قلی کی قسمت
سالہا سال سے رائج ٹھیکیداری نظام کی چکی میں بے چارہ قلی بری طرح سے پسے جا رہا ہے
ریلوے اور قلی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قلی کا وجود ریلوے کے لیے لازم و ملزوم بلکہ ناگزیر ہے۔ مگر وطن عزیز میں قلی کا حال ریلوے سے بھی بدتر ہے۔ قلی وہ مخلوق ہے جو ریل مسافروں کا بوجھ اپنے ناتواں جسم پر اٹھاتی ہے، مگر جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ بقول غالب:
پڑیے گر بیمار تو کوئی ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
سالہا سال سے رائج ٹھیکیداری نظام کی چکی میں بے چارہ قلی بری طرح سے پسے جا رہا ہے۔ ریلوے ورکرز کی باقاعدہ ایک ٹریڈ یونین ہے جو ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔ لیکن بدقسمت قلیوں کی کوئی تنظیم نہیں جو ان کی حمایت کرے اور ان کے حالات زندگی تبدیل کرنے کی جانب توجہ مبذول کرائے۔ اس کے نتیجے میں قلیوں کے حالات نسل در نسل بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسی کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ قلیوں کی حالت زار پر رحم اور ترس کھائے۔
ایسے مایوس کن حالات میں یہ خبر موسم بہار کی ہوا کے تازہ جھونکے سے کم نہیں کہ قلیوں کے ناگفتہ بہ حالات بھی تبدیل ہونے والے ہیں اور انھیں بھی چوٹ لگ جانے یا بیمار پڑ جانے کے بعد معاوضے کے ساتھ چھٹی ملا کرے گی، نئی وردی پہننے کے لیے ملے گی، اور ریسٹ روم کے علاوہ بعض اور سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان ریلویز کی انتظامیہ تمام بڑے بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر ایک نیا نظام متعارف کرانے والی ہے۔
اگر یہ خبر درست ہے تو مسیحائے پاکستان ریلوے خواجہ سعد رفیق زبردست مبارکباد اور خراج تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ پاکستان ریلوے کی تاریخ میں یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہوگا۔ پاکستان ریلوے اتھارٹیز کا کہنا ہے کہ ان کے نئے منصوبے کا مقصد قلیوں کو ٹھیکیداروں کے استحصال سے نجات دلانا ہے۔ لاہور میں واقع پاکستان ریلویز کے ہیڈ کوارٹرز کے اعلیٰ افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ برسوں پرانے اس استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جس کی چکی میں قلی مدت دراز سے بری طرح پس رہے ہیں۔
قلیوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں اپنی کل آمدنی کا 27 فیصد ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے جب کہ یہ قلی پاکستان ریلویز کو سالانہ 20 ملین روپے کما کر دیتے ہیں۔
خون پسینے کی کمائی کی یہ اچھی خاصی بڑی رقم ہے۔ لیکن نئے منصوبے پر کلی عملدرآمد ہوجانے کے بعد قلیوں کی کمائی کی یہ ساری رقم ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے منہ میں گھی شکر۔
باور کیا جاتا ہے کہ ریلوے کے نئے انتظامات کے تحت پاکستان ریلویز کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار کے ہر بڑے ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کے آرام کے لیے دو باسہولت ریسٹ رومز کا بندوبست کرے، جہاں قلی اپنی تھکن اتار کر تازہ دم ہوسکیں۔ ان میں سے ایک کمرہ مکمل طور پر آرام کے لیے ہوگا جب کہ دوسرا کامن روم کے طور پر ہوگا۔ ان کمروں میں بجلی کے پنکھوں اور واٹر کولرز کی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ کامن روم میں قلیوں کی تفریح کے لیے ٹی وی سیٹ بھی مہیا کیا جائے گا جب کہ indoor Games کا بندوبست اس کے علاوہ ہوگا۔ نیز کامن روم میں بینچیں اور میزیں بھی مہیا کی جائیں گی۔ جن جگہوں پر قلی ریل گاڑیوں کی آمد کا انتظار کرتے ہیں وہاں بھی بینچیں فراہم کی جائیں گی۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان ریلوے کی موجودہ انتظامیہ جہاں ریلوے کے حالات سدھارنے پر توجہ دے رہی ہے وہاں اسے قلیوں کی فلاح و بہبود کا بھی احساس ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں اب ان بے زبانوں کی قسمت بھی جاگنے والی ہے۔
شنید یہ ہے کہ نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کنٹریکٹر کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا جائے گا جو دو سال کے عرصے کے لیے قلی فراہم کرے گا اور یہ معاہدہ مزید ایک سال کے لیے قابل توسیع ہوگا۔ مقرر کردہ ٹھیکیدار کسی بھی قلی کو چوٹ لگ جانے یا بیماری کی حالت میں معاوضے کی ادائیگی کا ذمے دار ہوگا، بشرطیکہ اس قلی نے اس کے ماتحت کم ازکم 6 ماہ تک خدمات انجام دی ہوں۔
مجوزہ بندوبست کے تحت قلی 500 روپے یومیہ کے حساب سے 10 چھٹیوں اور 250 روپے یومیہ کے نصف معاوضے کے حساب سے 8 سالانہ چھٹیوں کا حقدار ہوگا۔ اس کے علاوہ ٹھیکیدار قلی کو شلوار قمیص اور پگڑی پر مشتمل باقاعدہ یونیفارم بھی مہیا کرے گا۔ نئے بندوبست کے تحت قلی کی اجرت پر بھی نظرثانی کی جائے گی جس کے تحت 40 کلو وزنی سامان اٹھانے کی اجرت 50 روپے فی پھیرا ہوگی۔
اس کے علاوہ قلیوں کو باری کی بنیاد پر پارسل ڈیوٹی پر بھی لگایا جائے گا جس کے تحت ٹھیکیدار انھیں 20 روپے فی 40 کلو کے حساب سے اجرت ادا کرے گا۔ مجوزہ نئے بندوبست کے تحت ٹھیکیدار قلیوں سے ماہانہ کے بجائے مسافر کی جانب سے قلی کی ادا کی گئی فی پھیرا اجرت کا 30 فیصد وصول کرے گا۔ ریلوے انتظامیہ کے اطمینان اور تسلی کے عین مطابق کم ازکم 20 بڑی اور اس کے علاوہ متعدد چھوٹی ٹرالیوں کا بندوبست بھی کرے گا تاکہ مال ڈھونے میں آسانی ہو۔ یہ ٹرالیاں بریک لاک سسٹم سے لیس ہوں گی اور ان کا رنگ سلور گرے ہوگا اور ان پر پاکستان ریلویز کا لوگو چسپاں ہوگا۔
قلیوں کے لیے بنائے جانے والے ریسٹ رومز اور کامن رومز کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال بھی ٹھیکیدار ہی کی ذمے داری ہوگی۔ اس کے علاوہ مال بردار ٹرالیوں کی مرمت بھی ٹھیکیدار ہی کرائے گا۔
پرانے نظام کے تحت قلی کو 40 کلو وزن اٹھا کر لے جانے کی اجرت فی پھیرا 30 روپے ملتی ہے جوکہ مہنگائی کے اس دور میں بہت کم اور نامناسب ہے۔ قلی کا کام گدھے سے بھی زیادہ مشکل اور سخت ہے جس کا سارا زور اس کے سر، گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے گردن کے درد اور مہروں کے کھسکنے کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناکافی غذا اور اوپر سے بھاری بوجھ کا اٹھانا مرے پہ سو درّے کے مترادف ہے۔ یہ سب کام قلی کو بھاگتے دوڑتے ہوئے مسافروں کی بھیڑ میں انتہائی پھرتی کے ساتھ انجام دینا پڑتا ہے جس کے باعث اس کی صحت بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے ہی جواب دینے لگتی ہے۔ امید واثق ہے کہ مجوزہ نئے انتظام کے تحت قلیوں کی مدت دراز سے سوئی ہوئی قسمت جاگ جائے گی۔
پڑیے گر بیمار تو کوئی ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
سالہا سال سے رائج ٹھیکیداری نظام کی چکی میں بے چارہ قلی بری طرح سے پسے جا رہا ہے۔ ریلوے ورکرز کی باقاعدہ ایک ٹریڈ یونین ہے جو ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔ لیکن بدقسمت قلیوں کی کوئی تنظیم نہیں جو ان کی حمایت کرے اور ان کے حالات زندگی تبدیل کرنے کی جانب توجہ مبذول کرائے۔ اس کے نتیجے میں قلیوں کے حالات نسل در نسل بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسی کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ قلیوں کی حالت زار پر رحم اور ترس کھائے۔
ایسے مایوس کن حالات میں یہ خبر موسم بہار کی ہوا کے تازہ جھونکے سے کم نہیں کہ قلیوں کے ناگفتہ بہ حالات بھی تبدیل ہونے والے ہیں اور انھیں بھی چوٹ لگ جانے یا بیمار پڑ جانے کے بعد معاوضے کے ساتھ چھٹی ملا کرے گی، نئی وردی پہننے کے لیے ملے گی، اور ریسٹ روم کے علاوہ بعض اور سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان ریلویز کی انتظامیہ تمام بڑے بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر ایک نیا نظام متعارف کرانے والی ہے۔
اگر یہ خبر درست ہے تو مسیحائے پاکستان ریلوے خواجہ سعد رفیق زبردست مبارکباد اور خراج تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ پاکستان ریلوے کی تاریخ میں یہ کارنامہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہوگا۔ پاکستان ریلوے اتھارٹیز کا کہنا ہے کہ ان کے نئے منصوبے کا مقصد قلیوں کو ٹھیکیداروں کے استحصال سے نجات دلانا ہے۔ لاہور میں واقع پاکستان ریلویز کے ہیڈ کوارٹرز کے اعلیٰ افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ برسوں پرانے اس استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، جس کی چکی میں قلی مدت دراز سے بری طرح پس رہے ہیں۔
قلیوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں اپنی کل آمدنی کا 27 فیصد ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے جب کہ یہ قلی پاکستان ریلویز کو سالانہ 20 ملین روپے کما کر دیتے ہیں۔
خون پسینے کی کمائی کی یہ اچھی خاصی بڑی رقم ہے۔ لیکن نئے منصوبے پر کلی عملدرآمد ہوجانے کے بعد قلیوں کی کمائی کی یہ ساری رقم ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے منہ میں گھی شکر۔
باور کیا جاتا ہے کہ ریلوے کے نئے انتظامات کے تحت پاکستان ریلویز کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار کے ہر بڑے ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کے آرام کے لیے دو باسہولت ریسٹ رومز کا بندوبست کرے، جہاں قلی اپنی تھکن اتار کر تازہ دم ہوسکیں۔ ان میں سے ایک کمرہ مکمل طور پر آرام کے لیے ہوگا جب کہ دوسرا کامن روم کے طور پر ہوگا۔ ان کمروں میں بجلی کے پنکھوں اور واٹر کولرز کی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ کامن روم میں قلیوں کی تفریح کے لیے ٹی وی سیٹ بھی مہیا کیا جائے گا جب کہ indoor Games کا بندوبست اس کے علاوہ ہوگا۔ نیز کامن روم میں بینچیں اور میزیں بھی مہیا کی جائیں گی۔ جن جگہوں پر قلی ریل گاڑیوں کی آمد کا انتظار کرتے ہیں وہاں بھی بینچیں فراہم کی جائیں گی۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان ریلوے کی موجودہ انتظامیہ جہاں ریلوے کے حالات سدھارنے پر توجہ دے رہی ہے وہاں اسے قلیوں کی فلاح و بہبود کا بھی احساس ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں اب ان بے زبانوں کی قسمت بھی جاگنے والی ہے۔
شنید یہ ہے کہ نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کنٹریکٹر کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا جائے گا جو دو سال کے عرصے کے لیے قلی فراہم کرے گا اور یہ معاہدہ مزید ایک سال کے لیے قابل توسیع ہوگا۔ مقرر کردہ ٹھیکیدار کسی بھی قلی کو چوٹ لگ جانے یا بیماری کی حالت میں معاوضے کی ادائیگی کا ذمے دار ہوگا، بشرطیکہ اس قلی نے اس کے ماتحت کم ازکم 6 ماہ تک خدمات انجام دی ہوں۔
مجوزہ بندوبست کے تحت قلی 500 روپے یومیہ کے حساب سے 10 چھٹیوں اور 250 روپے یومیہ کے نصف معاوضے کے حساب سے 8 سالانہ چھٹیوں کا حقدار ہوگا۔ اس کے علاوہ ٹھیکیدار قلی کو شلوار قمیص اور پگڑی پر مشتمل باقاعدہ یونیفارم بھی مہیا کرے گا۔ نئے بندوبست کے تحت قلی کی اجرت پر بھی نظرثانی کی جائے گی جس کے تحت 40 کلو وزنی سامان اٹھانے کی اجرت 50 روپے فی پھیرا ہوگی۔
اس کے علاوہ قلیوں کو باری کی بنیاد پر پارسل ڈیوٹی پر بھی لگایا جائے گا جس کے تحت ٹھیکیدار انھیں 20 روپے فی 40 کلو کے حساب سے اجرت ادا کرے گا۔ مجوزہ نئے بندوبست کے تحت ٹھیکیدار قلیوں سے ماہانہ کے بجائے مسافر کی جانب سے قلی کی ادا کی گئی فی پھیرا اجرت کا 30 فیصد وصول کرے گا۔ ریلوے انتظامیہ کے اطمینان اور تسلی کے عین مطابق کم ازکم 20 بڑی اور اس کے علاوہ متعدد چھوٹی ٹرالیوں کا بندوبست بھی کرے گا تاکہ مال ڈھونے میں آسانی ہو۔ یہ ٹرالیاں بریک لاک سسٹم سے لیس ہوں گی اور ان کا رنگ سلور گرے ہوگا اور ان پر پاکستان ریلویز کا لوگو چسپاں ہوگا۔
قلیوں کے لیے بنائے جانے والے ریسٹ رومز اور کامن رومز کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال بھی ٹھیکیدار ہی کی ذمے داری ہوگی۔ اس کے علاوہ مال بردار ٹرالیوں کی مرمت بھی ٹھیکیدار ہی کرائے گا۔
پرانے نظام کے تحت قلی کو 40 کلو وزن اٹھا کر لے جانے کی اجرت فی پھیرا 30 روپے ملتی ہے جوکہ مہنگائی کے اس دور میں بہت کم اور نامناسب ہے۔ قلی کا کام گدھے سے بھی زیادہ مشکل اور سخت ہے جس کا سارا زور اس کے سر، گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے گردن کے درد اور مہروں کے کھسکنے کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناکافی غذا اور اوپر سے بھاری بوجھ کا اٹھانا مرے پہ سو درّے کے مترادف ہے۔ یہ سب کام قلی کو بھاگتے دوڑتے ہوئے مسافروں کی بھیڑ میں انتہائی پھرتی کے ساتھ انجام دینا پڑتا ہے جس کے باعث اس کی صحت بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے ہی جواب دینے لگتی ہے۔ امید واثق ہے کہ مجوزہ نئے انتظام کے تحت قلیوں کی مدت دراز سے سوئی ہوئی قسمت جاگ جائے گی۔