گورننس کا بحران

بلدیاتی اداروں کے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کے انتخابات ایک بار پھر ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

muqtidakhan@hotmail.com

ISLAMABAD:
بلدیاتی اداروں کے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کے انتخابات ایک بار پھر ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کے چار اراکین اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس وقت ان انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا، کیا اس وقت چیف الیکشن کمشنر سمیت ریٹائر ہونے والے اراکین اور خود حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ فلاں تاریخ کو ان کی مدت ملازمت مکمل ہو رہی ہے؟ کیا وزیراعظم سیکریٹریٹ یا پارلیمنٹ سیکریٹریٹ میں ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں تھی، جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی مدت کب ختم ہو رہی ہے۔

عام طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں ایسے معاملات کی فائلیں موجود ہوتی ہیں، جو کیبنٹ ڈویژن کو ہر قسم کی تقرریوں، تبادلوں اور معاہدوں کے اختتام سے آگاہ رکھتی ہیں۔ کیبنٹ ڈویژن وزیراعظم سیکریٹریٹ سمیت متعلقہ وزارتوں اور پارلیمنٹ کے سیکریٹریٹ کو یہ معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ حکمرانی میں بہتری آنے کے بجائے مسلسل تنزلی آ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میرٹ، شفافیت اور سب سے بڑھ کر جوابدہی کے واضح مکینزم کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیشہ ورانہ نااہلی اور عدم ذمے داری کے رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ کچھ کام ایسے ہیں، جو حکمرانوں کی مرضی اور منشا سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے وہ انھیں بحالت مجبوری محض بھگتا دیتے ہیں۔ ان میں ایک انتخابی اصلاحات ہیں، جو حزب اقتدار واختلاف دونوں کی عدم دلچسپی کا باعث ہیں۔ دوسرے اقتدار و اختیار کی نچلی ترین سطح تک منتقلی۔ جہاں تک انتخابی اصلاحات کا تعلق ہے، تو یہ معاملہ گزشتہ 46 برس سے موضوع بحث چلا آ رہا ہے۔

کئی بار ان صفحات پر اظہار کیا گیا کہ 1970ء میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے بعد ہونے والے تمام عام اور بلدیاتی انتخابات متنازع رہے ہیں۔ مگر اس مسئلے کا ٹھوس اور دیرپا حل نکالنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انتخابات میں ہر امیدوار اور ہر جماعت حسب توفیق دھاندلی کرتی ہے۔ جس میں جتنی طاقت اور اثر ہوتا ہے، وہ اسی قدر دھاندلی کرتا ہے۔ اس لیے انتخابی اصلاحات ان کی ترجیح نہیں ہیں، بلکہ اصلاحات کا محض ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔

دوسری طرف فیوڈل مائنڈ سیٹ کی حامل اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی صورت میں اس کی سیاسی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ اول، یہ اشرافیہ جو محض چند سو گھرانوں پر مشتمل ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ڈھائی سے تین ہزار امیدوار تو مہیا کر سکتی ہے، لیکن نچلی سطح کے عہدیداروں کے لیے لاکھوں کی تعداد میں امیدوار مہیا کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

نتیجتاً نچلی سطح پر منتخب ہو کر ملک میں جاری سیاسی کلچر کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوئم، قومی وسائل جو مکمل طور پر اس کی دسترس اور تصرف میں ہیں، نچلی سطح تک منتقل ہو جانے کے باعث عام آدمی کو کنٹرول کرنے کا یہ ہتھیار بھی ہاتھ سے چلا جائے گا۔ لہٰذا تمامتر عوامی دباؤ اور عدالتی فیصلوں کے باوجود یہ اشرافیہ مقامی حکومتی نظام کو اس کی اصل روح تو درکنار، اپنے متعین کردہ اصول و ضوابط کے مطابق بھی اختیارات دینے کی روادار نہیں۔

سیاست میں نیا کیڈر طلبا سیاست اور ٹریڈ یونین سمیت مختلف پروفیشنل باڈیز سے آتا ہے۔ لیکن اکثریت ان نوجوانوں کی ہوتی ہے، جو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے طلبا سیاست کے عملی سیاست میں آتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل ضیا کے دور میں طلبا سیاست پر پابندی اور ٹریڈیونین کو مختلف طریقوں سے مفلوج کر دیے جانے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں نئے کیڈر کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چند سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی سبھی قومی دھارے (Mainstream) کی سیاسی جماعتوں میں رکنیت سازی کا کلچر ختم ہو چکا ہے چنانچہ نئے کیڈر کی آمد کا تصور بھی نہیں رہا۔ بعض جماعتیں دفاتر کے بغیر محض چند افراد کے گرد گھوم رہی ہیں۔ ان کے ضلعی اور تحصیل کے عہدیدار تو دور کی بات صوبائی اور وفاقی عہدیدار بھی موجود نہیں ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال مسلم لیگ (ن) ہے، جس کا نہ کوئی مرکزی سیکریٹریٹ ہے اور نہ ہی وفاقی اور صوبائی عہدیدار ہیں۔ یہ صرف میاں نواز شریف کے نام پر چل رہی ہے۔


قومی دھارے کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے، جس کی یونین کونسل تک کا مکمل ڈھانچہ ہوا کرتا تھا۔ مگر گزشتہ دو تین دہائیوں سے اس نے بھی اس جانب توجہ دینا چھوڑ دی ہے۔ آج اس کے عہدیداروں کا الیکشن نہیں سلیکشن ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس بھی اس کے ممبران کی مکمل فہرست دستیاب نہیں ہے۔ تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف نے انتخابات کے ذریعے ہر سطح پر تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ مگر وہ بھی بااثر شخصیات کے زیر اثر اس عمل کو شفافیت کے ساتھ چلانے میں ناکام رہی۔ دو اہم شخصیات جسٹس (ر) وجیہہ الدین صدیقی اور تسنیم نورانی کو یکے بعد دیگرے الیکشن کمشنر مقرر کیا، مگر دونوں اندرونی دباؤ برداشت نہ کرتے ہوئے مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔

جماعت اسلامی میں ہر سطح پر انتخابات ہوتے ہیں۔ ان کے مرکزی امیر کا انتخاب بھی ایک مخصوص نظام کے تحت انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کیڈر جماعت ہے، جسے عوامی جماعت نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح اس کے انتخابات کو مکمل طور پر جمہوری نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حالانکہ پلڈاٹ نے اپنی رپورٹ میں اس کے انتخابی عمل کو جمہوری تسلیم کیا ہے۔

ملک کی چوتھی بڑی جماعت ایم کیوایم گو کہ مڈل کلاس کی جماعت ہے۔ مگر اس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی کس طور جمہوری نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ دیگر سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے سے خاصا مختلف ہے۔ مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر عہدیدار نہیں ہوتے بلکہ سیکٹر اور یونٹ کے ذمے داران نچلی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ چلاتے ہیں۔ جب کہ پارٹی کے تمامتر سیاسی فیصلے رابطہ کمیٹی کرتی ہے، جن کی توثیق پارٹی کے قائد کرتے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی، اپنے قیام کے وقت ایک عوامی جمہوری جماعت تھی، مگر پھر یہ صرف پختون سیاست تک محدود ہو کر رہ گئی۔ کسی زمانے میں اس جماعت میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اراکین اور رہنماؤں کی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ آج بھی اکثریت مڈل کلاس کے کارکنوں کی ہے، مگر قیادت پر مراعات یافتہ افراد حاوی ہیں۔ نیشنل پارٹی کا حلقہ انتخاب بلوچستان تک محدود ہے۔ اس جماعت کی قیادت کا تعلق مڈل کلاس سے ہے، جو مڈل کلاس سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں فعال ہونے کے باوجود اس کی صفوں میں کوئی بڑا سردار شامل نہیں ہے۔ چونکہ یہ جماعت ابھی ملک گیر مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام ہے،

اس لیے خود بھی مروجہ مرکزیت نواز سیاسی نظام کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے لیے کسی قسم کا ٹھوس اور قابل عمل طریقہ کار وضع کرنے میں ناکام ہے۔

اس صورتحال میں دیکھا جائے تو تین جماعتیں ایوان میں اپنی آواز رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف۔ اول الذکر دونوں جماعتیں ملک میں جاری سیاسی Status quo کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف میں اول تو سیاسی بلوغت کا فقدان ہے، دوسرے اس میں شامل مراعات یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والی چند بااثر شخصیات جاری Status quo توڑنے کی راہ میں حائل ہیں۔ ایم کیو ایم اربن مڈل کلاس کی نمایندگی اور 25 قومی اور 7 سینیٹرز رکھنے کے باوجود ان اصلاحات کے لیے زور لگانے میں ناکام ہے، جن کا فائدہ براہ راست مڈل اور ورکنگ کلاس کے علاوہ خود اس کی سیاست کو پہنچ سکتا ہے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلسل تناؤ اور دیگر لسانی اکائیوں کا عدم اعتماد، اس کے مطالبات کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

ایسی صورتحال میں سیاسی و انتظامی Status quo کے ٹوٹنے، ٹھوس انتخابی اصلاحات اور اقتدار و اختیار کی حقیقی معنی میں نچلی سطح تک منتقلی کے امکانات خاصے معدوم نظر آ رہے ہیں۔ اچھی حکمرانی کا خواب فی الحال شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ درج بالا تمام سیاسی جماعتیں سرد جنگ کے زمانے کی پیداوار ہیں، اس لیے کسی نہ کسی فکری اور تہذیبی نرگسیت میں مبتلا ہونے کے علاوہ فیوڈل مائنڈ سیٹ کا بالواسطہ یا بلاواسطہ شکار ہیں۔ ان سے حقیقی شراکتی جمہوریت کی جانب پیش قدمی کی توقع عبث ہے۔ لیکن ان میں پائی جانے والی خامیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں کو بھی مدعو نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ عوام 32 برس تک ان کے اقتدار کو مختلف ادوار میں بھگت چکے ہیں، جنھوں نے خرابی بسیار کو ختم کرنے کے بجائے مزید بڑھاوا دیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ عام آدمی کو جمہوریت یا آمریت سے غرض نہیں ہوتی، اسے صرف اپنے مسائل کے حل سے دلچسپی ہوتی ہے۔ جمہوریت ہم جیسے قلمکاروں اور تجزیہ نگاروں کے علاوہ سول سوسائٹی کی کلیدی ضرورت ہے۔ کیونکہ جمہوریت کے بغیر اظہار رائے کی آزادی ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے ملک میں جاری نظام کو شراکتی جمہوریت کی طرف لے کر جانے اور انتخابی اصلاحات سمیت ریاستی نظام میں مختلف اصلاحات کی راہ ہموار کرنے کے لیے سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ کو متحرک ہونا پڑے گا۔ اس کے بغیر گورننس کے حالیہ بحران کا خاتمہ ممکن نہیں۔
Load Next Story