امریکی مطالبات کے خلاف جرأت مندانہ موقف

سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کے بعد پاکستان میں امریکا کے مفادات کے تحت پالیسیاں بنائی گئیں


[email protected]

لاہور: سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کے بعد پاکستان میں امریکا کے مفادات کے تحت پالیسیاں بنائی گئیں اورکئی اہم موقعے پر قومی مفادات کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ حکمرانوں نے بھٹو شہید کا انجام دیکھ کر امریکی بالادستی کی پالیسیوں سے روگردانی کرنے کی ہمت ہی نہیں کی۔ کئی عشروں کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں قابل ذکر حد تک تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں اور موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کی جانب سے جھکاؤ کی پالیسی ترک کرنے کا واضح عندیہ دیا ہے۔

مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے سینیٹ میں خارجہ پالیسی پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کا پاکستان میں ہمیشہ آمروں سے اچھا تعلق رہا ہے جب کبھی امریکا کو ہماری ضرورت پڑی یہاں فوجی حکومتیں تھیں۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے یہ تاثر غلط قرار دیا کہ پاکستان خطے میں تنہا رہ گیا ہے انھوں نے کہا کہ ہم تمام وسط ایشیائی ممالک سے رابطے بڑھارہے ہیں۔ خطے میں امریکا کی طرف سے چین کو دبانے کی پالیسی میں بھارت کا کردار اہم ہوسکتا ہے ۔ اس لیے ہمارا چین کے ساتھ تعلق بہت اہمیت کا حامل ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار سینیٹ میں مشیر خارجہ کے ان خیالات کو اہم پیشرفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ حکومت پاکستان امریکی پالیسیوں کے سامنے اور بلاجواز امریکی مطالبات کے خلاف جرأت مندانہ انداز سے اپنا موقف پیش کرے۔ امریکا جو پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کا قطعی احترام نہیں کرتا اور وقفے قفے سے پاکستان میں ڈرون حملے کرکے پاکستان کی خودمختاری کو مجروح کرتا ہے بلکہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔

حکومت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر اب ڈرون طیارے دکھائی دیے تو شاید حکومت انھیں نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ سرتاج عزیز کی یہ شکایت بھی بجا ہے کہ امریکا نے اپنے مفاد کے حصول تک پاکستان کو استعمال کیا اور پھر جب کوئی مشکل وقت آیا تو وہ ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ گیا۔ امریکا سے ہمارے تعلقات ہمیشہ پیچیدہ اور خاص نوعیت کے رہے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔ یوں بھی امریکا چین کو روکنے کے لیے بھارت کی حوصلہ افزائی کررہا ہے اور وہ اس حد تک اس معاملے میں آگے نکل گیا ہے کہ اس نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی عظیم الشان قربانیوں کو بھی نظرانداز کردیا اور بھارت پر اپنی نوازشات کی بارش کردی ہے۔

لیکن اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے۔ امریکا کے اس بدلتے ہوئے رویہ سے خدشہ ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ جن کی جانب سرتاج عزیز نے سینیٹ میں اپنے خطاب کے دوران اشارہ دیا ہے۔ مشیر خارجہ کا یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہے کہ امریکا نے پاکستان میں ہمیشہ آمروں کی پشت پناہی کی ہے۔ امریکی حکومت جمہوریت کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتی رہتی ہے مگر اس نے پاکستان میں کبھی بھی جمہوری حکومتوں کو سپورٹ نہیں کیا۔ بلکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے جمہوری حکومتوں کے خلاف کام کیا اور قومی آمروں کی مدد سے امریکی مفادات کا حصول ممکن بنایا جب کہ اس دوران امریکا نے پاکستان کی خودمختاری، سالمیت اور اقتدار اعلیٰ کی بھی پرواہ نہیں کی۔

دوسری جانب یہ بھارت ہی ہے جس نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کو توڑنے کی مکروہ سازش کا ارتکاب کیا اور کئی جنگیں لڑ کر پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا اب وہ امریکا کی آنکھ کا تارا بنتا جارہا ہے۔

بھارت اور امریکا کا گٹھ جوڑ دراصل اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہے جو پاک چائنا اقتصادی کوریڈورکی بدولت پاکستان اور خطے میں آنے والی ہے۔ امریکا نے بھارت ہی نہیں بلکہ افغانستان کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے پوری طرح تیار کررکھا ہے۔ امریکی افواج کی افغانستان میں مزید توسیع بھی اس کا واضح اشارہ ہے۔ بلکہ افغانستان کی جہاں تک بات ہے تو میں یہ واضح کرتا چلوں کہ افغانستان کئی ہفتوں سے مشترکہ سرحد پر فائرنگ کررہا ہے۔ پاک افغان سرحد پر سفری دستاویزات کے بغیر آمدورفت کا سلسلہ طویل مدت سے جاری ہے۔

جس سے فائدہ اٹھا کر بھارتی ایجنسی را افغانستان کی خفیہ ایجنسی، ازبک چیچن اور دیگر ملکوں کے جاسوس اور دہشتگردوں نے بے فکری کے ساتھ پاکستان میں آنا جانا شروع کردیا اب چونکہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردوں کا صفایا کررہی ہے اور اسی سلسلے میں وہ افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا نظام بنانا چاہتی ہے اس ضمن میں پاکستان نے طورخم بارڈر پر سیکیورٹی گیٹ بھی بنایا ہے اور اس کی تعمیر کے بارے میں افغان سفیر کو بھی آگاہ کردیا تھا۔

لیکن اس کے باوجود افغان فوجیوں نے بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک میجر، میجر جواد چنگیزی شہید ہوگیا۔ افغان حکومت کا یہ اقدام انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستان اپنی سرحدی حدود میں سیکیورٹی گیٹ بنا کر افغان باشندوں کا ضروری سفری دستاویزات کی بنیاد پر داخلہ ممکن بنانا چاہیے تاکہ دہشتگرد اور جرائم پیشہ افراد کی آمد کو روکا جائے اس صورتحال میں افغان حکومت کی ایما پر افغان فوجیوں نے فائرنگ کرکے پر امن ماحول کو اور پاکستان کے اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے۔

بعض حلقے یہ الزام بھی عائد کررہے ہیں کہ بھارت نے ایک سازش کے تحت افغان فوجیوں کو فائرنگ کے لیے اکسایا تھا۔ بہرکیف دونوں جانب سے سیاسی اور فوجی قیادت نے بگڑی ہوئی صورت کو فوری طور پر سنبھال لیا۔ اور تادم تحریر طورخم پر فائر بندی اور سفید پرچم لہرا دیے گئے ہیں اور گیٹ کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ پاک افغان سرحد پہ کشیدگی ختم کرانے میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر دفاع خواجہ آصف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کردار نہایت اہم ہے۔ افغان قیادت خصوصاً افغان سفیر بھی مسلسل رابطے میں رہے۔

مذکورہ تجزیے کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت پوری طرح چوکس اور فعال ہے۔ دونوں میں زبردست ہم آہنگی ہے اور بیشتر فیصلے مل جل کر کیے جارہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کو مسلسل مانیٹر کیاجارہا ہے۔ دشمن کے نیٹ ورک کا ارض پاک سے صفایا کردیا گیا ہے۔ دہشتگردوں کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور اب انھیں کسی قیمت پرواپس آنے نہیں دیں گے۔

پاکستان نے برسوں کے بعد امریکا کو یہ احساس دلایا ہے کہ ہم اپنے قومی مفاد میں جرأت مندانہ انداز سے فیصلے کریں گے اور بلاجواز امریکی مطالبات کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر پاکستان کے قومی مفاد اور خودمختاری کو نظر انداز کیا گیا تو پاکستان جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے یہ فیصلے پاکستان کی تاریخ کا سنہرا باب ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں