الیکشن کمیشن کی ’ تشکیل نو ‘
الیکشن اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن لازم وملزوم ہیں۔
KARACHI:
سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کا تقرراگر متفقہ طور پر نہ ہوا تو اس کے نتیجہ میں پھر وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ، جو2013 ء کے الیکشن کے بعد پیداہوئی تھی اوراب تک ختم نہیں ہو سکی ہے ۔ پس منظر ان کے بیان کا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی ارکان اپنی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو چکے ہیں ۔
لیکن نئے ارکان کے تقررکے لیے12 ارکان پر مشتمل جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ، اس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں پارٹیوں کی نمایندگی نہیں ۔ پارلیمانی کمیٹی میں6 ارکان حکومت کے ہیں ۔ اپوزیشن نے جو6 ارکان نامزد کیے ہیں ، ان میں سے 3 ارکان پیپلزپارٹی کے ہیں ۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کے تقرر میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس فیصلہ کن اکثریت ہے اوراگر دونوں پارٹیاں ملی بھگت کر لیں تو2013 ء کی طرز پر اپنی مرضی کے ارکان کمیشن منتخب کرا سکتی ہیں ۔
تاہم آئین کا آرٹیکل 2 A ) 213 ( پارلیمانی کمیٹی کو اس امرکا پابند کرتا ہے کہ وہ وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈرکی طرف سے نئے چارارکان کمیشن کے لیے تجویز کیے گئے افراد کو طلب کرے گی ، ان کی انتظامی اہلیت جانچنے کے لیے ان کا انٹرویو کرے گی۔ آئین میں اس طریقِ کار کوHearing سے تعبیرکیاگیا ہے ۔2013 ء میں الیکشن کمیشن کی تشکیل کے وقت بادی النظر میں یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی پارلیمانی کمیٹی یہ آئینی تقاضا پورا کرنے میں کام یاب ہوتی ہے یا نہیں ۔
الیکشن اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن لازم وملزوم ہیں۔ آئینِ پاکستان میں منصفانہ اور صاف، شفاف الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فرض عین قرار دیاگیا ہے۔ الیکشن کمیشن مگر یہ فرض تب ہی ادا کر سکتا ہے ، جب اسکو پارلیمنٹ کے اندراور باہر تمام پارٹیوں کا مکمل اعتماد حاصل ہو، بصورت دیگر اس کے لیے اس فرض کی ادائیگی مشکل ہی نہیں ، ناممکن بھی ہے ۔ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان پر تمام پارٖٹیوں کا اتفاق رائے اس لیے بھی ضروری ہے کہ18ویں ترمیم کے تحت آئینی طورپر چیف الیکشن کمیشن اور چاروں ارکان کا مساوی طور پر ایک ایک ووٹ ہے اور اختلاف رائے کی صورت میں چیف الیکشن کمیشن اکثریتی رائے کا پابند ہے ،یعنی اگر تین ارکان کمیشن مستقل طور پر کسی پارٹی کے حق میں یا اس کے خلاف ایکا کرلیں ، تو پھر چیف الیکشن کمیشن بھی کچھ نہیں کر سکتا ہے ۔
2013 ء کے الیکشن کے لیے پیپلزپارٹی حکومت نے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر مقررکیا تو شروع شروع میں ہر طرف سے'' سب اچھا ہے'' کی صدائیں بلند ہوئی تھیں، درآں حالیکہ'' سب اچھا نہیں تھا ''۔ جسٹس ( ر ) فخرالدین ابراہیم کو ن لیگ نے بطور چیف الیکشن کمیشن نامز د کیا تھا ۔ پیپلزپارٹی ہچکچاہٹ کا شکار تھی کہ اس کی طرف سے چیف الیکشن کمیشن کے لیے جسٹس ( ر ) منیر اے شیخ، جسٹس ( ر) امیرالملک مینگل اور جسٹس ( ر) قربان علوی کے نام تجویز کیے گیے تھے۔ فخرالدین جی ابراہیم پرپیپلزپارٹی کے تحفظات کے باعث ہی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو یہ نام 12ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنا پڑے تھے ۔
ادھر چیف الیکشن کمیشن کا عہدہ خالی ہونے کے باعث افتخار محمد چوہدری اپنے دست راست جسٹس شاکراللہ جان کا بطورقائم مقام چیف الیکشن کمیشن تقرر کر چکے تھے ، جو پیپلزپارٹی کے لیے بڑے خطرناک مضمرات لیے ہوئے تھا ۔ لہٰذا ،آصف زرداری نے بہتر یہی سمجھا کہ چیف الیکشن کمیشن کی خالی اسامی کو فخر الدین جی ابراہیم سے فی الفور پُر کر دیں۔ یہ تھا وہ پسِ منظر ، جس میں جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کا بطور چیف الیکشن کمیشن تقرر ہوا تھا ۔اب ذرا الیکشن کمیشن کے 4 سابق ارکان پر نظر ڈال لیں ۔ پارلیمانی کمیٹی ، جس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کواکثریت حاصل تھی جس طرح کہ آج ہے ، کی سفارش پر پنجاب سے جسٹس ( ر) ریاض کیانی ، سندھ سے جسٹس ( ر) محمد روشن خان رئیسانی ، خیبر پختون خوا سے جسٹس ( ر) شہزاد اکبر خان اور بلوچستان سے جسٹس ( ر) فضل الرحمان الیکشن کمیشن کے چارمستقل رکن چُنے گئے ، جن پر بعض پارٹیوں کو سخت تحفظات تھے ۔
یہ تحفظات ضمنی انتخابات کے بعد مزید بڑھ گئے۔ ضمنی انتخابات میںپنجاب اورسندھ کی حکومتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے وہ سارے انتظامی حربے استعمال کیے ،جوبادی النظر میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں ۔ حکومت مخالف امیدواروں کو یہ شکایت بھی رہی کہ انتخابی دھاندلی کے ضمن میں ان کی پیٹیشنز کو الیکشن کمیشن میں کثرتِ رائے کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کے تحت مستردکر دیا گیا ۔ مسلم لیگ ق نے اپنے پارٹی اجلاس میں الیکشن کمیشن کے خلاف باقاعدہ قرارداد منظورکی ۔ چوہدری پرویزالٰہی نے یہاں تک کہا کہ الیکشن کمیشن ن لیگ کے انتخابی مفادات کا نگران بن چکا ہے ۔ ان کے بعد عمران خان نے بھی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پرانگلی اٹھا دی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی مایوس کن حد تک ناقص رہی ہے ۔ لہٰذا منصفانہ اورصاف شفاف الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن میں فوری تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔اسلام آباد لانگ مارچ میں طاہرالقادری نے بھی الیکشن کمیشن کو مسترد کردیا ۔ان کی رائے یہ تھی کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرکے تمام پارٹیوں کی مشاورت سے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے کیونکہ الیکشن کمیشن کو منتخب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو اکثریت حاصل تھی اور ان کی مرضی کے بغیر الیکشن کمیشن میں کوئی ایک رکن بھی تعینات نہیں ہو سکتا تھا ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ، لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کی کینیڈا کی شہریت کو بنیاد بنا کر ان کی پیٹیشن ناقابل سماعت قر ار دے دی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے موقف کو مزید تقویت پہنچا دی ۔ لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ 2013 ء کے الیکشن کے بعد پھرجو کچھ ہوا، وہ 1985ء سے 2013 ء کے درمیان کبھی دیکھنے میں نہی آیا ۔ چیف الیکشن کمیشن فخر الدین جی ابراہیم الیکشن کے فوراً بعد ہی مستعفی ہو گئے ، جب کہ باقی چار ارکان سے بھی برابر استعفا کا مطالبہ کیا جا تا رہا ہے ۔
الیکشن کمیشن کی تشکیل پر تمام آئینی شقیں الیکشن کمیشن کے اس مقصدِ وجود کے تابع ہیں کہ الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار بنیادوں پر صا ف شفاف الیکشن کرانے کا بھرپور طورپر اہل ہونا چاہیے ۔ یہ مقصدِ وجود ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ الیکشن کمیشن کی اہلیت اورغیر جانبداری پر پارلیمنٹ میں موجود سب پارٹیاں یکساں طور پر اعتماد نہ رکھتی ہوں ۔
لہذا ، سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کا تقرراگر متفقہ طور پر نہ ہوا تو اس کے نتیجہ میں پھر وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ، جو2013 ء کے الیکشن کے بعد پیداہوئی تھی ۔ بعینہ ان تمام پارٹیوں کو ، جو 2013 ء کے الیکشن کمشین کے ارکان پراحتجاج کرتی رہی ہیں،یہ سمجھنا ہو گا کہ یہی وقت ہے کہ جب وہ مشترکہ طور پرجدرجہد کرکے غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا قیام یقینی بنا سکتی ہیں ۔ یہ وقت اگرگزر گیا تو پھر پہلے کی طرح لانگ مارچ کرتی ، دھرنا دیتی اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔ شاعر نے کہا تھا ،
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سر ِ محفل کوئی خورشید اب کے
سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کا تقرراگر متفقہ طور پر نہ ہوا تو اس کے نتیجہ میں پھر وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ، جو2013 ء کے الیکشن کے بعد پیداہوئی تھی اوراب تک ختم نہیں ہو سکی ہے ۔ پس منظر ان کے بیان کا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی ارکان اپنی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو چکے ہیں ۔
لیکن نئے ارکان کے تقررکے لیے12 ارکان پر مشتمل جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ، اس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں پارٹیوں کی نمایندگی نہیں ۔ پارلیمانی کمیٹی میں6 ارکان حکومت کے ہیں ۔ اپوزیشن نے جو6 ارکان نامزد کیے ہیں ، ان میں سے 3 ارکان پیپلزپارٹی کے ہیں ۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کے تقرر میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس فیصلہ کن اکثریت ہے اوراگر دونوں پارٹیاں ملی بھگت کر لیں تو2013 ء کی طرز پر اپنی مرضی کے ارکان کمیشن منتخب کرا سکتی ہیں ۔
تاہم آئین کا آرٹیکل 2 A ) 213 ( پارلیمانی کمیٹی کو اس امرکا پابند کرتا ہے کہ وہ وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈرکی طرف سے نئے چارارکان کمیشن کے لیے تجویز کیے گئے افراد کو طلب کرے گی ، ان کی انتظامی اہلیت جانچنے کے لیے ان کا انٹرویو کرے گی۔ آئین میں اس طریقِ کار کوHearing سے تعبیرکیاگیا ہے ۔2013 ء میں الیکشن کمیشن کی تشکیل کے وقت بادی النظر میں یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی پارلیمانی کمیٹی یہ آئینی تقاضا پورا کرنے میں کام یاب ہوتی ہے یا نہیں ۔
الیکشن اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن لازم وملزوم ہیں۔ آئینِ پاکستان میں منصفانہ اور صاف، شفاف الیکشن کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فرض عین قرار دیاگیا ہے۔ الیکشن کمیشن مگر یہ فرض تب ہی ادا کر سکتا ہے ، جب اسکو پارلیمنٹ کے اندراور باہر تمام پارٹیوں کا مکمل اعتماد حاصل ہو، بصورت دیگر اس کے لیے اس فرض کی ادائیگی مشکل ہی نہیں ، ناممکن بھی ہے ۔ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان پر تمام پارٖٹیوں کا اتفاق رائے اس لیے بھی ضروری ہے کہ18ویں ترمیم کے تحت آئینی طورپر چیف الیکشن کمیشن اور چاروں ارکان کا مساوی طور پر ایک ایک ووٹ ہے اور اختلاف رائے کی صورت میں چیف الیکشن کمیشن اکثریتی رائے کا پابند ہے ،یعنی اگر تین ارکان کمیشن مستقل طور پر کسی پارٹی کے حق میں یا اس کے خلاف ایکا کرلیں ، تو پھر چیف الیکشن کمیشن بھی کچھ نہیں کر سکتا ہے ۔
2013 ء کے الیکشن کے لیے پیپلزپارٹی حکومت نے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر مقررکیا تو شروع شروع میں ہر طرف سے'' سب اچھا ہے'' کی صدائیں بلند ہوئی تھیں، درآں حالیکہ'' سب اچھا نہیں تھا ''۔ جسٹس ( ر ) فخرالدین ابراہیم کو ن لیگ نے بطور چیف الیکشن کمیشن نامز د کیا تھا ۔ پیپلزپارٹی ہچکچاہٹ کا شکار تھی کہ اس کی طرف سے چیف الیکشن کمیشن کے لیے جسٹس ( ر ) منیر اے شیخ، جسٹس ( ر) امیرالملک مینگل اور جسٹس ( ر) قربان علوی کے نام تجویز کیے گیے تھے۔ فخرالدین جی ابراہیم پرپیپلزپارٹی کے تحفظات کے باعث ہی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو یہ نام 12ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنا پڑے تھے ۔
ادھر چیف الیکشن کمیشن کا عہدہ خالی ہونے کے باعث افتخار محمد چوہدری اپنے دست راست جسٹس شاکراللہ جان کا بطورقائم مقام چیف الیکشن کمیشن تقرر کر چکے تھے ، جو پیپلزپارٹی کے لیے بڑے خطرناک مضمرات لیے ہوئے تھا ۔ لہٰذا ،آصف زرداری نے بہتر یہی سمجھا کہ چیف الیکشن کمیشن کی خالی اسامی کو فخر الدین جی ابراہیم سے فی الفور پُر کر دیں۔ یہ تھا وہ پسِ منظر ، جس میں جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کا بطور چیف الیکشن کمیشن تقرر ہوا تھا ۔اب ذرا الیکشن کمیشن کے 4 سابق ارکان پر نظر ڈال لیں ۔ پارلیمانی کمیٹی ، جس میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کواکثریت حاصل تھی جس طرح کہ آج ہے ، کی سفارش پر پنجاب سے جسٹس ( ر) ریاض کیانی ، سندھ سے جسٹس ( ر) محمد روشن خان رئیسانی ، خیبر پختون خوا سے جسٹس ( ر) شہزاد اکبر خان اور بلوچستان سے جسٹس ( ر) فضل الرحمان الیکشن کمیشن کے چارمستقل رکن چُنے گئے ، جن پر بعض پارٹیوں کو سخت تحفظات تھے ۔
یہ تحفظات ضمنی انتخابات کے بعد مزید بڑھ گئے۔ ضمنی انتخابات میںپنجاب اورسندھ کی حکومتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے وہ سارے انتظامی حربے استعمال کیے ،جوبادی النظر میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں ۔ حکومت مخالف امیدواروں کو یہ شکایت بھی رہی کہ انتخابی دھاندلی کے ضمن میں ان کی پیٹیشنز کو الیکشن کمیشن میں کثرتِ رائے کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کے تحت مستردکر دیا گیا ۔ مسلم لیگ ق نے اپنے پارٹی اجلاس میں الیکشن کمیشن کے خلاف باقاعدہ قرارداد منظورکی ۔ چوہدری پرویزالٰہی نے یہاں تک کہا کہ الیکشن کمیشن ن لیگ کے انتخابی مفادات کا نگران بن چکا ہے ۔ ان کے بعد عمران خان نے بھی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پرانگلی اٹھا دی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی مایوس کن حد تک ناقص رہی ہے ۔ لہٰذا منصفانہ اورصاف شفاف الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن میں فوری تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔اسلام آباد لانگ مارچ میں طاہرالقادری نے بھی الیکشن کمیشن کو مسترد کردیا ۔ان کی رائے یہ تھی کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرکے تمام پارٹیوں کی مشاورت سے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے کیونکہ الیکشن کمیشن کو منتخب کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو اکثریت حاصل تھی اور ان کی مرضی کے بغیر الیکشن کمیشن میں کوئی ایک رکن بھی تعینات نہیں ہو سکتا تھا ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ، لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان کی کینیڈا کی شہریت کو بنیاد بنا کر ان کی پیٹیشن ناقابل سماعت قر ار دے دی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے موقف کو مزید تقویت پہنچا دی ۔ لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ 2013 ء کے الیکشن کے بعد پھرجو کچھ ہوا، وہ 1985ء سے 2013 ء کے درمیان کبھی دیکھنے میں نہی آیا ۔ چیف الیکشن کمیشن فخر الدین جی ابراہیم الیکشن کے فوراً بعد ہی مستعفی ہو گئے ، جب کہ باقی چار ارکان سے بھی برابر استعفا کا مطالبہ کیا جا تا رہا ہے ۔
الیکشن کمیشن کی تشکیل پر تمام آئینی شقیں الیکشن کمیشن کے اس مقصدِ وجود کے تابع ہیں کہ الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار بنیادوں پر صا ف شفاف الیکشن کرانے کا بھرپور طورپر اہل ہونا چاہیے ۔ یہ مقصدِ وجود ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ الیکشن کمیشن کی اہلیت اورغیر جانبداری پر پارلیمنٹ میں موجود سب پارٹیاں یکساں طور پر اعتماد نہ رکھتی ہوں ۔
لہذا ، سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کا تقرراگر متفقہ طور پر نہ ہوا تو اس کے نتیجہ میں پھر وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ، جو2013 ء کے الیکشن کے بعد پیداہوئی تھی ۔ بعینہ ان تمام پارٹیوں کو ، جو 2013 ء کے الیکشن کمشین کے ارکان پراحتجاج کرتی رہی ہیں،یہ سمجھنا ہو گا کہ یہی وقت ہے کہ جب وہ مشترکہ طور پرجدرجہد کرکے غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا قیام یقینی بنا سکتی ہیں ۔ یہ وقت اگرگزر گیا تو پھر پہلے کی طرح لانگ مارچ کرتی ، دھرنا دیتی اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔ شاعر نے کہا تھا ،
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھو سر ِ محفل کوئی خورشید اب کے