قوس قزح کی رنگینیاں…

فن خطاطی کی ہمیشہ اس لیے قدر کی گئی کہ اس کے پیش نظر کلام الٰہی کو جاذب نظر اور دلکش صورت میں پیش کرتا ہے۔


Sultan Imran November 23, 2012

وہ تمام تعمیری کارنامے جن سے کسی زمانے میں شہر بغداد کے حسن و جمال میں چار چاند لگے ہوئے تھے، زمانے نے انھیں کچھ ایسا پلٹا کہ آج صفحہ ہستی پر ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔

اسلام کے قرون اولیٰ (عہد بنی امیہ) کی تعمیری یادگاروں میں سے بیت المقدس کا قبہ الصخرہ اور دمشق کی مسجد امیہ جو نہایت پر شکوہ عمارتیں ہیں، اب باقی رہ گئی ہیں۔ عہد عباسی میں جو شاندار عمارتیں بنیں ان میں سے مسجد مستنصریہ کے سوا اور کوئی عمارت آج باقی نہیں۔ اس عمارت کو خلیفہ مستنصر نے 1324ء میں بنوایا تھا۔ اس عمارت میں آج کل ''گمرک'' (کسٹم کچہری) کا کام لیا جارہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی زمانے میں شہر بغداد کو بڑی شان و شوکت حاصل تھی۔ لیکن امین و مامون کی خانہ جنگی کی تباہی اور آخر 1255ء میں وحشی مغلوں کی ہلاکت آفرینی اور خود قدرتی اسباب و حوادث کے ہاتھوں یہ دارالخلافہ ایسا برباد ہوا کہ یہاں کی اکثر عظیم الشان عمارتوں کے بارے میں آج یہ تک پتہ نہیں چلتا کہ حقیقت میں یہ عمارتیں کہاں کہاں واقع تھیں۔

دارالخلافہ بغداد کے باہر عباسی عہد کے جتنے بھی تاریخی آثار پائے جاتے ہیں ان میں ایک بھی عمارت ایسی نہیں ملے گی جو خلیفہ متوکل کے دور خلافت (847ء865-ء) سے پہلے کی ہو۔ سامرہ کی جامع مسجد اسی خلیفہ نے بنوائی تھی۔ مستطیل وضع کی اس جامع مسجد کی تعمیر پر سات لاکھ دینار صرف ہوئے تھے۔ اس کے دریچوں کی کثیر برگی کمانوں میں ہندی فن تعمیر کے اثر کا گمان ہوتا ہے۔ عہد امیہ کی عمارتوں پر بازنطینی شامی فن تعمیر کا واضح اثر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف رقہ (شمالی شام) میں عباسیوں نے آٹھویں صدی کے لگ بھگ جو عمارتیں بنوائی تھیں ان کی باقیات ایشیائی اور خاص کر ایرانی فن تعمیر کی روایات کی حامل نظر آتی ہیں۔

اس زمانے کے مسلمان فقیہ ہر قسم کے تمثیلی آرٹ کے مخالف تھے۔ لیکن کے باوجود یہ فن ترقی کرتا گیا۔ خلیفہ منصور نے اپنے محل کے گنبد پر ایک گھڑ سوار کا مجسمہ نصب کرایا تھا جو غالباً بادنما کا کام دیتا تھا۔ خلیفہ مامون نے اپنے لیے دریائے دجلہ میں شیروں، عقابوں' اور خمدار مچھلیوں کی شکل کے تفریحی بجرے چھوڑ رکھے تھے۔ خلیفہ مقتدر نے سونے چاندی کا ایک درخت تیار کرایا تھا جس کی اٹھارہ شاخیں تھیں۔ یہ درخت شاہی محل کے اندر ایک بڑے حوض میں کھڑا کیا گیا تھا اور حوض کے دونوں کناروں پر سواروں کے پندرہ پندرہ مجسمے نصب کیے گئے تھے جو زربفت و دیبا کی پوشاکوں میں ملبوس تھے اور سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ یہ برچھیاں یوں مسلسل حرکت کرتی تھیں جیسے مقابلہ کی لڑائی ہو رہی ہو۔

شہر سامرہ کے بانی خلیفہ معتصم نے اپنے محل کی دیواروں کو عریاں عورتوں کی تصویروں اور شکار کے مناظر سے آراستہ کیا تھا۔ اس کام کو غالباً مصوروں نے انجام دیا تھا۔ اس خلیفہ کے دوسرے جانشین متوکل کے دور حکومت میں سامرہ کا عارضی دارالخلافہ اپنے اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ متوکل نے اپنے محل کی دیواروں پر نقش و نگار کرنے کے لیے بازنطینی نقاش مقرر کیے تھے اور بہت سی تصویروں میں سے ایک جگہ کلیسا اور راہبوں کی تصویریں اتارنے میں انھیں کوئی قباحت نظر نہیں آتی تھی۔

نقاشی کی یہ نوع بظاہر مشرقی کلیسائوں اور خاص کر یعقوبی اور نسطوری کلیسائوں کی مصوری سے اخذ کی گئی تھی۔ اس کی ابتداء کتابوں کی تزئین و آرائش سے ہوئی اور رفتہ رفتہ ترقی کرتی چلی گئی۔

قدیم زمانوں ہی میں اہل ایران جن کی ثقافت کو عربوں نے اپنا لیا تھا، آرائشی نقش و نگار اور رنگ کاری کے فن میں اپنے آپ کو ماہر ثابت کرچکے تھے، ان کی کوششوں کی بدولت اسلام کے صنعتی آرٹ کو بڑی ترقی نصیب ہوئی۔ خاص کر قالین بافی کی صنعت کو جو اتنی ہی پرانی صنعت ہے جتنا پرانا فراعنہ کے زمانے کا مصر ہے، مسلمانوں کی سرپرستی میں خوب ہی فروغ حاصل ہوا۔ عام طور پر قالین پر شکار اور باغوں کے مناظر اتارے جاتے تھے۔ رنگ کاری میں مختلف قسم کے رنگوں کو پکا کرنے کی غرض سے پھٹکری استعمال کی جاتی تھی۔ نقش دار ریشمی کپڑے مصر و شام کی خاص اسلامی صنعتیں تھیں۔ یہ کپڑے ہاتھ سے بنے جاتے تھے۔ یورپ کے ملکوں میں ان کپڑوں کی اتنی قدر و منزلت تھی کہ نصرانی سپاہی اور دوسرے مغربی باشندے اپنے ولیوں کی باقیات کو لپیٹنے کے لیے ان ہی کپڑوں کو پسند کرتے تھے۔

کوزہ گری کا فن اتنا ہی قدیم تھا جتنا کہ مصر اور سوسہ کے شہر قدیم تھے۔ اس میں حروف اور ہندسی اشکال کے سو انسانی، حیوانی اور نباتی شکلیں بھی پیش کی جاتی تھیں۔ اس فن نے آرائشی تزئین کا وہ درجہ کمال حاصل کرلیا تھا کہ مسلمانوں کا کوئی دوسرا آرٹ اس سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ٹائیلوں پر پھول پتیوں کے نقش و نگار بنائے جاتے تھے۔ یہ فن دمشق میں ایران سے منتقل ہوا تھا اور یہاں اسے پچی کاری کے فن کے ساتھ بڑا فروغ حاصل ہوا۔ اسے عمارتوں کی اندرونی اور بیرونی تزئین میں استعمال کیا جاتا تھا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ عربی حروف تہجی جو کئی طرح لکھے جاتے تھے، آرائشی نقش و نگار کے سانچوں میں ڈھل کر اسلامی آرٹ کی ایک زبردست بنیادی خصوصیت بن گئے تھے۔ خاص کر انطاکیہ'حلب، دمشق اور دوسرے شہروں میں مینا کاری اور آبگینوں کو سنہرا رنگ دینے کا فن حسد کمال تک پہنچ گیا تھا۔ لاوے (Lowure) برٹش میوزیم اور قاہرہ کے عربی عجائب خانے کے گراں بہا خزانوں میں سامرہ کے اور فسطاط کی صناعیوں کے جو بے بہا جواہر پارے محفوظ کیے گئے ہیں ان میں نفیس بلوریں رکابیاں، پیالے، گلدان، قرابے اور گھروں اور مسجدوں کے فانوس بھی نظر آتے ہیں۔ یہ فانوس اپنی رنگارنگ درخشانیوں سے اس قدر مجلا ہیں یا ان میں دھاتی صیقل کا ایسا کمال دکھایا گیا ہے کہ جیسے قوس قزح اپنی رنگینیوں کا مظاہرہ کررہی ہے۔

فن خطاطی کی ہمیشہ اس لیے قدر کی گئی کہ اس کے پیش نظر کلام الٰہی کو جاذب نظر اور دلکش صورت میں پیش کرتا ہے۔ یہ فن دوسری یا تیسری صدی ہجری میں ایجاد ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر جگہ اس کی بڑی آئو بھگت ہونے لگی۔ یہ ایک خالص اسلامی فن ہے اور اس نے فن مصوری پر جو اثرات مرتب کیے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ اسلام نے جاندار مخلوق کی تصویر کشی ممنوع قرار دی تھی۔ اس لیے تصویر کشی کے ذریعہ اپنے حسن کارانہ ذوق کے اظہار کی صورت فن خطاطی کے ذریعے نکالی۔ اسلامی معاشرے میں خطاطوں کو مصوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ عزت اور مرتبہ حاصل تھا۔ حکمران تک ثواب حاصل کرنے کی غرض سے کلام اللہ کی کتابت کیا کرتے تھے۔ عربی کی تاریخی اور ادبی کتابوں میں متعدد خطاطوں کا تذکرہ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ کیا گیا ہے۔

اس طرح ان کے نام ہم تک محفوظ پہنچے ہیں لیکن یہی کتابیں مصوروں، تعمیرکاروں اور دھات کے صنعتکاروں کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ غالباً صرف خطاطی ہی ایک ایسا عربی آرٹ ہے جس کے مسلمان اور نصرانی دونوں نمایندے آج بھی قسطنطنیہ، قاہرہ، بیروت اور دمشق میں موجود ہیں۔ اور ان کا کام حسن و نفاست کے لحاظ سے اگلوں کے شہ کاروں سے بڑھا چڑھا ہے۔

صرف فن خطاطی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کے دوسرے فنون جیسے رنگ کاری، نقاشی اور جلد سازی کی پوری صنعت کی ابتداء اور ارتقا دونوں کتاب مقدس قرآن ہی کے رہین منت ہیں۔ کتابی تزئین اور قرآن کی نقاشی کا فن آخری عباسی خلفاء کے دور حکومت میں ایجاد ہوا اور پندرہویں صدی میں یہ اپنے پورے کمال پر پہنچ گیا۔

جیسے دربار دمشق پر موسیقی کے بارے میں فقیہوں کی ناپسندیدگی کا کوئی خاص اثر نہ ہوا وہی حال بغداد کا رہا۔ ہارون رشید کے شستہ اور شاندار دربار نے سائنس ا ور آرٹ کی جیسی سرپرستی کی ویسی ہی سرپرستی نغمہ اور موسیقی کی، کی۔ اور سرپرستی بھی ایسی کی کہ آسمان موسیقی کے نہایت تابناک ستارے اسی افق پر جمگانے لگے۔ اس دربار کے سایہ عاطفت میں بہت سے تنخواہ یاب مغنی اور گانے والے لونڈی غلام پروان چڑھ رہے تھے۔ ان ہی لوگوں نے دنیا کو ان بے شمار عجیب و غریب افسانوں کے موضوعات فراہم کیے ہیں جنھیں الف لیلہ نے اپنے صحافت میں حیات جاوید بخشی ہے۔

(فلپ کے حتی کی کتاب''تاریخ عرب'' سے اقتباس۔ بشکریہ،نگارشات پبلشرز،لاہور)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں