بھارت کے پاس جواب نہیں ہوتا

کلدیپ نیئر بھارت کے ایک بڑے کالم نگار ہیں اور ان کے کالم کا ترجمہ جو اسی اخبار میں چھپتا ہے،



کلدیپ نیئر بھارت کے ایک بڑے کالم نگار ہیں اور ان کے کالم کا ترجمہ جو اسی اخبار میں چھپتا ہے، میں شوق سے پڑھتا ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو لاشعوری طور پر کہ میرے خاندان کا تعلق دھولپور راجھستان سے تھا اور ننہیال کی جانب سے میرا تعلق اجمیر شریف یعنی پھر راجھستان سے ہی ہے اور میری پیدائش بھی اجمیر شریف میں ہوئی تھی اور کلدیپ نیئر کا تعلق پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے ہے اور جنم بھومی سے ان کے رچاؤ اور یادوں کا اظہار اکثر ان کے کالموں میں ہوتا رہتا ہے اور وہ اسے یاد بھی کرتے ہیں، جیساکہ اس کالم میں جو 25 مارچ کو شایع ہو انھوں نے اظہار کیا ہے اور عید، دیوالی، ہولی، مل کر منانے کا ذکر کیا ہے۔ تو اب کیا ہم میں مشترک ہے یہ تو قدرت جانتی ہے۔

مگر یہاں سے میرا دھیان شیخ رشید کی بلو رانی کی طرف چلا گیا، جو عمرکوٹ میں رنگ بکھیرنے صوبائی حکومت کے جلو میں پہنچے۔ ''بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے'' یہ ہم صوبائی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ جس نے عمرکوٹ کا انتخاب کیا کہ ادھر اربابوں کا زور نہیں ہے، لہٰذا ''رنگ میں بھنگ'' نہ پڑجائے، حالانکہ اگر ''بھنگ'' کا معاملہ ہو تو کون سب سے زیادہ خوش ہوگا یہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، شکارپور کو چھوڑ کر عمرکوٹ ؟ کوئی سیاسی وجہ ہی ہوگی۔ دیر کی مہرباں آتے آتے یوں کہا کہ یہ حکومت یا وہی شیخ رشید والی بات کس منہ سے اس تقریب میں شرکت کرسکے۔ لاڑکانہ، شکارپور سے پنوں عاقل تک کے ہندوؤں کے ساتھ ماضی میں کیا ہوتا رہا، وہ کون بے ضمیر لوگ تھے جو ان کے بچوں، جوانوں کو تاوان کے عوض رہا کرتے رہے اور زر، زن کے چکر میں اپنا نام گناہگاروں کی فہرست میں سب سے اوپر لکھواتے رہے، ہندوؤں کی عزت اور دولت کے دشمن ان علاقوں میں کون لوگ تھے؟

کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ ان علاقوں سے ہندوؤں نے بھارت ہجرت کی ہے، جو وہ 1947 میں نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ انھوں نے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران کی ہے۔ نصف صدی کے بعد قیام پاکستان کے جو اس وقت چلے گئے تھے ان کے کاروبار زمینوں پر تو یہاں کے رہنے والوں نے اس وقت ہی قبضہ کرلیا تھا اور جو ہجرت کرکے آئے تھے ہندوستان سے ان کے ہاتھ بہت کم ہی کچھ لگا، ورنہ ان کو محنت کرکے اس نصف صدی میں مقام بنانا پڑا ہے اور یہاں بھی ان کے دشمن پولیس والے بن گئے ہیں، جو سفارشی ہیں، میرٹ کا خون کرکے بھرتی کیے گئے ہیں یا نوکریاں خرید کر شہروں میں آئے ہیں اور اپنا خرچ کردہ مال منافع کے ساتھ وصول کررہے ہیں۔ وہ بڑے بڑے نام جو سیاسی کاروبار کررہے ہیں اور وراثتی سیاست کررہے ہیں سندھ کے نام پر وہ بھی اس پر خاموش ہیں۔ جب ان علاقوں کے ہندو یہاں سے بھارت جارہے تھے۔

کوئی پہنچا ان کی دستگیری کو، کسی نے تحریک چلائی ان کے لیے؟ وہ بھی سندھ کے قدیم رہنے والے تھے، اگر لفظ سندھی کہنا ضروری ہے تو سندھی تھے، ہم تو سندھ کا باشندہ کہنا اور سمجھنا ہی ایسا سمجھتے ہیں جیسے ایمان کے تحت مسلمان ہونا۔ اپنے اس کالم میں ہی کلدیپ نیئر نے اسلام میں امتیازی سلوک کے آثار کا ذکر کیا ہے، اس پر بات کرنے سے پہلے ہم ان جانے والوں کی بات مکمل کرلیں۔ یہ کون لوگ تھے؟ یہ سندھ سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔ ان کا انجام کیا ہوا؟ اپنے وطن میں بے وطن، بے سہارا ہوگئے۔

کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ سندھ کا یہ ظالم معاشرہ سب دیکھتا رہا۔ آج ہم ان کے رنگوں میں بھنگ ڈالنے پہنچ گئے ہیں۔ ان کے لیے چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے، ہولی کے موقع پر 2 مارچ کو نصف صدی کے بعد؟ ظلم کی انتہا کرنے کے بعد انھیں بے وطن کرنے کے بعد کیا سندھ میں کسی اور کی حکومت رہی ہے، مرکزی حکومت بھی اس کی ذمے دار تھے۔ اس وقت اگر صوبائی حکومت ناکام تھی تو اسے برطرف کردینا چاہیے تھا۔ اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت پاکستان کا آئین دیتا ہے، جسے لاڑکانہ کے رہنے والے نے بنایا اور منظور کروایا تھا۔ اگر پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے تو اسلام اقلیتوں، غیر مسلموں کے حق میں جنگ تک کرنے کا حکم دیتا ہے اور اگر پاکستان ایک سیکولر مملکت ہے تو سیکولر ملک میں سب کا تحفظ کرنا مملکت کا فرض ہے، بلکہ فرض اولین ہے۔

مملکت ناکام رہی کیوں کہ وہاں بھی اس پارٹی کی حکومت تھی جس کی سندھ میں حکومت تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرکز میں اس پارٹی کی حکومت ہوگی تو سندھ مادر پدر آزاد ہوجائے گا۔ سیاست دانوں کے لیے جیسا آج پنجاب ہے ان کے لیے جو حکمران ہیں، یہ کیا طرز سیاست ہے، یہ کون سی حکمرانی ہے؟ ملک کو تفریق کا شکار کیوں کرتے ہو پاکستان کے حکمرانو! یہ سارا ملک ایک ہے، ایک جسم کی طرح ۔ جب آزاد ہوئے تھے سو سال کی غلامی سے، تب تو ایک تھے، شاید اب نہیں رہے۔

جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے پاکستانی سیاست کی اور اس حمام میں دینی جماعتیں برابر کی شریک ہیں، کیوں کہ کراچی میں ایم کیو ایم پر برا وقت آیا تو سراج الحق کو 'اس میں ہمارا فائدہ ہے' کہنے میں ذرا سا بھی حجاب نہ ہوا۔ بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ کسی کے یہاں موت ہوجائے تو اس کا گھر ہم لے لیںگے، شاید اس قسم کی سوچ ہے، معذرت کے ساتھ کہ شاید کہیں یہ قانون موجود ہو ان کی سوچ کے مطابق۔ ہماری بات کو بھی ایک کالمی بات سمجھ کر ٹال دیجیے گا۔ مقصود آپ نہیں ہیں، سوچ ہے، جو اس معاشرے پنپ رہی ہے اور پروان چڑھ رہی ہے۔ دوسرے کا نقصان ہمارا فائدہ یعنی سیاست کی ٹی 20۔

کلدیپ نیئر کی باتیں ویسے تو ٹھیک ہیں، اپنے یہاں کے لحاظ سے لکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہاں چھپتا ہے مگر کبھی کبھی وہ بھی کالمی سیاست کا شکار ہوجاتے ہیں، مثلاً یہ کہ انھوں نے اس کالم میں یہ لکھا کہ قائداعظم سے پوچھا گیا کہ کیا تقسیم بہترین عمل تھا جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذہب کی لکیر کھینچ دی گئی ہے، تو انھوں نے کہا وہ کچھ نہیں کہہ سکتے، اس کا جواب تو آنے والے وقت دے گا۔ اور اس سے تجزیہ نیئر صاحب نے نکالا کہ تقسیم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب نہیں کیا۔

یہ ایک عجیب تجزیہ ہے جناب بھارت کے آج کے تمام حالات سے آنکھیں بند کرلیں۔ کلدیپ صاحب نے یہ کالم لکھا اور نظر بچانے یا چرانے کی حد کردی، جو مسلمان بھارت میں رہ گئے ان کے ساتھ بھارت کیا کررہا ہے؟ گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانوں کو پھانسی پر چڑھایا جارہا ہے، ان کی بستیوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے، کشمیریوں کا گناہ کیا ہے؟ مسلمان ہونا۔ بنگلہ دیش کیوں بنوایا؟ اس کا نام پاکستان پسند نہیں تھا۔ آج بھارت میں مسلمان دلت قوم سے بھی زیادہ ذلیل ہورہی ہیں۔ مسلمان تو گائے کی اوجھڑی بھی نہیں کھا سکتے، ورنہ موت کے گھاٹ اتار دیے جائیں گے۔

''شدھی'' کرنے کی مہم میں ناکامی کے بعد اب بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے کا حکم دیا جارہا ہے، جسے ماننے کو خود ہندو بھی تیار نہیں ہیں۔ خدا کو نہیں جانتے تو بھگوان کو مانیں، کلدیپ صاحب ایسا تو ہماری آنکھوں کو بند نہ کریں کہ ہم خود کو پیدائشی نابینا سمجھنے لگیں۔ قائداعظم جیسا لیڈر پیدا ہوا نہ ہوگا اور جو جدوجہد انھوں نے کی، ایسی جدوجہد کوئی نہیں کرسکتا۔ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر دلیل سے ایک ملک بنانا آسان کام نہیں ہے۔ اس تحریک میں مسلمان خون نے خون دیا ہے، لیا نہیں ہے۔ مسلمانوں کا خون لینے والوں میں انگریز اور بھارت کے غیر مسلم دونوں برابر کے شریک مجرم ہیں، جنھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تاریخ اور جغرافیہ بدلتا رہتا ہے، پاکستان کے حصے کی تباہی تو آچکی اور برداشت بھی کرلی پاکستان نے، اب بھارت کی باری ہے۔

25 مارچ کو بھارت کا حاضر سروس جاسوس کوئٹہ سے پکڑا گیا ہے۔ پاکستان کو کون نقصان پہنچارہا ہے کیا اس میں کچھ شبہ ہے؟ پاکستان میں مہمان افغان بھی پاکستان کے خلاف ہی کام کررہے ہیں۔ افغان حکومت کس طرح اور ان کی پشت پر بھارت ہے۔ کلدیپ صاحب کیا یہ سیاست اور حکومت ہے بھارت کی کہ پڑوسیوںکا جینا حرام کردو اور ہمارے عاقبت نااندیش پھر بھی ہر بار ان سے ہاتھ ملانے پہنچ جاتے ہیں۔ کون زیادہ بہتر قوم ہے، وہ جس کو زخم لگایا جائے گا وہ بھی دشمن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے یا وہ جو ایک ہاتھ سے تو ہاتھ تھامے اور دوسرے ہاتھ سے دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دے۔ اگر جواب نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں، اکثر بھارت کے پاس جواب نہیں ہوتا۔ سوچیے گا ضرور۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں