بجٹ میں عوام کو کیا ملا

مالی سال 2016ء کے وفاقی اور صوبائی بجٹ پیش ہو چکے ہیں۔

www.facebook.com/shah Naqvi

مالی سال 2016ء کے وفاقی اور صوبائی بجٹ پیش ہو چکے ہیں۔ بجٹ ہر سال پیش ہوتے ہیں حکومتوں کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس سے غریبوں کی حالت میں بہتری آئے گی لیکن ہر بجٹ کے بعد غریبوں کے حالات پہلے سے بھی برے ہو جاتے ہیں۔ اب تو کئی برسوں سے ضمنی بجٹ کی بھی روایت پڑ چکی ہے۔ بجٹ اور ضمنی بجٹ مہنگائی کا طوفان لے کر آتے ہیں جو کم آمدنی والے طبقوں کی زندگی کو مزید دشوار بنا دیتے ہیں۔ مدتوں پہلے عوام وفاقی بجٹ کا شدت سے انتظار کرتے تھے جس میں عوام کے لیے کچھ ریلیف بھی ہوتا تھا۔

اب عوام کو پتہ ہوتا ہے کہ اصل بجٹ بعد میں آئے گا۔ غریب ملکوں کا بجٹ بھی غریب عوام کی طرح ہوتا ہے جن کے اخراجات سے آمدنی کم ہوتی ہے۔ یعنی اگر سر پر چادر لیں تو پاؤں ننگے اور پاؤں ڈھانپیں تو سر ننگا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب کی زندگی دشوار سے دشوار تر ہو رہی ہے لیکن حکمرانوں کے ٹھاٹھ باٹ میں ہر سال اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے بعد بیوروکریسی ہے وہ جتنا چاہیں اپنی مراعات میں اضافہ کر لیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حال ہی میں ارکان پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں یک دم چار گنا اضافہ کر لیا۔

ہماری حکومت کا ذریعہ آمدنی انتہائی محدود ہے کیونکہ اپنے سیاسی مفادات اور مصلحتوں کی وجہ سے ہماری حکومتیں صنعت کاروں بڑے تاجروں بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگاتے ہوئے اس خوف سے گھبراتی ہیں کہ کہیں ان طبقات کی حمایت سے محروم ہو کر اقتدار کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ آسان طریقہ اس کے پاس ہمیشہ سے ہی ہے کہ عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگائے جائیں۔ چنانچہ عوام کے روزمرہ استعمال کی اشیا پر ٹیکس لگتا ہے اور خوراک اور دوسری اشیا پر ٹیکس لگتا ہے۔ جس کا نتیجہ کم خوراکی کی شکل میں نکلتا ہے اور عوام خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بیشتر ٹیکس غریبوں پر لگتے ہیں۔ امیر یا تو ٹیکس دیتے ہی نہیں یا بہت کم دیتے ہیں۔

حکومت طاقتور طبقات پر ٹیکس لگانے سے ڈرتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ترقی یافتہ ملکوں میں حکومتیں ڈائریکٹ ٹیکس عائد کرتی ہیں ان کے پیش نظر عام عوام کا مفاد ہوتا ہے۔ چنانچہ امیر طبقوں پر زیادہ ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ یعنی جو زیادہ کمائے گا اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے گا۔ یہاں تک کہ سوشل ویلفیئر والے ملکوں میں ٹیکس کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ امیروں سے ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والی دولت غریبوں اور کم آمدنی والے طبقوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح سے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو اس طرح کم کیا جاتا ہے کہ سوشل ویلفیئر حکومتیں عام لوگوں کو صحت تعلیم رہائش اور دوسری سہولتیں مفت یا ارزاں نرخوں پر مہیا کرتی ہیں۔


عوام پر عائد ٹیکسوں کی آمدنی کا بڑا حصہ بجٹ میں مختص دفاع اور حاصل کیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومتوں کو اپنا روزمرہ کا خرچہ چلانے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ جب یہ صورت حال ہو تو عوام پر خرچ کرنے کے لیے نہ ہونے کے برابر وسائل رہ جاتے ہیں چنانچہ عوام کے خط غربت کے گڑھے میں گرنے میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین صورت حال بقول وفاقی وزیر خزانہ یہ ہے کہ دس کروڑ پاکستانی عوام یعنی پاکستانی آبادی کا نصف' روزانہ کھانے کے لیے ایک وقت کی روٹی مشکل سے حاصل کر پاتے ہیں۔

آج سے اٹھارہ برس پہلے جب پاکستان نے ایٹم بم بنایا تھا تو پاکستانی عوام کو یہ خوش خبری سنائی گئی تھی کہ ایٹم بم کی وجہ سے روایتی اسلحہ پر خرچ بہت کم ہو جائے گا اور روایتی اسلحہ پر خرچ ہونے والی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ روایتی اسلحہ پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ملکوں میں بھارت دوسرے اور پاکستان دسویں نمبر پر ہے جب کہ پاکستان اور بھارت میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ روایتی ہتھیار ہوں یا ایٹم بم یا انھیں لیجانے والے میزائل یہ سب عوام کے ٹیکسوں سے بنتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں روایتی ہتھیاروں اور ایٹم بموں میں مسابقت کی دوڑ نے غربت، بیماری، بھوک، بے روز گاری اور ہر طرح کی پس ماندگی کو ان دونوں قوموں کا مقدر بنا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کی 80 فیصد آبادی بھی خط غربت سے نیچے ہے۔

پاکستان اور بھارت کے عوام کی خوشحالی کے لیے امن آج ان دونوں ملکوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔بجٹ میں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پاکستان میں کم آمدنی والے طبقے بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔ مجھے ان لوگوں کے ٹیلیفون آتے رہتے ہیں۔ ان میں ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ہیں جو فیکٹریوں اور صنعتوں سے ریٹائر ہو کر صرف 5250 روپے پنشن لے رہے ہیں اور مدتوں سے ان کی پنشن میں اضافہ نہیں ہوا۔ ہر سال دوسروں کی پنشن کچھ نہ کچھ بڑھتی ہے لیکن ان لوگوں کی پنشن میں اضافے کی ضرورت حکومت محسوس نہیں کرتی۔ ان لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کیا ان پر مہنگائی کا اثر نہیں ہوتا۔ کیا یہ لوگ انسان نہیں۔ دوسرا مظلوم طبقہ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ ہیں جن سے 13ہزار تنخواہ پر بارہ گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ ان سے ہفتے میں سات دن کام لیا جاتا ہے۔ کوئی چھٹی نہیں ہفتے میں ایک چھٹی بھی نہ ملنا سنگین جرم ہے۔

سوال یہ ہے کہ موجودہ عوام دوست حکومت کہاں سو رہی ہے۔ ایک اور اہم ٹیلیفون بلوچ بگتی قبیلے کے فرد نے نصیر آباد بلوچستان سے کیا ہے جس کا پاکستان کی سلامتی سے گہرا تعلق ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں صرف شرپسند کو پکڑا جاتا تھا۔ باقی افراد خانہ کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ اب صورت حال بدل گئی ہے کہ اگر شرپسند نہ پکڑا جائے تو اس کی جگہ کسی بھی گھر کے فرد کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں بگاڑ کا باعث کچھ سردار اور منتخب نمایندے بھی بن رہے ہیں جو عام بے گناہ محب وطن بلوچ کو پرچہ کرانے کی دھمکی دے کر ایک بڑی رقم کا تقاضا کرتے ہیں۔ جو نہ دے اس کی اور اس کے گھر والوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ محب وطن بلوچوں سے اس طرح کا سلوک کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اگر یہ شکایات صحیح ہیں تو امید ہے کہ کور کمانڈر بلوچستان ان مظلوم لوگوں کی شکایات کا جلد از جلد ازالہ کرائیں گے۔

وزیراعظم نواز شریف کے لیے19 تا 22 جون اور جون کا آخر اہم تاریخیں ہیں۔
Load Next Story