اندرونیے بیرونیے

ہمارے ملک میں دو طبقے ابھر کر سامنے آچکے ہیں، ایک کا نام ’’اندرونیے‘‘ ہے اور دوسرے کا نام ’’بیرونیے‘‘ ہے۔

ہمارے ملک میں دو طبقے ابھر کر سامنے آچکے ہیں، ایک کا نام ''اندرونیے'' ہے اور دوسرے کا نام ''بیرونیے'' ہے۔ اندرونیے ملک میں ہی ''جیتے اور مرتے'' ہیں، بیرونیے، اندر باہر دونوں جگہ ''جیتے مرتے ہیں''۔ اندرونیے اپنا ملکی پاسپورٹ نہیں رکھتے، انھیں کہیں جانا آنا ہی نہیں، جب کہ بیرونیے پاکستانی پاسپورٹ کے علاوہ دوسرے ملکوں کے پاسپورٹ بھی رکھتے ہیں۔

اندرونیے ملکی بینک استعمال کرتے ہیں جب کہ بیرونیے دوسرے ملکوں کے بینک بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے ملک سے پیسے بٹورتے ہیں، بہت وزنی بھتے لیتے ہیں اور بیرون ملک بینکوں میں رکھتے ہیں۔ جائیدادیں خریدتے ہیں، عیاشیاں کرتے ہیں، اچھے دن ہوں (یعنی اپنی حکمرانی ہو) تو ملک میں رہتے ہیں اور ساری دنیا کی آسائشیں طلب کرلیتے ہیں، جس بھی ''مال'' کی شہرت سنی، منگوا لیا، حکومت اپنی تو پھر ڈر کاہے کا، کون پوچھے گا، آہنی دیواروں کے بنے ہوئے محلوں میں کیا ہوتا ہے، کسے پتا چلتا ہے اور اگر پتہ چل بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے اور جب برے دن (ان کے نزدیک) آتے ہیں، یعنی حکمرانی نہیں رہتی تو یہ بیرونیے، باہر جا بیٹھتے ہیں، پوری دنیا گھومتے پھرتے ہیں، خوب کھاتے اور پیتے ہیں، کیا حلال کیا حرام، سب کھا جاتے ہیں، پی جاتے ہیں۔ یہ بیرونیے کبھی گھاٹے میں نہیں رہتے۔ یہ حکمران ہوں یا نہ ہوں حکمران ہی رہتے ہیں۔ آنے والے حکمران، جانے والے حکمرانوں کو محفوظ راستہ فراہم کرتے ہیں، جس کے ذریعے یہ باہر چلے جاتے ہیں۔ ایگزٹ لسٹ تو ''اندرونیے'' کے استعمال میں رہتی ہے اور اگر ایگزٹ لسٹ میں کسی بیرونیے کا آبھی گیا تو اعلیٰ عدالتیں انھیں باہر کا راستہ فراہم کردیتی ہیں۔

یہ ''بیرونیے'' اپنے ڈاکٹر اور اسپتال بھی باہر رکھتے ہیں، ملکی اسپتال ''اندرونیے'' لوگوں کے استعمال میں رہتے ہیں جہاں نہ دوا ہے نہ ڈاکٹر، بدبودار وارڈز ہیں۔ اندرونیے اسپتالوں میں آتے اور قبرستانوں میں دفن ہوجاتے ہیں۔

''چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی'' باریاں لگی ہوئی ہیں، ایک بیرونیہ آتا ہے، دوسرا چلا جاتا ہے۔ دکھاوے کے لیے مقدمات قائم ہوتے ہیں، مگر نتیجہ صرف آٹے میں نمک کے برابر۔ کچھ لوٹا ہوا مال واپس ہوتا ہے، مگرمچھوں جیسا مال کبھی واپس نہیں آئے گا۔

برے دنوں والے ''بیرونیے'' بیماری کا بہانہ بناکر باہر جاتے ہیں، ملک میں ہوتے ہیں تو آکسیجن ماسک لگاکر بستر پر لیٹے ہوتے ہیں اور یوں ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے دم لبوں پر ہے، مگر باہر جاتے ہی ڈانس کرنے لگتے ہیں۔ سب بیرونیے بیماری کا کہہ کر ہی باہر گئے، موجودہ حکمران بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ باہر ہی رہیں۔ یہ سارا دھندا مل جل کر ہو رہا ہے، بیرونیوں کی نورا کشتی ہورہی ہے۔

گزشتہ الیکشن میں گاؤں میں رہنے والی ایک ماں نے اپنے جیالے بیٹے سے کہا ''اوئے پھیکے (رفیق) تو مجھے کیا بتاتا ہے، یہ انقلاب والے خواب تو ہی دیکھ میں ایسے خواب نہیں دیکھتی۔ آمنے سامنے منے دنے جاگیردار الیکشن لڑ رہے ہیں اور تو مجھے کہتا ہے کہ انقلاب آئے گا''۔

تو بھائی! یہ کہانی سنی سنائی ہے، وہ جالب کا ایک مصرعہ یاد آگیا، جنرل ایوب کے زمانے کا ''اندر بھائی، باہر بھائی، بیچوں بیچ ہے گندھارا پوبارہ'' تو جناب یہ پوبارہ یونہی رہے گی، اب یہ بات طے ہوچکی کہ اس نظام کے ہوتے حالات کبھی نہیں بدلیںگے، جس نظام میں ہم اندرونیے شامل ہیں، جنرل ایوب کے زمانے کے ہی دو مصرعے ''اندرونیے شاعر'' کے اور سن لیجیے۔

اٹھو کے دردمندوں کے صبح و شام بدلو بھی

جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی

اندرونیے شاعر حبیب جالب کا پاسپورٹ جنرل ایوب نے ضبط کیا تھا۔ یہ 1964کی بات ہے، جالب کا قصور یہ تھا (اور بہت بڑا قصور تھا) کہ وہ قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا، پھر یہ پاسپورٹ تقریباً 22 سال ضبط ہی رہا۔ محسن بھوپالی نے جالب کے لیے ان کی زندگی میں لکھا تھا۔


حق بات بھی کہتا ہے پھر ظلم بھی سہتا ہے

اور ملک میں رہتا ہے مفرور نہیں ہوتا

اس ملک پاکستان کے قیام میں لاکھوں انسانوں نے جان کے نذرانے پیش کیے، قیام کے بعد بھی انسانی جانوں کے نذرانے جاری و ساری ہیں مگر وہ صبح نہیں آئی، وہ صبح کبھی تو آئے گی۔ بدھ 15 جون 2016 کی صبح ایک ''بیرونیے'' مولانا طاہرالقادری کی ملک میں آمد ہوئی، بیچ میں ایک دن چھوڑ کر جمعہ 17 جون 2016 کو مولانا نے مال روڈ لاہور پر دھرنا دیا، ان کے ہزاروں چاہنے والوں نے دھرنا دیا اور دو سال پہلے ماڈل ٹاؤن سانحہ میں شہید ہونے والے 14 افراد سے اظہار یکجہتی کیا۔ بیرونیے طبقے کی حکومت ہے، ان کی خلاف دوسرے بیرونیے دھرنے میں شامل تھے، جو سیاست دان بیرونیے بنے باہر بیٹھے ہیں، وہ سب اور جو جو بیرونیے ملک میں موجود ہیں وہ سب بھی مولانا طاہرالقادری کے دھرنے کے حمایتی ہیں۔ یہ تو بیرونیے طبقوں کا مقابلہ ہے، اربوں پتی، کروڑوں پتی ''منے دنے'' لیڈر آپ کے سامنے ہیں، اس مقابلے میں بھلا اندرونیوں کو کیا ملے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ بس ''رات کے بعد اک رات نئی آجائے گی''۔

اب تک تو یہی ہوا ہے کروڑوں انسان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، بقول جالب:

جو لوگ جھونپڑوں میں پڑے تھے پڑے رہے

کچھ اور اہل زر نے بنا لیں عمارتیں

پانامہ لیکس ساری داستان سنارہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہوا۔

وہ کہاں ہے

جو آئے گا اور ظلم و ستم کے نشانات مٹا جائے گا

اور کچھ دیر کہ ٹوٹا در زنداں یارو
Load Next Story