے اور رول وغیرہ بنتے ہیں، بیسن اور سبزیوں سے پکوڑے ، جو کہ ہر روز اور ہر گھر میں بنتے ہیں، پھر چنوں کی چاٹ ہے اور فروٹ چاٹ میں پھل بھی استعمال ہوتا ہے، ہر پھل کی قیمت کوآگ لگی ہوئی ہے، کیلا جو رمضان سے پہلے سو روپے درجن تک مل جاتا تھا اب وہ دو سو روپے درجن میں بھی نہیں ملتا، لیموں اور چاندی ایک بھاؤ ہو گئے ہیں، (کچھ مبالغہ ہو گیا تھا ) اسی طرح باقی سب چیزیں ہیں! ''... '' تو کیا آپ سب چیزیں نہ خریدیں تو روزہ افطار نہیں ہو سکتا؟ کیا کھجور ، فروٹ چاٹ یا پکوڑوں کے بغیر روزہ مکروہ ہو جاتا ہے؟ '' میں نے ان سے نرمی سے پوچھا۔...'' ارے نہیں بیٹا، ایسا کب کہا میں نے... بس یہ سب لوازمات ہیں نا روزے کے اور کھجور کھانا تو سنت ہے... ہمارے پیارے رسول ﷺ کی!!'' انھوں نے عقیدت سے کہا۔

'' بس تائی جی ہم ہر اس سنت کی تقلید کرتے ہیں جو ہمیں خودکو بھی سوٹ کرتی ہے، سنتوں کے چکر میں پھنس کر فرائض بھول جاتے ہیں، کیا پکوڑے کھانا بھی نعوذ باللہ سنت ہے؟ '' میں نے اپنی بات جاری رکھی، '' ہم ہر موقعے پر اور ہر جگہ اپنا پیٹ بھرنے کے چکروں میں رہتے ہیں اور ہر عبادت کی اصل روح سے کوسوں دور رہ کر عبادت کرتے ہیں ! ''

'' یہ کیا بات کی بیٹا، ہم تو تراویح، تہجد تک پڑھتے ہیں، قرآن پاک اور ساری نمازیں باقاعدگی سے پڑھتے ہیں، زکوۃ بھی پورا حساب لگا کر دیتے ہیں!'' انھوں نے اپنے سارے فرائض بتائے۔...'' جانتی ہوں تائی جی، سب کچھ ضرور ہوتا ہو گا، مگر کیا کبھی آپ نے باہر نکل کر دیکھا ہے کہ آپ کے گھر سے باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔کیا اس مہینے میں ہمارے ملک میں کوڑے کے ڈھیروں سے کھانے پینے کی اشیا چن کر کھانے والے بچے ناپید ہو جاتے ہیں، کیا ہم دن بھر بھوکے رہ کر روزے جیسی عبادت کی اصل روح کو سمجھ پاتے ہیں، کیا ہم ان کی بھوک کا احساس کر پاتے ہیں جنھیں دن بھر کھانا میسر نہیں ہوتا۔

قرآن اور حدیث میں کئی بار اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد ان لوگوں کو دیکھیں جنھیں کچھ میسر نہیں۔ ایک سادہ سی اور قابل عمل بات ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بھی جنس مہنگی ہے، آپ اسے نہ خریدیں، بخدا ماہ رمضان میں ہمارے ہاں جن لوازمات کو روزی کی سحری یا افطاری کے لیے لازم سمجھ لیا گیا ہے ، ان سب اشیا کے بغیر بھی ہم سحر اور افطار کر سکتے ہیں۔

یوں تو ہمیں سال بھر ہی ان لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے جو ضرورت مند ہیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے اور اپنی سفید پوشی کی چھوٹی سی چادر کو کبھی سر کی طرف کھینچتے ہیں اور کبھی پیروں کی طرف۔ ذرا سی محنت سے ہم کئی مستحقین کو اپنے ارد گرد تلاش کر سکتے ہیں اور ان کے گھروں میں سادہ دال روٹی کا راشن ڈلوا کر کم از کم اس مہینے میں ہم ان کے گھروں میں چولہا ٹھنڈا ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

چلچلاتی گرمی میں مزدوری کرتے ہوئے لوگ، جن کے گھروں میںایک وقت کی روٹی ان کی اس محنت کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے... جس گرمی میں ہم اپنے ائیر کنڈیشنڈ کمروں اور گاڑیوں سے منہ باہر نکالتے ہوئے '' الاماں '' پکار اٹھتے ہیں، اس گرمی میں وہ اپنی روٹی کمانے کے لیے نڈھال ہو رہے ہوتے ہیں، انھیں کچھ دے سکیں تو دیں، بھیک سمجھ کر نہیں، ماہ رمضان کا تحفہ کہہ کر۔ ہم افطاری اپنے گھر کے لیے بھی بناتے ہیں اور اپنے ان رشتہ داروں کے گھروں میں ٹرے سجا سجا کر بھیجتے ہیں جہاں پہلے ہی یہ سب لوازمات موجود ہوتے ہیں... زیادہ نہیں تو اپنے گھر کے علاوہ کسی ایک شخص کو اپنے گھر کی افطاری میں شامل کر لیں، کوئی مزدور ، کوئی چوکیدار، کسی مسجد کا خدمت گار، آپ کے دفتر کا چپڑاسی۔ ہمارے مذہب کی یہ خوبصورت روایات ہم نے اپنے بچپن میں اپنے گھروں میں باقاعدگی سے انجام دی جاتی ہوئی دیکھی ہیں، لیکن اب یہ سب کچھ کھو رہا ہے، ہماری اقدار کھو رہی ہیں۔

جتنا ہم نے سادگی کا دامن چھوڑ کر تکلفات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے اسی قدر بے برکتی بڑھ رہی ہے کہ اب عورتوں کو لگتا ہے کہ ایک شخص کی فالتو سحری یا افطاری بنانے سے ان کے گھر کا بجٹ بگڑ جائے گا۔ جس شخص کو ہم اللہ کی خوشنودی کے لیے، اسی کے دیے ہوئے رزق میں سے حصہ دار بنائیں گے کیا وہ ہمارے رزق میں اضافے کے لیے اللہ کے ہاں ہماری سفارش نہیں کرے گا؟ وہ منہ سے کچھ کہے نہ کہے، اللہ تعالی تو آپ کے اس عمل کو جانتا ہے، روز قیامت آپ کے اعضاء اس بات کی گواہی دیں گے جن سے آپ نیکی کا کوئی کام بھی کریں گے۔

خاتون خانہ کے لیے یہی مشورہ ہے کہ ہر اس جنس کا بائیکاٹ کر دیں جو آپ کو لگے کہ بلا وجہ مہنگی ہو رہی ہے، نہ صرف رمضان میں بلکہ رمضان کے علاوہ بھی۔ ہماری خریداری کی ماہانہ لسٹ میں کوئی ایسی اشیاء نہیں ہیں جن کے نہ ہونے سے ہم بھوکے مر جائیں گے خدا نخواستہ! اگر کوئی انتہائی اہم چیز مہنگی ہو رہی ہے تو اس کی مقدار کم کردیں، آپس میں سہیلیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مل بیٹھیں تو اس بات کو ان کے ساتھ شئیر کریں کہ فلاں کمپنی کی فلاں پراڈکٹ مہنگی ہو گئی ہے اس لیے اس کا استعمال یا تو بند کر دیں یا پھر کم کر دیں۔ ہو سکے تو اپنے دکاندار کو بھی یہ بات گوش گزار کریں کہ فلاں چیز میں اس لیے نہیں لے رہی کہ اس کی قیمت میں یک دم دس روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جو کہ مناسب نہیں... کیونکہ کمپنیاں جب کسی چیز کی قیمت بڑھاتی ہیں تو وہ اپنے دکانداروں سے اس بات کا فیڈ بیک لیتی ہیں کہ ان کی طرف سے کیے گئے قیمت کے اضافے پر کیا کسی قسم کا رد عمل سامنے آیا ہے؟ اگر اس دکاندار کا جواب نہ میں ہو تو کمپنی کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی بڑھائی ہوئی قیمت کو گاہک نے خوش دلی سے بلا کسی اعتراض کے قبول کر لیا ہے ، یہ رجحان انھیں مستقبل میں مزید اضافے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس اقدام سے شاید ہم مہنگائی کے بھوت کو کسی حد تک قابو کر سکیں۔

جس معاشرے میں لوگ غلط بات پر احتجاج کرنا، اسے دل سے برا سمجھنا، اسے زبان سے برا کہنا چھوڑ کر اسے قبول کر لیں ، وہاں غلط رجحانات باآسانی فروغ پاتے ہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں