بے تاج بادشاہ اور ملکائیں
اگر بادشاہ کا سر بھی کاٹ ڈالا جائے تو بادشاہ ہی رہتا ہے۔
یہ اخبار والے بھی موڈی ہوتے ہیں ، چاہیں تو قطرے کو دجلہ بنا دیں اور سمندر کو کوزے میں بند کر دیں۔ بنانا کسی کو چاہیں تو ''خبر'' بنا دیں اور چاہیں تو ''قبر'' میں اتار دیں، جانتے ہی نہیں کہ ''ہو از ہو'' اب دیکھئے نا ۔۔۔ رستم مردان میں ''جرائم کا بے تاج بادشاہ'' پکڑا گیا اور خبر بادشاہوں کے تو کیا وزیروں بلکہ سپاہیوں کے بھی شایان شان نہیں ہے۔
ایک چھوٹی سی چند سطری خبر کو ہر طرح سے اندھا کرنے کے بعد جاپان میں زلزلے کے جھٹکے جتنی جگہ بھی نہیں دی گئی ہے حالانکہ خود ہی لکھا بھی ہے کہ بادشاہ ۔۔۔ اب اگر بے چارے کے سر پر تاج نہیں ہے تو کیا ہوا بلکہ ضروری نہیں کہ ہر بادشاہ تاج ہی پہنے رہے۔ اکثر بادشاہوں کے سر پر تو آج کل ٹوپی یا پگڑی بھی نہیں ہوتی حالانکہ اگر بادشاہ کا سر بھی کاٹ ڈالا جائے تو بادشاہ ہی رہتا ہے۔ تاریخ میں کتنے ہی ''بے سر'' کے بادشاہ گزرے ہیں یا کم از کم ''گزرتے وقت'' تو سر ان کے کاندھوں پر ہوتا ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی بادشاہوں کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بادشاہوں بلکہ ہر طرح کے حکمرانوں کے لیے تاج بلکہ سر بھی ضروری نہیں ہے خصوصاً آج کل تو حکمرانوں میں فیشن چل نکلا ہے کہ سر اندر باہر سے جتنا ہلکا ہوتا ہے۔
اتنا ہی اچھا حکمران ثابت ہوتا ہے، احکام اور قوانین تو صرف منہ سے نکلتے ہیں، ویسے ''سر'' کا فیشن حکمرانوں میں اس لیے بھی نہیں رہا ہے کہ ان کے اردگرد ''سر سر'' کہنے والے اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ کس کس طرف گھمائیں، اس لیے سر کا تکلف ہی نہیں کرتے اور جب سر ہی ضروری نہیں تو پھر ''تاج'' کیا بیچتا ہے اور یہ نام ہمارا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ انھی اخبار والوں کے ''لفظی اسراف'' کا نتیجہ ہے۔ ایسی بہت ساری اصطلاحات صرف اخباروں کی ہی ایجاد کردہ ہیں جن کے معنی صرف ان لغتوں میں ملتے ہیں جو اخبار والوں میں سینہ بسینہ چلے آ رہی ہیں مثلاً ''پہلی ترجیح'' کا آج تک اسکاٹ لینڈ یارڈ والے بھی پتہ نہیں چلا سکے کہ حکمرانوں، خصوصاً پاکستان میں حکمرانوں، کی پہلی ''ترجیح'' کیا ہوتی ہے کیوں کہ روزانہ ان کے بیانوں میں کم از کم آدھ درجن بار پہلی ترجیحات کا پیکیج تو ہوتا ہی ہے۔
اسی طرح یہ جو ''تحفظات'' کا لفظ ایجاد ہوا ہے، یہ کم از کم تاریخ میں ایٹم بم، بجلی، ریڈیو یا ٹیلی ویژن جتنی اہم ایجاد ہے لیکن پھر بھی یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ تحفظات کا مطلب کیا ہے، یہ اکثر سیاسی لیڈروں کو لاحق ہوتے ہیں لیکن لین دین کے تو بے شمار ذریعے ہیں۔ نقد، وزارت، عہدہ، پلاٹ کسی قسم کے تحفظات بھی ہو سکتے ہیں جن کو دور کر کے سیاسی معاملات سلجھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سارے الفاظ اور اصطلاحات ہیں جو اخبارات میں بے تحاشا استعمال کیے جاتی ہیں اور اب یہ ''بے تاج بادشاہ'' اسی کی طرز پر ''بے تاج ملکہ'' بھی اکثر لکھی جاتی ہے ۔خدا بخشے مرحومہ میڈیم نورجہاں جو متفقہ طور پر بلاشرکت غیرے ''ملکہ ترنم'' تھیں عمر بھر ان کو بھی بے تاج ملکہ ہی لکھا جاتا رہا، سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان اخبار والوں کو تاج سے اتنا بیر یا الرجی کیوں ہے کہ خواہ مخواہ ہی گھسیٹر دیتے ہیں۔
اگر کسی کو بے تاج کے بجائے سیدھا سادہ بادشاہ یا ملکہ کہا جائے تو اس میں کسی کا کیا جاتا ہے کیوں کہ ہماری معلومات میں ایسی کوئی دینی یا دنیاوی شق نہیں ہے جس کے سر پر باقاعدہ تاج رکھا نہ ہو اسے بے تاج ہی کہا جائے، بلکہ ہم نے تو اکثر بادشاہوں اور ملکاؤں کو ایسا بھی دیکھا ہے کہ ان کی کسی فن یا ہنر یا کسی بھی عقیدت کی بناء پر باقاعدہ ''تاج پوشی'' ہوتی ہے، سرپر باقاعدہ تاج پہنا کر تصاویر میں رجسٹر بھی کر دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی جب لکھا جاتا ہے تو بے تاج کی دم لگائے بغیر نہیں رہتے، یہ درست ہے کہ بعض شعراء وغیرہ قوم کو مزید ظلم سہنے کے لیے تیار کرتے ہوئے اس قسم کی تسلیاں دیتے رہے ہیں کہ
جب تخت گرائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
لیکن یہ تو صرف اس لیے ہوتا ہے کہ بے چارے عوام کہیں خودکشی کر کے خواص کو اپنی خدمات سے محروم نہ کر دیں چنانچہ ان کو تسلی دی جاتی ہے کہ بس ذرا صبر کرو ظلم کے دن تھوڑے ہیں بس چند روز اور میری جان ۔۔۔ بس پھر مزے ہی مزے ہوں گے، لیکن آج تک نہ کبھی یہ ہوا ہے نہ ہو پائے گا کہ ''تاج'' اچھالے جائیں یا تخت گرائے جائیں، صرف پہننے کی حد تک ''تاج'' اور بیٹھنے کی حد تک ''تخت'' کا فیشن نہیں رہا ہے، ویسے بھی ''تاج اور تخت'' تو بے جان مادہ ہوتے ہیں لیکن وہ ''سر'' تو ابھی بھی باقی ہیں جن کے ''اندر ہی اندر'' تاج ہوتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ پہلے کسی ملک میں ایک ''سر'' ہوتا تھا جس کے سر پر تاج ہوتا تھا جب کہ آج لاتعداد سروں کے اوپر تاج ہی تاج ہیں۔ یوں کہئے کہ آدم نہیں ہے لیکن اس کی ''بو'' کہیں نہیں گئی ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ اخبارات و تحریرات میں کسی کو بھی بادشاہ اور ملکہ قرار دے دیا جاتا ہے، پھر نہ جانے کون سی ''گرہ'' درمیان میں آ جاتی ہے کہ ساتھ ہی ''بے تاج'' کا دم چھلہ بھی لگا دیتے ہیں حالانکہ اصل اہمیت تاج کی نہیں بلکہ اس پہننے والے سر کی ہوتی ہے جو خالی ہو یا بھرا ہو لیکن تاج اس کے اوپر دھرا ہو، یہ بادشاہ تو بنا دیتے ہیں حالانکہ بادشاگری کیمیا گری سے بھی زیادہ بڑا ہنر ہے لیکن ''تاج'' گرا دیتے ہیں چنانچہ ہم گونا گوں اور بھانت بھانت کے بادشاہ اخباروں میں دیکھتے ہیں۔
چوروں کا بادشاہ، جرائم کا بادشاہ، منشیات کا بادشاہ، موسیقی کا بادشاہ یا ملکہ، اداکاری اور نہ جانے کیا کاری کے بادشاہ، حد تو یہ ہے کہ پھر ذیلی شاخیں بھی ہو جاتی ہیں، اسمگلروں کا بادشاہ، کار چوروں کا بادشاہ، چپلی چوروں کا بادشاہ، ووٹ چوروں کا بادشاہ، کرسی چوروں کا بادشاہ اور فنڈ چوروں کا بادشاہ ۔۔۔ اور تو اور کسی زمانے میں پشاور میں نک نیم والے بہت بادشاہ تھے، للو بادشاہ، ٹیپو بادشاہ، پپو بادشاہ، گلو، للو، ٹلو بادشاہ ۔۔۔ ایک کتوں کا بادشاہ بھی ہم نے دیکھا ہے اور کبوتروں کا بادشاہ تو ہر جگہ ہوتا ہے، لگتا ہے زمانے کی ہوا اخبار والوں کو بھی لگ گئی ہے، سوچا ہو گا بادشاہ کا کیا ہے ٹکے سیر مل جاتے ہیں لیکن ''تاج'' تو اگر لوہے کا بھی بنایا جائے گا تو بڑا خرچہ آ جاتا ہے، اس لیے بے چارے بادشاہ کو ''بے تاج'' ہی بنا ڈالا۔ ایک وجہ کثرت اور بہتات بھی ہو سکتی ہے۔ پرانے زمانے میں کسی ملک کے اندر کوئی ایک بادشاہ ہوتا تھا۔
جس کا سر بھی، جب تک زندہ ہوتا یا رشتہ دار اسے زندہ رکھتے، ہوتا تھا چنانچہ اس کے لیے سونے کا تو کیا ہیروں کا تاج بھی بنانا آسان ہوتا تھا۔ لیکن آج تو ''بادشاہ'' بادشاہ بکھرے ہوئے ہیں۔ گشت پر نکلنے والے سپاہی سے لے کر اسٹول پر بیٹھنے والے چپراسی تک بڑے بڑے، تاجروں سے لے کر پھیری گر اور ریڑھی بان تک، ہوائی جہاز سے لے کر رکشا ڈرائیور تک اور لیڈر سے لے کر چمچے بلکہ چمچے کے چمچے کے چمچوں تک ''بادشاہ ہی بادشاہ'' بکھرے ہوئے ہیں۔ پہلے ایک پتھر اٹھا کر دیکھتے تو اس کے نیچے سے ایک بادشاہ ملتا تھا لیکن اب کنکر بھی اٹھاؤ تو نیچے کئی بادشاہ آپس میں بادشاہت کے لیے دست و گریباں ملتے ہیں۔
اب اتنے بادشاہوں کے لیے تو مٹی کا تاج بنانا بھی ممکن نہیں ہے، اس اقتصادی بحران کے پیش نظر شاید اخبار والوں نے بھی سوچا ہو کہ بادشاہ بنانے میں کیا جاتا ہے کسی کو بھی بنا دو لیکن ''تاج'' کے خرچے سے بچو، کہ اس میں لگتی ہے قیمت زیادہ۔یہ الگ بات ہے کہ پہننے والے اب بھی تاج پہنتے ہیں جن بادشاہوں کا ہم نے ذکر کیا ہے خصوصاً ان میں سے جن کا تعلق سرکار سے ہے، یہ سب تاج پہنتے ہیں لیکن اندر ہی اندر دل ہی دل میں، اگر آپ نے غور کیا ہو یا کسی وزیر یا سرکاری بادشاہ سے پالا پڑا ہو تو دیکھا ہو گا کہ وہ اپنا سر ایک مخصوص انداز میں ہلاتے ہیں اور گردن کو بہت کم ہلاتے جلاتے ہیں، صاف نظر آتا ہے کہ یہ اس ''تاج'' کو برقرار رکھنے کے لیے ہوتا ہے جو سامنے والے کو تو نظر نہیں آتا لیکن ہوتا ہے، آیندہ کسی بھی ایسے موقع پر غور کیجیے گا آپ خودبخود اس نادیدہ ''تاج'' کو دیکھ لیں گے۔