رمضان تصویر کے دو رخ
یہ سب ایک فٹ پاتھ پر ہوتا ہے جس کے دونوں جانب کشادہ سڑک ہے جس پر صبح تا رات گئے تک ٹریفک گزرتا ہے
ویسے تو ہمارے معاشرے میں ہماری تصویر کے دو رخ سدا بہار ہیں لیکن رمضان کے مہینے میں یہ کچھ زیادہ ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔ میں جب بھی اپنے فلیٹ کی گیلری سے صبح کے وقت باہر کا نظارہ کرتا ہوں تو بالکل سامنے مجھے ایک ٹھیلے والا نظر آتا ہے جس کے پاس باجرہ اور کئی اقسام کی دالیں وغیرہ ہوتی ہیں، ساتھ ہی پانی کے ڈرم ہوتے ہیں۔
یہ سب ایک فٹ پاتھ پر ہوتا ہے جس کے دونوں جانب کشادہ سڑک ہے جس پر صبح تا رات گئے تک ٹریفک گزرتا ہے۔ یہاں سے گزرنے والے بے شمار لوگ اپنی موٹر سائیکلیں، گاڑیاں روک کر اس ٹھیلے والے سے باجرہ، دانا وغیرہ خرید کر اس فٹ پاتھ کے بیچ ڈال دیتے ہیں جہاں کبوتروں کا غول موجود ہوتا ہے اور وہ اس دانے سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ صبح سے شام تک ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل والا یا گاڑی والا اپنی گاڑی روک کر یہاں سے دانا، پانی خرید کر فٹ پاتھ پر کبوتروں کو ڈالتا رہتا ہے، یوں ایک وافر مقدار میں یہاں فٹ پاتھ پر دانا پانی ہر وقت پڑا رہتا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ کبوتروں کی مطلوبہ طلب سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہے ہوں کہ ہمارے معاشرے کے لوگ کس قدر رحمدل اور اچھے انسان ہیں کہ کسی پرندے کو بھی بھوکا نہیں رہنے دیتے۔
دوسری طرف جب رمضان کا مہینہ آیا تو ٹی وی چینلز تو گویا ہمارے معاشرے کا اور بھی اچھا نقشہ پیش کررہے تھے، ہر طرف اللہ اللہ کی باتیں، مفت میں لاکھوں، کروڑوں کی عوام پر برساتیں، انعامات ہی انعامات، علما کی پیاری پیاری میٹھی باتیں، ہر چینل پر کسی نہ کسی دکھی کی فریاد اور پھر مدد کی اپیلیں اور پل بھر میں لاکھوں کی امداد، پلک جھپکتے ہی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری۔ تصویر کا یہ رخ، واہ، واہ، کیا کہنے! لیکن تصویر کا دوسرا رخ، بڑا تکلیف دہ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق، جب میں کبوتروں کو دانے ڈالنے والے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پولیس افسر ہے تو کوئی کسی سرکاری ادارے کا ملازم، نہ جانے کیوں یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہ دانا ڈالنے والے انسانوں سے بھی اسی قدر محبت سے پیش آتے ہیں، کیا یہ انسانوں کا بھی اسی طرح خیال رکھتے ہیں؟ کسی تھانے میں جائیں یا کبھی آپ کا واسطہ کسی پولیس والے سے پڑجائے تو یہ تضاد بڑا واضح نظر آجائے گا، اسی طرح جب کوئی بیوہ بھی کسی سرکاری ادارے میں فائلوں کے چکر میں ٹھوکریں کھارہی ہو تو تب بھی یہ تضاد نظر آئے گا۔
رمضان کے مہینے میں کئی علماء کے واعظ سنے اور قرآن و احادیث پڑھنے کا موقع بھی ملا مگر کبھی ایسی بات نہ سنی کہ اگر پرندوں کو دانا نہ ڈالا تو اس کی سخت پکڑ ہوگی، البتہ یہ ضرور سنا اور پڑھا کہ کوئی پڑوسی یا ملازم یا ماتحت وغیرہ بھوکا ہو، بیمار ہو یا ضرورت مند ہو اور ہم اس کی حاجت پوری کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے اس کی مدد نہ کریں تو اﷲ کے ہاں اس کی جواب دہی ضرور ہوگی۔ ہم نے یہ بھی پڑھا اور سنا کہ اگر پڑوسیوں کے حقوق ادا نہ کیے، حقوق العباد ادا نہ کیے اور ملازم کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اجرت ادا نہ کی تو اﷲ کے ہاں سخت پکڑ ہوگی اور جب تک بندہ معاف نہ کردے خلاصی نہ ہوگی۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا آج ہم سب ان باتوں کا خیال رکھ رہے ہیں یا کہ بڑے بڑے افطار کراکے، ٹی وی چینلز پر کسی کی مدد کرکے اور زبانی وعظ و نصحت کرکے یا محفل سجا کر ہی غفلت اور غلط راہ پر پڑے ہیں؟ ہم اس مہینے میں بڑھ چڑھ کر لوگوں کی مدد بھی کر رہے ہیں لیکن کیا کسی کا جائز حق بھی اسے دے رہے ہیں یا نہیں؟
ایک وقت تھا کہ مختلف اداروں میں کام کرنے والوں کو عید وغیرہ کے موقعے پر بونس (اضافی تنخواہ) دیا جاتا تھا، کاروبار میں منافع ہونے پر ملازموں کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور دیا جاتا تھا مگر اب یہ روایت ماضی کا قصہ بنتی جارہی ہے بلکہ اب توعید و رمضان کے موقعے پر ملازمین سے کسی قسم کی رعایت بھی برتی نہیں جاتی۔ اسی طرح ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ صرف نجی نہیںبعض سرکاری ادروں میں بھی چار پانچ مہینوں تک ملازمین کو تنخواہ نہیں ملتی اور رمضان کے مہینے میں بعض اداروں کے ملازموں کو احتجاج کرنا پڑتا ہے کہ اب تو تنخواہ دیدو۔
اچھے خاصے منافع کمانے والے ادارے بھی اب بونس دینے کی روایت کو ختم کر بیٹھے ہیں۔ چھوٹے کاروبار کرنے والے بھی اپنے ملازموں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، نہ ہی اپنے صارفین کا خیال کرتے ہیں۔ عموماً کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس مقدس مہینے میں بھی عوام سے لوٹ کھسوٹ جاری رکھی جائے۔ بازار جائیں تو چاند نظر آتے ہی ہر اشیاء پر دام بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک ٹھیلے والے سے لے کر بڑے کاروباری ادارے تک ایک جیسا ہی کلچر نظر آتا ہے کہ بس کسی طرح زیادہ سے زیادہ کما لیا جائے۔
یوں تصویر کا یہ دوسرا رخ بڑا مختلف اور تلخ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم اس طرف دھیان نہیں دیتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ایک جانب تو پرندوں تک کو دانا پانی فراہم کر رہے ہیں کہ جس کی ذمے داری بھی ہم پر فرض نہیں( البتہ یہ نیکی ضرور ہے)، ٹی وی پر آکر کسی ضرورت مند کی حاجت سن کر اس کی مدد بھی کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب اپنے ملازمین کا حق بھی ادا نہیں کر رہے، بغیر رشوت جائز کام کو روکے بیٹھے ہیں، گویا ایک جانب تو حقدار کے منہ سے جائز نوالہ چھین رہے ہیں لیکن دوسری جانب دکھاوے کی امداد کر رہے ہیں، توکسی پرندے کی بھوک مٹا رہے ہیں۔
آیئے ہم اپنا اپنا انفرادی جائزہ لیں کہ ہم کس حد تک کسی کے منہ کا نوالہ چھین رہے ہیں، اس کا جائز حق اس کو نہیں دے رہے ہیں اور دوسری جانب ہم وہ نیکی کررہے ہیں کہ جس کو اگر نہ کریں تو روز آخرت کوئی بڑی پکڑ بھی نہ ہو، نہ ہی ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہو۔
آیئے کم از کم اس بات کا ضرور جائزہ لیں کہ ہمارے ماتحت کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا حق ہم نے ادا کرنا ہے، خاص کر وہ کاروباری لوگ جنھیں اپنے ملازمین کو وقت پر اجرت دینا چاہیے مگر وہ اس اہم مہینے میں بھی اپنے ملازمین کو بہت دیر سے اجرت دیتے ہیں، یا جن کو اس اہم موقع پر اپنے ادارے کے منافع میں سے اس کا کچھ حصہ بونس یا سالانہ انکریمنٹ کے طور پر دینا چاہیے یا اور کچھ نہیں تو بطور نیکی اس ماہ میں اپنے ملازمین کو عیدی، عید کا جوڑا یا تحائف وغیرہ دینا چاہیے۔ آیئے صرف ٹی وی کیمروں کے آگے نیکیاں ظاہر نہ کریں عملاً بھی کچھ کریں تاکہ ہم بھی کہہ سکیں کہ اگر مغرب میں کرسمس جیسے تہواروں پر اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی جاتی ہے، بونس دیے جاتے ہیں اور کم حثیت کے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے تو کیا ہوا ہم بھی تو کسی سے کم نہیں۔
یہ سب ایک فٹ پاتھ پر ہوتا ہے جس کے دونوں جانب کشادہ سڑک ہے جس پر صبح تا رات گئے تک ٹریفک گزرتا ہے۔ یہاں سے گزرنے والے بے شمار لوگ اپنی موٹر سائیکلیں، گاڑیاں روک کر اس ٹھیلے والے سے باجرہ، دانا وغیرہ خرید کر اس فٹ پاتھ کے بیچ ڈال دیتے ہیں جہاں کبوتروں کا غول موجود ہوتا ہے اور وہ اس دانے سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ صبح سے شام تک ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل والا یا گاڑی والا اپنی گاڑی روک کر یہاں سے دانا، پانی خرید کر فٹ پاتھ پر کبوتروں کو ڈالتا رہتا ہے، یوں ایک وافر مقدار میں یہاں فٹ پاتھ پر دانا پانی ہر وقت پڑا رہتا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ کبوتروں کی مطلوبہ طلب سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہے ہوں کہ ہمارے معاشرے کے لوگ کس قدر رحمدل اور اچھے انسان ہیں کہ کسی پرندے کو بھی بھوکا نہیں رہنے دیتے۔
دوسری طرف جب رمضان کا مہینہ آیا تو ٹی وی چینلز تو گویا ہمارے معاشرے کا اور بھی اچھا نقشہ پیش کررہے تھے، ہر طرف اللہ اللہ کی باتیں، مفت میں لاکھوں، کروڑوں کی عوام پر برساتیں، انعامات ہی انعامات، علما کی پیاری پیاری میٹھی باتیں، ہر چینل پر کسی نہ کسی دکھی کی فریاد اور پھر مدد کی اپیلیں اور پل بھر میں لاکھوں کی امداد، پلک جھپکتے ہی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری۔ تصویر کا یہ رخ، واہ، واہ، کیا کہنے! لیکن تصویر کا دوسرا رخ، بڑا تکلیف دہ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق، جب میں کبوتروں کو دانے ڈالنے والے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پولیس افسر ہے تو کوئی کسی سرکاری ادارے کا ملازم، نہ جانے کیوں یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہ دانا ڈالنے والے انسانوں سے بھی اسی قدر محبت سے پیش آتے ہیں، کیا یہ انسانوں کا بھی اسی طرح خیال رکھتے ہیں؟ کسی تھانے میں جائیں یا کبھی آپ کا واسطہ کسی پولیس والے سے پڑجائے تو یہ تضاد بڑا واضح نظر آجائے گا، اسی طرح جب کوئی بیوہ بھی کسی سرکاری ادارے میں فائلوں کے چکر میں ٹھوکریں کھارہی ہو تو تب بھی یہ تضاد نظر آئے گا۔
رمضان کے مہینے میں کئی علماء کے واعظ سنے اور قرآن و احادیث پڑھنے کا موقع بھی ملا مگر کبھی ایسی بات نہ سنی کہ اگر پرندوں کو دانا نہ ڈالا تو اس کی سخت پکڑ ہوگی، البتہ یہ ضرور سنا اور پڑھا کہ کوئی پڑوسی یا ملازم یا ماتحت وغیرہ بھوکا ہو، بیمار ہو یا ضرورت مند ہو اور ہم اس کی حاجت پوری کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے اس کی مدد نہ کریں تو اﷲ کے ہاں اس کی جواب دہی ضرور ہوگی۔ ہم نے یہ بھی پڑھا اور سنا کہ اگر پڑوسیوں کے حقوق ادا نہ کیے، حقوق العباد ادا نہ کیے اور ملازم کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اجرت ادا نہ کی تو اﷲ کے ہاں سخت پکڑ ہوگی اور جب تک بندہ معاف نہ کردے خلاصی نہ ہوگی۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا آج ہم سب ان باتوں کا خیال رکھ رہے ہیں یا کہ بڑے بڑے افطار کراکے، ٹی وی چینلز پر کسی کی مدد کرکے اور زبانی وعظ و نصحت کرکے یا محفل سجا کر ہی غفلت اور غلط راہ پر پڑے ہیں؟ ہم اس مہینے میں بڑھ چڑھ کر لوگوں کی مدد بھی کر رہے ہیں لیکن کیا کسی کا جائز حق بھی اسے دے رہے ہیں یا نہیں؟
ایک وقت تھا کہ مختلف اداروں میں کام کرنے والوں کو عید وغیرہ کے موقعے پر بونس (اضافی تنخواہ) دیا جاتا تھا، کاروبار میں منافع ہونے پر ملازموں کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور دیا جاتا تھا مگر اب یہ روایت ماضی کا قصہ بنتی جارہی ہے بلکہ اب توعید و رمضان کے موقعے پر ملازمین سے کسی قسم کی رعایت بھی برتی نہیں جاتی۔ اسی طرح ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ صرف نجی نہیںبعض سرکاری ادروں میں بھی چار پانچ مہینوں تک ملازمین کو تنخواہ نہیں ملتی اور رمضان کے مہینے میں بعض اداروں کے ملازموں کو احتجاج کرنا پڑتا ہے کہ اب تو تنخواہ دیدو۔
اچھے خاصے منافع کمانے والے ادارے بھی اب بونس دینے کی روایت کو ختم کر بیٹھے ہیں۔ چھوٹے کاروبار کرنے والے بھی اپنے ملازموں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، نہ ہی اپنے صارفین کا خیال کرتے ہیں۔ عموماً کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس مقدس مہینے میں بھی عوام سے لوٹ کھسوٹ جاری رکھی جائے۔ بازار جائیں تو چاند نظر آتے ہی ہر اشیاء پر دام بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک ٹھیلے والے سے لے کر بڑے کاروباری ادارے تک ایک جیسا ہی کلچر نظر آتا ہے کہ بس کسی طرح زیادہ سے زیادہ کما لیا جائے۔
یوں تصویر کا یہ دوسرا رخ بڑا مختلف اور تلخ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم اس طرف دھیان نہیں دیتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ایک جانب تو پرندوں تک کو دانا پانی فراہم کر رہے ہیں کہ جس کی ذمے داری بھی ہم پر فرض نہیں( البتہ یہ نیکی ضرور ہے)، ٹی وی پر آکر کسی ضرورت مند کی حاجت سن کر اس کی مدد بھی کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب اپنے ملازمین کا حق بھی ادا نہیں کر رہے، بغیر رشوت جائز کام کو روکے بیٹھے ہیں، گویا ایک جانب تو حقدار کے منہ سے جائز نوالہ چھین رہے ہیں لیکن دوسری جانب دکھاوے کی امداد کر رہے ہیں، توکسی پرندے کی بھوک مٹا رہے ہیں۔
آیئے ہم اپنا اپنا انفرادی جائزہ لیں کہ ہم کس حد تک کسی کے منہ کا نوالہ چھین رہے ہیں، اس کا جائز حق اس کو نہیں دے رہے ہیں اور دوسری جانب ہم وہ نیکی کررہے ہیں کہ جس کو اگر نہ کریں تو روز آخرت کوئی بڑی پکڑ بھی نہ ہو، نہ ہی ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہو۔
آیئے کم از کم اس بات کا ضرور جائزہ لیں کہ ہمارے ماتحت کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا حق ہم نے ادا کرنا ہے، خاص کر وہ کاروباری لوگ جنھیں اپنے ملازمین کو وقت پر اجرت دینا چاہیے مگر وہ اس اہم مہینے میں بھی اپنے ملازمین کو بہت دیر سے اجرت دیتے ہیں، یا جن کو اس اہم موقع پر اپنے ادارے کے منافع میں سے اس کا کچھ حصہ بونس یا سالانہ انکریمنٹ کے طور پر دینا چاہیے یا اور کچھ نہیں تو بطور نیکی اس ماہ میں اپنے ملازمین کو عیدی، عید کا جوڑا یا تحائف وغیرہ دینا چاہیے۔ آیئے صرف ٹی وی کیمروں کے آگے نیکیاں ظاہر نہ کریں عملاً بھی کچھ کریں تاکہ ہم بھی کہہ سکیں کہ اگر مغرب میں کرسمس جیسے تہواروں پر اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی جاتی ہے، بونس دیے جاتے ہیں اور کم حثیت کے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے تو کیا ہوا ہم بھی تو کسی سے کم نہیں۔