کشمکش
بدقسمتی سے ملک کو آج پھر ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، لیکن اس مرتبہ زاویہ مختلف ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ پاکستان ایک عجیب وغریب ملک ہے اور ہم من حیث القوم عجب مخمصے کا شکار ہیں، ہمارا ہر شعبہ ہائے زندگی تضادات کا مجموعہ ہے۔
لگتا ہے ہماری کوئی راہ متعین ہی نہیں اور نہ ہی کوئی میرِ قافلہ ہے۔ منزل کی تلاش تو دور کی بات ہے، سیاست سے لے کر صحافت تک، عدالت سے لے کر عبادت تک اور قیادت سے لے کر معیشت تک بحران در بحران اور بے چینی و عدم اطمینان کی کیفیت طاری ہے۔ صبر، تحمل، برداشت اور استقامت کا فقدان ہے، علم وحکمت، ہوشمندی، دانائی، تدبر، فہم وفراست اور دور اندیشی سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہم ازخود نفرت، بغض، کینہ اور انتقام کے جذبوں کی فصل بوتے ہیں اور نتائج سے بے پرواہ ہوکر اپنے تئیں خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہم نے ملک و قوم کی خدمت میں سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔
لہٰذا ہمیں سراہا جانا چاہیے، آپ گزشتہ چھ دہائیوں کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیجیے، نظام زندگی سے نظام حکومت تک ہر جگہ کم و بیش ایک ہی جیسی صورتحال نظر آئے گی، جس طرح پاکستان کا معاشرہ کلی طور پر مذہبی ہے اور نہ ہی لبرل ، بعینہ ہمارا نظامِ حکومت بھی کلی طور پر صدارتی ہے اور نہ جمہوری، غالباً اسی باعث جمہوریت مستحکم نہ ہوسکی اور آمریت کی شمشیر برہنہ اس کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔
بدقسمتی سے ملک کو آج پھر ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، لیکن اس مرتبہ زاویہ مختلف ہے، ہمیشہ یہ کہا جاتا رہا کہ سیاستدانوں کی اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں، نااہلیوں، بدعنوانیوں، بداعمالیوں اور سیاسی ناپختگی کے باعث جمہوری نظام کو احسن طریقے سے نہیں چلایا جاسکتا، نتیجتاً لوٹ مار اورکرپشن کی نذر ہوکر معاشی تباہی کا شکار ہوگیا، امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے، سیاستدانوں پر لوگوں کا اعتبار مجروح ہوا اور آئین و قانون کی پامالی سے غیر جمہوری قوتوں کے حوصلے بلند ہوتے اور انھیں جمہوری نظام حکومت کی بساط لپیٹ دینے کے آسان مواقعے ملتے رہے جس کے باعث ملک پر 10/10 سال تک آمریت کے سیاہ بادل چھائے رہے۔
دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت کی نااہلیوں پر انصاف کے اعلیٰ ایوانوں نے ''نظریۂ ضرورت'' کی مہر تصدیق ثبت کی اور فوجی حکومتوں کو نہ صرف سندِ جواز عطا کی جاتی رہی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر انھیں آئین میں نرمی کرنے کے اختیارات بھی تفویض کیے جاتے رہے۔ اگرچہ بعض معزز ججز صاحبان نے بھی ہر دور آمریت میں پی سی او کے تحت حلف اٹھائے لیکن ایسے ججز بھی گزرے ہیں جو ہر صورت آئین و قانون کی بالادستی و حکمرانی کے قائل اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم صمیم رکھتے تھے۔ انھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی بجائے اپنے منصب کی قربانیاں دے کر گھروں کو جانا قبول کرلیا، فوجی حکمرانوں نے عدلیہ کی محفوظ چھتری کے سہارے حکومتیں کیں جب کہ سیاستدانوں کو رسوا اور بدنام کیا گیا کبھی تختہ دار اور جلاوطنی ان کا مقدر بنی تو کبھی سڑک پر شہادت کو گلے لگایا۔
2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی کی حکومت بنی اور آمر مطلق جنرل پرویز مشرف رخصت ہوا تو امید بندھی کہ اب ملک میں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو کام کرنے اور ملک و قوم کی خدمت کا موقع دیا جائے گا اور جمہوریت کو استحکام حاصل ہوگا، توقع کے عین مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کسی مہم جوئی کی بجائے حد درجہ تحمل، بردباری، سنجیدگی اور دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ صرف پیشہ وارانہ عسکری امور تک محدود رکھی اور اعلان کردیا کہ فوج کسی طور سیاست میں ملوث نہیں ہوگی اور ریاست کے تمام ادارے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے۔
تاحال وہ اپنے عہد پر قائم ہیں، جمہوری حکومت پر ان کا اعتماد برقرار ہے تاہم ایک ایسے مرحلے پر جب پہلی مرتبہ ایک عبوری حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے والی ہے اور ملک نئے انتخابی معرکے کی سمت اطمینان بخش طریقے سے بڑھ رہا ہے اور حکومت کو فوج کا اعتماد بھی حاصل ہے لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی فضاؤں میں پھر سے آمریت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے گزشتہ دنوں اپنے بیان میں تمام ریاستی اداروں کے آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی بات کی ہے۔'' اس کا صاف مطلب ہے کہ جو لوگ کسی غیر آئینی تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ، انھیں مایوسی ہوگی۔ اصغر خاں کیس، ریلوے اراضی اسکینڈل اور دیگر مقدمات نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
لگتا ہے ہماری کوئی راہ متعین ہی نہیں اور نہ ہی کوئی میرِ قافلہ ہے۔ منزل کی تلاش تو دور کی بات ہے، سیاست سے لے کر صحافت تک، عدالت سے لے کر عبادت تک اور قیادت سے لے کر معیشت تک بحران در بحران اور بے چینی و عدم اطمینان کی کیفیت طاری ہے۔ صبر، تحمل، برداشت اور استقامت کا فقدان ہے، علم وحکمت، ہوشمندی، دانائی، تدبر، فہم وفراست اور دور اندیشی سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہم ازخود نفرت، بغض، کینہ اور انتقام کے جذبوں کی فصل بوتے ہیں اور نتائج سے بے پرواہ ہوکر اپنے تئیں خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہم نے ملک و قوم کی خدمت میں سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔
لہٰذا ہمیں سراہا جانا چاہیے، آپ گزشتہ چھ دہائیوں کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیجیے، نظام زندگی سے نظام حکومت تک ہر جگہ کم و بیش ایک ہی جیسی صورتحال نظر آئے گی، جس طرح پاکستان کا معاشرہ کلی طور پر مذہبی ہے اور نہ ہی لبرل ، بعینہ ہمارا نظامِ حکومت بھی کلی طور پر صدارتی ہے اور نہ جمہوری، غالباً اسی باعث جمہوریت مستحکم نہ ہوسکی اور آمریت کی شمشیر برہنہ اس کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔
بدقسمتی سے ملک کو آج پھر ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، لیکن اس مرتبہ زاویہ مختلف ہے، ہمیشہ یہ کہا جاتا رہا کہ سیاستدانوں کی اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں، نااہلیوں، بدعنوانیوں، بداعمالیوں اور سیاسی ناپختگی کے باعث جمہوری نظام کو احسن طریقے سے نہیں چلایا جاسکتا، نتیجتاً لوٹ مار اورکرپشن کی نذر ہوکر معاشی تباہی کا شکار ہوگیا، امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے، سیاستدانوں پر لوگوں کا اعتبار مجروح ہوا اور آئین و قانون کی پامالی سے غیر جمہوری قوتوں کے حوصلے بلند ہوتے اور انھیں جمہوری نظام حکومت کی بساط لپیٹ دینے کے آسان مواقعے ملتے رہے جس کے باعث ملک پر 10/10 سال تک آمریت کے سیاہ بادل چھائے رہے۔
دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت کی نااہلیوں پر انصاف کے اعلیٰ ایوانوں نے ''نظریۂ ضرورت'' کی مہر تصدیق ثبت کی اور فوجی حکومتوں کو نہ صرف سندِ جواز عطا کی جاتی رہی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر انھیں آئین میں نرمی کرنے کے اختیارات بھی تفویض کیے جاتے رہے۔ اگرچہ بعض معزز ججز صاحبان نے بھی ہر دور آمریت میں پی سی او کے تحت حلف اٹھائے لیکن ایسے ججز بھی گزرے ہیں جو ہر صورت آئین و قانون کی بالادستی و حکمرانی کے قائل اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم صمیم رکھتے تھے۔ انھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی بجائے اپنے منصب کی قربانیاں دے کر گھروں کو جانا قبول کرلیا، فوجی حکمرانوں نے عدلیہ کی محفوظ چھتری کے سہارے حکومتیں کیں جب کہ سیاستدانوں کو رسوا اور بدنام کیا گیا کبھی تختہ دار اور جلاوطنی ان کا مقدر بنی تو کبھی سڑک پر شہادت کو گلے لگایا۔
2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی کی حکومت بنی اور آمر مطلق جنرل پرویز مشرف رخصت ہوا تو امید بندھی کہ اب ملک میں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو کام کرنے اور ملک و قوم کی خدمت کا موقع دیا جائے گا اور جمہوریت کو استحکام حاصل ہوگا، توقع کے عین مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کسی مہم جوئی کی بجائے حد درجہ تحمل، بردباری، سنجیدگی اور دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ صرف پیشہ وارانہ عسکری امور تک محدود رکھی اور اعلان کردیا کہ فوج کسی طور سیاست میں ملوث نہیں ہوگی اور ریاست کے تمام ادارے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے۔
تاحال وہ اپنے عہد پر قائم ہیں، جمہوری حکومت پر ان کا اعتماد برقرار ہے تاہم ایک ایسے مرحلے پر جب پہلی مرتبہ ایک عبوری حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے والی ہے اور ملک نئے انتخابی معرکے کی سمت اطمینان بخش طریقے سے بڑھ رہا ہے اور حکومت کو فوج کا اعتماد بھی حاصل ہے لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی فضاؤں میں پھر سے آمریت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے گزشتہ دنوں اپنے بیان میں تمام ریاستی اداروں کے آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی بات کی ہے۔'' اس کا صاف مطلب ہے کہ جو لوگ کسی غیر آئینی تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ، انھیں مایوسی ہوگی۔ اصغر خاں کیس، ریلوے اراضی اسکینڈل اور دیگر مقدمات نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔