مسائل کی ذمے دار سابق حکومتیں

اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں انتخابی مہم پر کروڑوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

لاہور:
پاکستان میں ویسے تو بے شمار مسائل حل طلب ہیں اور انھیں حل کرنے کی 69 سال سے حکمران طبقات ناکام کوششیں بھی کر رہے ہیں اور ملکی ترقی کے غلط اعداد و شمار اور جھوٹے دعوؤں پر مبنی اشتہارات پر عوام کا اربوں روپیہ صرف کیا جا رہا ہے لیکن عوامی مسائل جوں کے توں ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عوامی مسائل کا حل حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منتخب حکمرانوں کی ترجیح عوامی مسائل کیوں نہیں ہیں؟ اس کا ایک منطقی جواب تو یہ ہے کہ حکمراں عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابی امیدوار انتخابی مہم کے دوران عوام سے جو وعدے کرتے ہیں عوام ان وعدوں کو یاد رکھتے ہیں اور وعدے وفا نہ ہونے کی صورت میں ان کا احتساب کرتے ہیں۔ چونکہ امیدوار کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا پارٹیوں کو یہ فکر رہتی ہے کہ ان کے نامزد اور کامیاب امیدوار عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں۔ اس حوالے سے پارٹیاں اپنے منتخب امیدواروں کی بھرپور مدد بھی کرتی ہیں۔

اگر منتخب امیدواروں کا تعلق حکمران جماعت سے ہو تو وہ اپنے امیدواروں کو اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے بھرپور وسائل مہیا کرتے ہیں کیونکہ انھیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ اگر ان کا منتخب نمایندہ اپنے علاقے کے عوام کے مسائل اپنے وعدوں کے مطابق حل نہ کرے تو آنے والے الیکشن میں عوام ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ویسے بھی ترقی یافتہ ملکوں میں منتخب نمایندے اپنے حلقے کے عوام کے درمیان رہتے ہیں اور انھیں جوابدہ بھی ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابات پر نہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں نہ ان کی سود سمیت واپسی کے لیے کرپشن کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں انتخابی مہم پر کروڑوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور ان رقوم کی بھاری سود کے ساتھ واپسی کے لیے کرپشن کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے جس ملک میں ووٹرز کی حیثیت دیہاڑی دار مزدوروں کی ہو تو ایسے ملکوں میں وعدہ خلاف نمایندوں سے جواب کون طلب کرے گا؟

ہمارے حکمرانوں کی یہ منطق بڑی دلچسپ ہے کہ وہ جیسے ہی برسر اقتدار آتے ہیں بار بار یہ بات دہراتے ہیں کہ جن مسائل کا عوام کو سامنا ہے وہ انھیں ورثے میں ملے ہیں یا ان مسائل کی ذمے دار پچھلی حکومتیں ہیں۔ اس حوالے سے بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کی ذمے داری موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ حقیت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا تعلق بھی سابقہ حکومتوں سے رہا ہے۔ 1988ء کے بعد اس بدنصیب ملک پر صرف مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی حکمران رہی ہیں۔


جو لوگ آج کے مسائل کی ذمے داری سابق حکومتوں پر ڈال کر خود کو بے گناہ اور معصوم بتانے کی کوشش کرتے ہیں ان کا شمار نہ صرف سابق حکومتوں میں ہوتا ہے بلکہ وہ پچھلے 28 سال میں تین بار برسر اقتدار رہے ہیں۔ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ بحیثیت سابق حکمران ان گزرے ہوئے 28 سال میں بجلی کی پیداوار میں اضافے سے کیوں گریزاں رہے اور آج اپنے گناہوں کا سارا بوجھ سابق حکومتوں پر اس حقیقت کے باوجود کیوں ڈال رہے ہیں کہ وہ بھی 1988ء کے بعد پورے ملک پر تیسری بار حکومت کر رہے ہیں؟

موجودہ حکومت جب نااہلیوں کا الزام سابق حکومتوں پر ڈالتی ہے تو اس کا اشارہ پیپلز پارٹی کی طرف ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں 1988ء کے بعد تین تین بار حکومت میں رہیں کیا وہ اپنی تین حکومتوں کے دوران بجلی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی تھیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت ہی ان ساری خرابیوں کی ذمے دار ہے تو پھر 2008ء کے بعد مسلم لیگ نے اس کے خلاف احتجاج یا تحریک چلانے کے بجائے اس نااہل حکومت کی مددگار کیوں بنی رہی، قانون ساز اداروں میں پی پی حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار کیوں ادا کرتی رہی؟ ملک کی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی حکومت وہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی کیا پی پی کو یہ اعزاز مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے بغیر حاصل ہو سکتا تھا؟

اس قسم کے لولے لنگڑے بہانے اور احمقانہ الزامات اور جوابی الزامات کا مقصد اپنی نااہلیوں، اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ اصل مقصد مل بانٹ کر لوٹ مار میں حصہ لینا ہے۔ آج پیپلز پارٹی پانامہ لیکس کے مسئلے پر کم از کم دکھاوے کے طور پر ہی سہی حکومت کی اپوزیشن کر رہی ہے اور کل تک جو پارٹی تحریک انصاف کی سخت خلاف تھی وہ آج تحریک انصاف کے کندھے سے کندھا ملائے کیوں کھڑی ہے۔ کیا ان چند مہینوں میں تحریک انصاف کی سیاست اور اس کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آ گئی ہے؟

یا تحریک انصاف سے اتحاد کے پیچھے سیاسی مفادات ہیں؟ اب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میاں صاحب کے دو صاحبزادے اور ایک بیٹی نہ صرف آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں بلکہ اخباری خبروں کے مطابق صاحبزادی لندن کے پوش علاقوں میں اربوں کی مالیت کے چار لگژری فلیٹوں کی مالک بھی ہیں۔ یہ بات اب اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ اسے دبانا شاید ممکن نہ ہو، کیونکہ ساری دنیا میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کے خلاف سخت ایکشن لیے جا رہے ہیں۔مسئلہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کا نہیں بلکہ پانی کی قلت سمیت کئی مسائل ملک کے مستقبل کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے، 28 سال سے یہی دونوں پارٹیاں باری باری حکومت کر رہی ہیں، ان 28 سال میں کالا باغ ڈیم کو بہانہ بنا کر پانی کے مسئلے کو حل کرنے سے گریز کیا جاتا رہا۔ آج کالا باغ ڈیم کے متبادل دیگر ڈیمز بنانے کی جو کاوشیں ہو رہی ہیں کیا 28 سال کے دوران یہ کوششیں کی جاتیں تو آج پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ ہوتا؟ اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ جب حکومتوں کے سامنے عوامی اور قومی مسائل کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے تو پھر ان سے اغماز کا شکوہ بے کار محض کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ 69 سال سے اشرافیہ اس ملک کے اقتدار پر قابض ہے اور اس کی ترجیحات بالکل مختلف ہیں۔
Load Next Story