بجٹ پر بجٹ اور ٹیکس پر ٹیکس
بہت سے ادارے ایسے ہیں کہ وہاں بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ چھ ہزار سے آٹھ ہزار تک
بعد از بجٹ عوام کی حالت زندگی بہتر ہوگئی یا بدتر؟ بجٹ کا مطلب شاید یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں اور ان ہی پیسوں میں مہینے کا خرچ پورا کرنا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کی آمدنی دس ہزار روپے ہے اور آپ دس ہزار روپے کے کرایے کے مکان میں رہیں۔
اس مہنگائی میں جینے کے لیے چار افراد پر مشتمل ایک خاندان کو بمعہ دو کمروں کے کرایے کے مکان کا کم از کم چھ ہزار روپے، بچوں کی پڑھائی کے لیے دو ہزار روپے، ٹرانسپورٹ کے لیے دو ہزار روپے، علاج معالجہ کے لیے دو ہزار روپے اور نیم فاقہ کشی کی صورت میں کچن کے لیے دس ہزار روپے یعنی کل بائیس ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ جب کہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی، کم از کم تنخواہ چودہ اور پندرہ ہزار روپے کا اعلان کیا ہے اور وہ بھی مشکل سے دس فیصد لوگوں کو ملتی ہے۔ باقی نوے فیصد لوگوں کی ماہانہ آمدنی دس ہزار یا آٹھ ہزار روپے کی شکل میں ملتی ہے۔
بہت سے ادارے ایسے ہیں کہ وہاں بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ چھ ہزار سے آٹھ ہزار تک۔ جیسے سیکیورٹی گارڈز کو آٹھ ہزار روپے، پٹرول پمپ پر کام کرنے والوں کو بارہ گھنٹے کی تنخواہ صرف آٹھ ہزار روپے سے بھی کم ملتی ہے۔ بھٹہ مزدور کو بمشکل پانچ چھ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ ٹیکسٹائل، گارمنٹ، ہوزری، صابن، شیشہ، ٹائر اور جوتے وغیرہ بنانے والے کارخانوں میں سات ہزار سے دس یا گیارہ ہزار روپے ملتے ہیں۔ کھیت مزدور کو روز کی دہاڑی ڈھائی سو روپے سے تین سو روپے تک ملتی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے پچھہتر ہزار یعنی ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ انسان لقمۂ اجل ہوجاتے ہیں، ان میں زیادہ تر ایشیا اور افریقہ کے ہیں، جب کہ دوسری جانب کھربوں ڈالر جنگی سازوسامان کی پیداوار، غیر پیداواری اخراجات، بناؤ سنگھار اور کتوں بلیوں پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ غریب ممالک کے سرمایہ دار کھربوں ڈالر بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ اب ذرا دیکھئے کہ بے تکے، منظور نظر، مفادات پر مبنی اور دکھاوے کے بجٹ کتنے حیران کن اور تعجب خیز ہوتے ہیں۔
جیسا کہ سندھ کے بجٹ میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر ان کے خاندان والوں کو پچاس لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے اور دینا بھی چاہیے لیکن علی انٹرپرائز گارمنٹ فیکٹری میں تین سال قبل آگ لگنے سے دو سو سڑسٹھ مزدور جل کر کوئلہ بن گئے، ان کے اہل خانہ کو بھی پچاس لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کرنا چاہیے تھا بلکہ انھیں اور زیادہ دینا چاہیے تھا، اس لیے کہ ان کی موت دل دہلا دینے اور اذیت ناک تھی۔ ان کے مرنے پر وزیراعلیٰ سندھ اورگورنرنے لاکھوں روپے دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن کسی نے ابھی تک کچھ ادا نہیں کیا۔
مزارات کی تعمیرو تزئین کرنے کے لیے اکیس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے اور یہ اعلان بھی درست ہے، لیکن تھرپارکر میں بھوک، غذائی قلت، قلت آب اور ادویات کی عدم دستیابی سے ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو لقمہ اجل ہونے سے بچانے کے لیے کیا کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے اعلان کی ضرورت نہیں تھی؟ جہاں کے انسان، مویشی اور مور قلت آب کی وجہ سے مررہے ہوں وہاں کے حکمران منرل واٹر پیتے ہوں، وہ علاج بھی بیرون ملک میں کرواتے ہیں اور عوام کی لوٹی ہوئی رقوم دبئی اور سوئٹزر لینڈ کے خفیہ اکاؤنٹ میں محفوظ رکھتے ہوں۔ سند ھ کے بجٹ میں امن و امان کے لیے ستر ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ نکاسی آب کے لیے صرف ایک ارب روپے۔
جب لوگ بے روزگار ہوں گے تو امن و امان کیسے برقرار رہے گا۔ ہمت والا ڈاکہ ڈالے گا، کم ہمت والا چوری کرے گا، مایوس افراد منشیات نوشی کے شکار ہوجائیں گے، کوئی فاقے سے بچنے کے لیے گداگر بن جائے گا، عورتیں عصمت فروشی پر مجبور ہوں گی۔ زمین اگر کسانوں میں بانٹ دی جائیں اور کارخانوں کا جال بچھادیا جائے تو بے روزگاری ختم ہوجائے گی اور امن و امان کی بحالی کے لیے اربوں روپے درکار بھی نہیں ہوں گے۔ جہاں تک نکاسی آب کی بات ہے تو نکاسی آب نہ ہونے پر پانی سڑ کر میتھائین گیس بن جاتا ہے اور طرح طرح کی بیماریاں پھیل جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں لوگ بیمار ہوتے ہیں اور غریب لوگ مہنگے علاج نہ کروا کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس لیے نکاسی آب کے لیے ایک ارب کے بجائے دس ارب روپے مختص کرنے کی ضرورت تھی۔
ایک اور بڑی اہم خبر یہ ہے کہ حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ جنھوں نے خطیر رقوم کے عمدہ نسل کے آم اور کھجور وزیراعظم نوازشریف کو تحفے کے طور پر پیش کیے ہیں۔آخر انھیں پھلوں کے تحفے دینے کی کیا ضرورت تھی؟ ضرورت تو ان کو تھی جو غریب لوگ یہ پھل خرید نہیں سکتے ہیں۔ اگر خورشید شاہ یہ پھل اپنے گاؤں، تحصیل اور ضلع میں بے زمین کسانوں میں بانٹ دیتے تو اچھا ہوتا اور ان کی ضرورتیں بھی پوری ہوتیں۔ جہاں تک صحافیوں میں پھلوں کے تحفے بانٹنے کی بات ہے تو یہ صرف اس خوشنودی کے لیے بانٹے جاتے ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھیں۔ یا پھر ٹیکسٹائل اور دیگر مل، کارخانوں کے مزدوروں میں ایک ایک آم اور کھجور بھی بانٹ دیتے تو بہتر تھا۔
کراچی میں مخیر حضرات (سرمایہ دار) غریب، نادار اور بھوکے لوگوں میں رمضان کے ثواب کے لیے خیرات کرتے ہیں جب کہ انھیں سارا سال کھانا کھانا پڑتا ہے۔ صدر کراچی کے علاقے سمیت کوئی تیس ہزار لوگوں کو خیرات بانٹی گئی اور اس کے حصول کے دوران چھ بزرگ خواتین بیہوش ہوگئیں، ایک روٹی کے چند ٹکڑے کو پکڑنے کی کوشش میں ایک تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ یہ خیراتی کھانوں، علاج، تعلیمی امداد اور بے گھروں کو سہارا دینے سے انھیں فائدہ ضرور ہوتا ہے اور ہزاروں لوگ روز مستفید ہورہے ہیں، لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ ان رقوم سے مل، کارخانے بنا کر بے روزگاروں کو روزگار فراہم کیا جاتا اور اس کی پیداوار کی قدر زائد سے لوگوں کو علاج، رہائش اور تعلیم وغیرہ کی سہولتیں فراہم کی جاتیں تو ان بے سہارا اور بیروزگاروں کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت باقی نہ رہتی اور مخیر حضرات کو خیرات بانٹنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے معاشرے میں ہی ممکن ہے۔