قاضی فضل اللہ   پہلا حصہ

یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے، ہم لوگ جتنی ترقی کرتے جارہے ہیں، اتنا ہی تنزلی اور پستی میں گرتے جارہے ہیں،

یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے، ہم لوگ جتنی ترقی کرتے جارہے ہیں، اتنا ہی تنزلی اور پستی میں گرتے جارہے ہیں، ہمارے وسائل تو بڑھ ہورہے ہیں، مگر ہم میں مذہب سے دوری، حب الوطنی کی کمی، خون اوردوستی کے رشتوں سے بے زاری، سچائی اور ایمانداری سے نفرت بڑھ رہی ہے اور بس صرف پیسہ، جائیداد اورطاقت کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور ہمارا ایمان صرف ان پر آ کر رک گیا ہے۔ اگر میں ایماندار، سچا اوروفادار ہوں لیکن میرے پاس دولت نہیں ہے تو میں بے وقوف ہوں اور جس کے پاس یہ سب کچھ ہے وہ 'ذہین' ہے۔

یہ کوئی نہیں دیکھتا ہے کہ وہ کرپٹ ہے، لالچ و حرص میں ڈوبا ہوا ہے، اس کے پاس سکون، انسانیت اور رواداری نہیں ہے مگر سب اس کے گرویدہ ہیں۔ ہم کتنے گرچکے ہیں وہ تو آپ اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا کے ذریعے روزانہ دیکھ رہے ہیں۔اس صورتحال میں ہم ان لوگوں کو سلام پیش کرتے ہیں، جنھوں نے اپنی عزت اور مقام کو اولیت دی اور دولت اور اقتدارکو ٹھوکر ماردی۔

میری یادوں میں ایک ایسی مہربان انسان دوست شخصیت محفوظ ہے، جنھیں ہم قاضی فضل اللہ کہتے ہیں، جب میں کالج پڑھنے جاتا تو لاڑکانہ میں جناح باغ کی گیٹ سے پہلے ایک بنگلے میں کھلے دروازے کے سامنے کبھی چارپائی پر اورکبھی پرانی لکڑی کی کرسی پر بیٹھے اورکبھی لیٹے نظر آتے تھے اور ان کے چاروں اطراف سوال کرنے والے لوگوں کا چھوٹا مجمع ہوتا تھا۔اس وقت مجھے زیادہ شعور نہیں تھا کہ میں اس بات پر غورکرتا، لیکن پوچھنے پر بتایا جاتا تھا کہ یہ شخص ماضی کا بہترین سیاستدان، انسانیت پرور اور سماجی شخصیت تھا، جس کے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے اور اس کے در سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔

جب 1987 میں میرا تبادلہ بطور انفارمیشن آفیسر لاڑکانہ ہوا تو میرا دل چاہا کہ میں ان سے ملوں کیونکہ اب مجھ میں ذہنی Maturity آگئی تھی اور میں ادب اورصحافت میں قدم رکھ چکا تھا۔ میری بدقسمتی یہ تھی کہ جب ان سے ملنے ان کے بنگلے پر گیا تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت بہت خراب تھی اور وہ کسی کو نہ تو پہچان سکتے تھے اور نہ بات کرنے کے قابل تھے۔ اس لمحے کا مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا۔ اس سے بڑھ کر بھی یہ خبر میرے لیے افسوسناک تھی، 24 جون کا دن تھا اورکسی نے آکر خبر دی کہ قاضی فضل اللہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر پورے پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ان کی بے حد عزت تھی جسے ہر سیاسی پارٹی والا اور ہر مکتب فکر والا پیار کرتا تھا۔

اس وقت صدر ضیا الحق تھے، وزیر اعظم محمد خان جونیجو تھے۔ لاڑکانہ ایک دم متحرک ہوگیا، وزیر اعظم سندھ کے وزیر اعلیٰ اور پورے پاکستان سے کئی لوگوں کا آنا ہوا۔ ضیا الحق نے اسی وقت قاضی کی وفات پر بیان جاری کیا تھا اور ان کی ایمانداری، سچائی اور سیاسی بصیرت کو سراہا تھا۔ قاضی کی نماز جنازہ جناح باغ لاڑکانہ میں پڑھائی گئی جس میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کے علاوہ جم غفیر نے شرکت کی۔ ان کی تدفین لاڑکانہ شہر میں قائم شاہ بخاری کے مزار کے پیچھے قبرستان میں ہوئی اور آخر وقت تک محمد خان جونیجو موجود رہے۔

کچھ دنوں بعد تعزیت کے لیے جنرل ضیا الحق لاڑکانہ آئے اوران کے بھائی سے تعزیت کی۔ آپ اندازہ لگائیں قاضی تو اللہ کو پیارے ہوچکے تھے اور وہ ماضی کے سیاستدان تھے اور اس وقت ان کا کوئی کردار نہیں تھا مگر صرف ان کی ایمانداری، سچائی، انسانیت سے محبت اور لوگوں میں مقبولیت ضیا الحق کو لاڑکانہ لے آئی۔


مجھے ضیا الحق کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ جب پی آئی اے کا جہاز اغوا ہوا تھا تو اس میں ایک خالد نامی لڑکا بھی تھا جس کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ جب لڑکے کا والد قاضی کے پاس آیا، التجا کی کہ اس کے بیٹے کو بچایا جائے جوکچے ذہن کا تھا اور بہکاوے میں آگیا تھا اور اس کی پھانسی معاف کروانے کے لیے وہ ضیا الحق کے پاس چلیں کیونکہ رحم کی اپیل صدر کے پاس پڑی ہوئی ہے۔ قاضی ایک رحم دل اور ہمدرد انسان تھے، ان سے لڑکے کے گھر والوں کے آنسو دیکھے نہیں گئے اور وہ جاکر ضیا الحق سے ملے انھوں نے قاضی کی عزت کرتے ہوئے پھانسی کا حکم ختم کردیا۔

قاضی فضل اللہ کا اصل شہر نوشہروفیروز تھا جہاں وہ 15 جنوری 1902 میں میاں عبید اللہ کے گھر پیدا ہوئے تھے، انھوں نے ابتدائی تعلیم شہداد پور میں حاصل کی تھی اور میٹرک پاس کرنے کے لیے وہ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی آئے جہاں سے انھوں نے 1920 میں امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ علی گڑھ یونیورسٹی گئے مگر پھر جلد ہی وطن واپس آئے کیونکہ اس وقت خلافت تحریک شروع ہوگئی تھی اور اس میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔

جب یہ تحریک تھوڑی کم ہوئی تو نیشنل کالج حیدر آباد میں داخلہ لیا اور امتحان پاس کرنے کے بعد وہ ڈی جے کالج کراچی آگئے جہاں سے وہ بی اے کا امتحان 1925 میں پاس کر کے ایل ایل بی کے لیے شاہانی لا کالج حیدرآباد چلے آئے ، یہیں سے انھوں نے ڈگری 1929 میں حاصل کرلی۔ اس کے بعد انھوں نے وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔ شروع شروع میں ان کی سیاسی Activities ٹھٹھہ میں نظر آئیں مگر لاڑکانہ اس زمانے میں سیاسی مرکز بن چکا تھا۔ اس لیے انھوں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا، جہاں انھوں نے 30 مارچ 1931 سے وکالت بھی شروع کی اور سیاسی ہلچل میں بھی حصہ لیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب لاڑکانہ میں سر شاہنواز بھٹو، محمد ایوب کھوڑو اور امیر علی لاہوری کا بڑا اثر تھا جس میں قاضی صاحب نے اپنی جگہ بنالی جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ بالکل عوامی لیڈر کے طرز پر کام کرتے تھے اور ہر آنے والے کے ساتھ بڑے خلوص اور اخلاق سے ملتے تھے اور کوئی بھی کام ہوتا وہ دن رات ایک کرکے اسے پورا کرتے۔ ان کے دروازے 24 گھنٹے سب کے لیے کھلے رہتے۔ یہ مثال کافی ہے کہ سر شاہنواز بھٹو ایک مرتبہ جب ذوالفقار علی بھٹو اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان آئے تو ان کے والد نے ان کا ہاتھ قاضی فضل اللہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے قانون اور سیاست کی تربیت دیں۔

یہ پھر الگ بات ہے کہ بھٹو اپنی ذہانت اور محنت کی وجہ سے سب سے آگے نکل گئے۔ بھٹو قاضی فضل اللہ کی بڑی عزت کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ جب قاضی ان سے ملنے آئے تو بھٹو نے ایک نئی گاڑی کی چابی انہیں دی اور کہا کہ آپ کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے اس لیے آپ اسے رکھ لیں مگر قاضی نے یہ کہہ کر چابی واپس کردی کہ اس نے ساری زندگی دیا ہے کچھ لیا نہیں۔ قاضی طبیعتاً نرم مزاج کے تھے اور غریبوں کے ساتھ انہیں بڑی محبت تھی ۔ وہ لوگوں کے گھر جاکر ان سے ملنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے کئی لوگوں کو نوکریاں دلوائیں۔ وہ کسی کے پاس بھی کام سے جاتے تو انسان دوستی کے باعث کوئی بھی مایوس نہیں کرتا تھا۔

(جاری ہے)
Load Next Story