واہ چوہدری صاحب واہ
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری اعتزاز احسن صاحب ایک تجربہ کار قانون دان اور بڑے ذہین سیاستدان ہیں،
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری اعتزاز احسن صاحب ایک تجربہ کار قانون دان اور بڑے ذہین سیاستدان ہیں، راقم کی ان سے دیرینہ نیاز مندی ہے لاہور یا گوجرانوالہ ڈویژن میں تعیناتی کے دوران جب بھی چوہدری صاحب نے کسی کام کے سلسلے میں رابطہ کیا تو ہمیشہ ان کی عزّت و تکریم کا خیال رکھاگیا۔ اولڈ راوینز کی سالانہ تقریبات میں کئی بار اعتزاز احسن صاحب اور راقم اسٹیج پر اکٹھے ہوئے اور انھوں نے ناچیز کی تقریر اوراس میں humourاورatire کو فراخدلی سے سراہا ۔
یہ بات تو ان کے مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ ایک ماہر Strategistہیں۔ کسی اِشو کی نزاکت اور اہمیّت کو پرکھ لیتے ہیں۔ اہم ترین لمحات کو مٹھی میں جکڑ لینے کا فن خوب جانتے ہیں۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل مشّرف کو پاکستان کے قومی ادارے تباہ کرنے کے جرم میں قدرت نے جب سزا دینے کا فیصلہ کرلیا تو افتخار چوہدری کو وسیلہ بنادیاگیا۔ سابق چیف جسٹس کے خلاف تیار کیے گئے ریفرنس کے کچھ الزامات بالکل صحیح تھے ۔
اگرصرف عدالت میں اس ریفرنس کا دفاع کیا جاتا تو میرٹ پر افتخار چوہدری صاحب کا کیس کمزور تھا مگر اعتزاز احسن صاحب نے کیس عدالت کے بجائے سڑکوں پر لڑنے کی حکمت عملی تشکیل دی جس نے پانسہ پلٹ دیا، چیف جسٹس بحال ہوگئے ، طاقت کے نشے میں بدمست ڈکٹیٹر منہ کے بل آگرا اورچوہدری اعتزاز احسن شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ گئے ۔ ایک غیر فعال چیف جسٹس کو فعال بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد اعتزاز احسن صاحب خود غیر فعال ہوگئے اور آہستہ آہستہ اسکرین اور نظروں سے اوجھل ہونے لگے۔
ان کی پارٹی کرپشن میں ملوّث ہونے کی وجہ سے بدنام ہوگئی۔ قائدین کے اثاثوں کا گراف جوں جوں اوپر چڑھتا گیا عوام کی نظروں سے وہ نیچے گرتی چلی گئی۔پارٹی جب بوجھ بن جائے تو مقبول سیاستدانوں کو بھی لے ڈوبتی ہے لہٰذا چوہدری صاحب قومی اسمبلی کا الیکشن ہارگئے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری صاحب کو توقع تھی کہ میاں صاحب لاہور سے ایک سیٹ انھیں تحفتاً دے دیںگے لیکن جب الیکشن میں ضمانت بھی نہ بچ سکی تو میاں صاحبان سے ان کے تعلقات خراب ہوگئے اور وہ ان کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ سینیٹ میں آنے کے کچھ عرصہ بعد 2014ء کے دھرنوں کے دوران انھیں پارلیمنٹ سے خطاب کا موقع ملا تو انھوں نے اپناسارا غصہ وزیرِاعظم اور حکومت پر نکال دیا۔
پانامہ میں بنائی جانے والی آف شور کمپنیوں کی خبر منظرِ عام پر آئی تو اعتزاز صاحب نے اس اِشو کوفوراً اپنی مٹھی میں بند کرلیا پھر قبلہ زرداری صاحب سے مِلتے ہی انھوں نے ایک ٹی وی چینل کے جوگی کی زبان میں کہا "سائیں! تینوں تے ساری پارٹی نوں چوروں سادھ بنادیاں تے مَنّے جوگیا تیرا ای کمال اے" (سائیں !آپ کا اور پارٹی کاموجودہ منفی تاثر تبدیل کرکے رکھ دوں یعنی آپکو ملزم سے مدعی بنادوں تو مان جاؤ گے ناںمیرا کمال ) سائیں کو اور کیا چاہیے تھا ۔ انھوں نے یہی کہاہوگا کہ "چوہدری کم تے اوکھا اے پر کرکے وخا جو منگیں گا۔دیاں گا" (چوہدری کام تو مشکل ہے مگر کرکے دکھاؤ تو جو مانگو گے وہ دونگا)۔
اور پھر چوہدری صاحب نے ایک ماہر حکمت کار کی طرح پانامہ لیکس کو اسطرح استعمال کیا کہ مجھے اپنے قریبی گاؤں کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ گاؤں سے بھینس چوری ہوگئی تو مدعی نے اسی گاؤں کے اشرف عرف اچھّوپر شک ظاہر کیا ۔گاؤں کی تین رکنی پنچایت نے اچھّوکو طلب کرلیا۔ ملزم اقرارِ جرم کرنے ہی والا تھا کہ پنچایت کے ایک رکن نے کہا "دیکھیں گاؤں میں اس رات پہرہ لگوانے کی ذمے داری چوہدری خدابخش نمبردار کی تھی لہٰذا اس چوری کی ذمے داری اُس پر بھی آتی ہے"۔ اتنا سننا تھا کہ اچھّواور اس کے سپورٹرز یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ "فیصلہ ہوگیا ہے۔ چوہدری خدا بخش کے خلاف فیصلہ ہوگیا ہے "۔
اچھّو کے شریکِ جرم شیدے نے کوئی بات کرنے کی کوشش کی تو اچّھو نے اسے چپت رسید کرکے کہا اوئے نامرادا ! چپ رہ، بچنا ہے تو شور مچاتاجا کہ "چوہدری خدا بخش ذمے دار ہے" اور "انصاف ہوگیا ہے" تیری اور میری بچت اسی میں ہے کہ شور کی آواز کم نہ ہو ۔ چند روز تو شور مچانے والے" ذمّے دار" کالفظ استعمال کرتے رہے لیکن رفتہ رفتہ "ذمّہ دار" کی جگہ "چور" نے لے لی اور ہر طرف یہ بات پھیل گئی یا پھیلادی گئی کہ پنچایت نے چوہدری خدابخش کو چور قرار دے دیا ہے اور پھراتنا شور مچایا گیا کہ لوگوں کو اچّھو بھول گیا اور چوہدری خدا بخش یاد رہ گیا۔
چند دنوں میں ہی حالات ایسے ہوگئے کہ اچھّو اور شیدا گاؤں میں سفید کلف شدہ کپڑے پہن کر اکٹر کر پھرنے لگے اور چوری کے بارے میں کوئی پوچھتا تو وہ باآواز بلند کہتے کہ "پنچایت نے چوہدری خدابخش کو چور قرار دے دیا ہے، اب خدا بخش بچ نہیں سکتا، خدا بخش کو حساب دینا پڑے گا "۔ پیپلز پارٹی کے اچّھو اور شیدے کلف شدہ کپڑے پہن کر جو شور مچارہے ہیں کہ "اب خدا بخش بچ نہیں سکتا" یہ چوہدری اعتزاز احسن جیسے جوگیوں کا ہی کمال ہے جو یہ جانتے ہیںکہ شور کم ہوا تو انگلیاں پھر ان کے رہبر و رہنما کی جانب اٹھ کھڑی ہوںگی۔
حکومت کے نادان مشیروں نے پہلے وزیرِ اعظم سے (ان کا کہیں بھی نام نہ ہونے کے باوجود) تقریر کرواڈالی۔ اب وزراء شاہ جی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر اگر یہ توقع کرتے ہیںکہ پیپلز پارٹی پانامہ پر جارحانہ روّیہ چھوڑ دے گی تو یہ ایک بچگانہ توقع ہے کیونکہ انھیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پانامہ قبلہ زرداری صاحب کے لیے ایک خدائی تحفہ ہے، پانامہ کے شور نے انھیں چور سے سادھ بنادیا ہے اس شور سے وہ پچھلے بیس سالوں میں پہلی بار کسی اور پر انگلی اٹھانے کے قابل ہوئے ہیں۔قبلہ زرداری صاحب سسٹم کا خاتمہ ہرگز نہیں چاہتے کیونکہ اسی سسٹم میں وہ سندھ کے حکمران ہیں اور حکمرانی کی "فیوض وبرکات" خوب سمیٹ رہے ہیں مگر وہ پانامہ پر شور کم نہیں کریں گے کیونکہ پانامہ کے شور میں ہی ان کی بقاء ہے اسی شور نے ان کا اسٹیٹس تبدیل کرکے ملزم سے مدعی بنا دیا ہے۔ اس پرچوہدری صاحب اپنے لیڈر قبلہ زرداری صاحب سے واقعی دادوصول کرنے کے حقدار ہیں۔
مگر آج اپنے دورۂ ایران کے مشاہدات روک کرکسی دوسرے موضوع پر لکھنے کی وجہ پانامہ لیکس کی تقدیر نہیں چوہدری صاحب کی تقریر ہے جو انھوں نے سینیٹ میں آئی جی آزادکشمیر کے خلاف کی ہے جسمیں انھوں نے ببانگِ دھل کہا ہے کہ "آئی جی آزادکشمیر کوفوری طور پر تبدیل کیا جائے کیونکہ وہ ایک جانبدار اورنان پروفیشنل آفیسر ہے" اتنے معتبر شخص نے ایک سینئر پولیس آفیسر کی غیر جانبداری اور پروفیشنلزم پر جو الزام لگایا ہے اس سے اس سول سرونٹ کا عوامی تاثر متاثر ہوسکتا ہے۔ چونکہ سول سرونٹس خود اپنا دفاع نہیں کرسکتے (یورپ میں سول سرونٹس میڈیا کے ذریعے اپنا موقٖف پیش کرتے ہیں) اس لیے ضروری ہے کہ اس آفیسر کے بارے میں چندحقائق قارئین سے شیئر کیے جائیں۔
پچھلے دنوں آزادکشمیر کے ایک سینئر صحافی نے راقم سے پوچھا کہ "آزادکشمیر کے نئے آئی جی کا عوام اور پولیس فورس میں بڑی تیزی سے مثبت تاثر پھیلا ہے آپ اسے جانتے ہیں؟"۔ میں نے کہا "ہاں میں جانتا ہوں کہ بشیر میمن رزقِ حلال کھانے والا اور صرف خدا سے ڈرنے والا ایک پروفیشنل افسر ہے، سندھ کے ہر افسر کی طرح وہ بھی سندھ میں ہی تعینات تھا اور وہیں رہنا چاہتا تھا کہ ایک امتحان آن پڑا۔ وہ حیدرآباد میں ڈی آئی جی تھا کہ اسلام آباد سے سندھ کے اصل حکمران کا اسے فون آیا کہ فلاں فلاں شخص کو قتل کے مقدے میں گرفتار کرکے چالان کرو۔ اب اگر وہ مقتدر حکمران کی خواہش پر عمل کرتا تو بے انصافی کا مرتکب ہوتا اگر اس کی حکم عدولی کرتا تو صوبۂ سندھ سے نکال دیے جانے کا خطرہ تھا۔
امتحان کڑا تھا مگر اُس نے ایمان اور ضمیر کا حکم ماننے کا فیصلہ کیا اور ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ نتیجتاً اسے صوبے سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اسے ٹھٹّہ کے شیرازیوں پر بننے والے کیسوں کی تفتیش کا حکم دیا وہ بھی اس نے انصاف کے مطابق کردیا ۔ اس کی انصاف پسندی سندھ کے حکمران اور اعتزاز صاحب کے لیڈر کو بہت ناگوارگزری لہٰذا اسے سندھ سے نکال دیا گیا۔ وہ مختلف محکموں میں پناہ تلاش کرتا رہا۔راقم کے ساتھ بھی اس نے موٹروے پولیس میں کام کیا۔ جب وہ پروموٹ ہوا تو اس کی دیانتداری اور نیک نامی کے پیشِ نظر اسے آزادکشمیر کا آئی جی لگا دیا گیا"۔ دراصل آزادکشمیر کے کرپشن میں گوڈے گوڈے پھنسے ہوئے حکمران الیکشن جیتنے کے لیے اپنی مرضی کے بدنام افسر اپنے ضلعوں میں لگوانا چاہتے ہیں اور آئی جی ان کے ناجائز مطالبات نہیں مان رہا بس اتنی سی بات ہے۔
محترم اعتزاز احسن صاحب سے گذارش ہے کہ باضمیر پولیس افسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اگر آپ کی لغت میں کوئی لفظ نہیں تو ان کی حوصلہ شکنی سے تو گریز کریں۔ چوہدری صاحب! پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں اگر آپ نے پولیس افسروں پراظہارِ خیال کی ریت ڈال ہی دی ہے تو کیا آپ سے بصد احترام یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ جب آپکے لیڈر نے سندھ میں ایک ایسا آئی جی لگایا جسکی مالی اور اخلاقی کرپشن کی داستانیں پورے سندھ میں مشہور تھیں اور جسکی فلمیں تک بنی ہوئی تھیں اس کی تعیناتی پر توآپکی پیشانی پر نہ کوئی شکن نمودار ہوئی اورنہ تقریر ہوئی ۔
پھر ُاسی صوبے میں ایسے آئی جی لگائے گئے جو اپنے آفس میں بیٹھ کرنذرانے وصول کرتے رہے اس پر بھی آپ نے کبھی سینیٹ میں آواز بلند نہ کی پھرسندھ میں ایسے آئی جی تعینات کیے گئے جو پیسے لے کر بھرتیاں کرتے رہے جو APCsکی خرید اری میں اربوں روپے کی کرپشن میں ملوّث ہوئے (جن میں اربوںکا کمیشن کھانے کا الزام کچھ سیاستدانوں پر ہے) اور جن کے خلاف سپریم کورٹ میں کار روائی چل رہی ہے مگر آپ کو ان کی تعیناتی پر بھی کبھی اعتراض نہیں ہوا بلکہ آپ تعینات کرنے والوں کی تعریف و توصیف میں مصروف رہے۔ چوہدری صاحب! آپ کی پارٹی کے بڑے بڑے وزرأ سارے کنبے سمیت مال سمیٹتے رہے، آپ کے قائدین کے لندن ، پیرس اور سوئٹزرلینڈ میں خریدے گئے محلّات اور زیورات کی لیکس بھی میڈیا میں آتی رہیں مگر آپ کی تقریر سننے کو کان ترستے رہے اور آپ کاکرپشن کے خلاف جذبۂ جہاد بیدار نہ ہوا۔۔آپ کے غیض و غضب کا نشانہ بنا تو ایک باضمیر اور ایماندار پولیس افسر ہی بنا ! واہ چوہدری صاحب واہ!
؎خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد۔ جوچاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
یہ بات تو ان کے مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ ایک ماہر Strategistہیں۔ کسی اِشو کی نزاکت اور اہمیّت کو پرکھ لیتے ہیں۔ اہم ترین لمحات کو مٹھی میں جکڑ لینے کا فن خوب جانتے ہیں۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل مشّرف کو پاکستان کے قومی ادارے تباہ کرنے کے جرم میں قدرت نے جب سزا دینے کا فیصلہ کرلیا تو افتخار چوہدری کو وسیلہ بنادیاگیا۔ سابق چیف جسٹس کے خلاف تیار کیے گئے ریفرنس کے کچھ الزامات بالکل صحیح تھے ۔
اگرصرف عدالت میں اس ریفرنس کا دفاع کیا جاتا تو میرٹ پر افتخار چوہدری صاحب کا کیس کمزور تھا مگر اعتزاز احسن صاحب نے کیس عدالت کے بجائے سڑکوں پر لڑنے کی حکمت عملی تشکیل دی جس نے پانسہ پلٹ دیا، چیف جسٹس بحال ہوگئے ، طاقت کے نشے میں بدمست ڈکٹیٹر منہ کے بل آگرا اورچوہدری اعتزاز احسن شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ گئے ۔ ایک غیر فعال چیف جسٹس کو فعال بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد اعتزاز احسن صاحب خود غیر فعال ہوگئے اور آہستہ آہستہ اسکرین اور نظروں سے اوجھل ہونے لگے۔
ان کی پارٹی کرپشن میں ملوّث ہونے کی وجہ سے بدنام ہوگئی۔ قائدین کے اثاثوں کا گراف جوں جوں اوپر چڑھتا گیا عوام کی نظروں سے وہ نیچے گرتی چلی گئی۔پارٹی جب بوجھ بن جائے تو مقبول سیاستدانوں کو بھی لے ڈوبتی ہے لہٰذا چوہدری صاحب قومی اسمبلی کا الیکشن ہارگئے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری صاحب کو توقع تھی کہ میاں صاحب لاہور سے ایک سیٹ انھیں تحفتاً دے دیںگے لیکن جب الیکشن میں ضمانت بھی نہ بچ سکی تو میاں صاحبان سے ان کے تعلقات خراب ہوگئے اور وہ ان کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ سینیٹ میں آنے کے کچھ عرصہ بعد 2014ء کے دھرنوں کے دوران انھیں پارلیمنٹ سے خطاب کا موقع ملا تو انھوں نے اپناسارا غصہ وزیرِاعظم اور حکومت پر نکال دیا۔
پانامہ میں بنائی جانے والی آف شور کمپنیوں کی خبر منظرِ عام پر آئی تو اعتزاز صاحب نے اس اِشو کوفوراً اپنی مٹھی میں بند کرلیا پھر قبلہ زرداری صاحب سے مِلتے ہی انھوں نے ایک ٹی وی چینل کے جوگی کی زبان میں کہا "سائیں! تینوں تے ساری پارٹی نوں چوروں سادھ بنادیاں تے مَنّے جوگیا تیرا ای کمال اے" (سائیں !آپ کا اور پارٹی کاموجودہ منفی تاثر تبدیل کرکے رکھ دوں یعنی آپکو ملزم سے مدعی بنادوں تو مان جاؤ گے ناںمیرا کمال ) سائیں کو اور کیا چاہیے تھا ۔ انھوں نے یہی کہاہوگا کہ "چوہدری کم تے اوکھا اے پر کرکے وخا جو منگیں گا۔دیاں گا" (چوہدری کام تو مشکل ہے مگر کرکے دکھاؤ تو جو مانگو گے وہ دونگا)۔
اور پھر چوہدری صاحب نے ایک ماہر حکمت کار کی طرح پانامہ لیکس کو اسطرح استعمال کیا کہ مجھے اپنے قریبی گاؤں کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ گاؤں سے بھینس چوری ہوگئی تو مدعی نے اسی گاؤں کے اشرف عرف اچھّوپر شک ظاہر کیا ۔گاؤں کی تین رکنی پنچایت نے اچھّوکو طلب کرلیا۔ ملزم اقرارِ جرم کرنے ہی والا تھا کہ پنچایت کے ایک رکن نے کہا "دیکھیں گاؤں میں اس رات پہرہ لگوانے کی ذمے داری چوہدری خدابخش نمبردار کی تھی لہٰذا اس چوری کی ذمے داری اُس پر بھی آتی ہے"۔ اتنا سننا تھا کہ اچھّواور اس کے سپورٹرز یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ "فیصلہ ہوگیا ہے۔ چوہدری خدا بخش کے خلاف فیصلہ ہوگیا ہے "۔
اچھّو کے شریکِ جرم شیدے نے کوئی بات کرنے کی کوشش کی تو اچّھو نے اسے چپت رسید کرکے کہا اوئے نامرادا ! چپ رہ، بچنا ہے تو شور مچاتاجا کہ "چوہدری خدا بخش ذمے دار ہے" اور "انصاف ہوگیا ہے" تیری اور میری بچت اسی میں ہے کہ شور کی آواز کم نہ ہو ۔ چند روز تو شور مچانے والے" ذمّے دار" کالفظ استعمال کرتے رہے لیکن رفتہ رفتہ "ذمّہ دار" کی جگہ "چور" نے لے لی اور ہر طرف یہ بات پھیل گئی یا پھیلادی گئی کہ پنچایت نے چوہدری خدابخش کو چور قرار دے دیا ہے اور پھراتنا شور مچایا گیا کہ لوگوں کو اچّھو بھول گیا اور چوہدری خدا بخش یاد رہ گیا۔
چند دنوں میں ہی حالات ایسے ہوگئے کہ اچھّو اور شیدا گاؤں میں سفید کلف شدہ کپڑے پہن کر اکٹر کر پھرنے لگے اور چوری کے بارے میں کوئی پوچھتا تو وہ باآواز بلند کہتے کہ "پنچایت نے چوہدری خدابخش کو چور قرار دے دیا ہے، اب خدا بخش بچ نہیں سکتا، خدا بخش کو حساب دینا پڑے گا "۔ پیپلز پارٹی کے اچّھو اور شیدے کلف شدہ کپڑے پہن کر جو شور مچارہے ہیں کہ "اب خدا بخش بچ نہیں سکتا" یہ چوہدری اعتزاز احسن جیسے جوگیوں کا ہی کمال ہے جو یہ جانتے ہیںکہ شور کم ہوا تو انگلیاں پھر ان کے رہبر و رہنما کی جانب اٹھ کھڑی ہوںگی۔
حکومت کے نادان مشیروں نے پہلے وزیرِ اعظم سے (ان کا کہیں بھی نام نہ ہونے کے باوجود) تقریر کرواڈالی۔ اب وزراء شاہ جی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر اگر یہ توقع کرتے ہیںکہ پیپلز پارٹی پانامہ پر جارحانہ روّیہ چھوڑ دے گی تو یہ ایک بچگانہ توقع ہے کیونکہ انھیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پانامہ قبلہ زرداری صاحب کے لیے ایک خدائی تحفہ ہے، پانامہ کے شور نے انھیں چور سے سادھ بنادیا ہے اس شور سے وہ پچھلے بیس سالوں میں پہلی بار کسی اور پر انگلی اٹھانے کے قابل ہوئے ہیں۔قبلہ زرداری صاحب سسٹم کا خاتمہ ہرگز نہیں چاہتے کیونکہ اسی سسٹم میں وہ سندھ کے حکمران ہیں اور حکمرانی کی "فیوض وبرکات" خوب سمیٹ رہے ہیں مگر وہ پانامہ پر شور کم نہیں کریں گے کیونکہ پانامہ کے شور میں ہی ان کی بقاء ہے اسی شور نے ان کا اسٹیٹس تبدیل کرکے ملزم سے مدعی بنا دیا ہے۔ اس پرچوہدری صاحب اپنے لیڈر قبلہ زرداری صاحب سے واقعی دادوصول کرنے کے حقدار ہیں۔
مگر آج اپنے دورۂ ایران کے مشاہدات روک کرکسی دوسرے موضوع پر لکھنے کی وجہ پانامہ لیکس کی تقدیر نہیں چوہدری صاحب کی تقریر ہے جو انھوں نے سینیٹ میں آئی جی آزادکشمیر کے خلاف کی ہے جسمیں انھوں نے ببانگِ دھل کہا ہے کہ "آئی جی آزادکشمیر کوفوری طور پر تبدیل کیا جائے کیونکہ وہ ایک جانبدار اورنان پروفیشنل آفیسر ہے" اتنے معتبر شخص نے ایک سینئر پولیس آفیسر کی غیر جانبداری اور پروفیشنلزم پر جو الزام لگایا ہے اس سے اس سول سرونٹ کا عوامی تاثر متاثر ہوسکتا ہے۔ چونکہ سول سرونٹس خود اپنا دفاع نہیں کرسکتے (یورپ میں سول سرونٹس میڈیا کے ذریعے اپنا موقٖف پیش کرتے ہیں) اس لیے ضروری ہے کہ اس آفیسر کے بارے میں چندحقائق قارئین سے شیئر کیے جائیں۔
پچھلے دنوں آزادکشمیر کے ایک سینئر صحافی نے راقم سے پوچھا کہ "آزادکشمیر کے نئے آئی جی کا عوام اور پولیس فورس میں بڑی تیزی سے مثبت تاثر پھیلا ہے آپ اسے جانتے ہیں؟"۔ میں نے کہا "ہاں میں جانتا ہوں کہ بشیر میمن رزقِ حلال کھانے والا اور صرف خدا سے ڈرنے والا ایک پروفیشنل افسر ہے، سندھ کے ہر افسر کی طرح وہ بھی سندھ میں ہی تعینات تھا اور وہیں رہنا چاہتا تھا کہ ایک امتحان آن پڑا۔ وہ حیدرآباد میں ڈی آئی جی تھا کہ اسلام آباد سے سندھ کے اصل حکمران کا اسے فون آیا کہ فلاں فلاں شخص کو قتل کے مقدے میں گرفتار کرکے چالان کرو۔ اب اگر وہ مقتدر حکمران کی خواہش پر عمل کرتا تو بے انصافی کا مرتکب ہوتا اگر اس کی حکم عدولی کرتا تو صوبۂ سندھ سے نکال دیے جانے کا خطرہ تھا۔
امتحان کڑا تھا مگر اُس نے ایمان اور ضمیر کا حکم ماننے کا فیصلہ کیا اور ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ نتیجتاً اسے صوبے سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اسے ٹھٹّہ کے شیرازیوں پر بننے والے کیسوں کی تفتیش کا حکم دیا وہ بھی اس نے انصاف کے مطابق کردیا ۔ اس کی انصاف پسندی سندھ کے حکمران اور اعتزاز صاحب کے لیڈر کو بہت ناگوارگزری لہٰذا اسے سندھ سے نکال دیا گیا۔ وہ مختلف محکموں میں پناہ تلاش کرتا رہا۔راقم کے ساتھ بھی اس نے موٹروے پولیس میں کام کیا۔ جب وہ پروموٹ ہوا تو اس کی دیانتداری اور نیک نامی کے پیشِ نظر اسے آزادکشمیر کا آئی جی لگا دیا گیا"۔ دراصل آزادکشمیر کے کرپشن میں گوڈے گوڈے پھنسے ہوئے حکمران الیکشن جیتنے کے لیے اپنی مرضی کے بدنام افسر اپنے ضلعوں میں لگوانا چاہتے ہیں اور آئی جی ان کے ناجائز مطالبات نہیں مان رہا بس اتنی سی بات ہے۔
محترم اعتزاز احسن صاحب سے گذارش ہے کہ باضمیر پولیس افسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اگر آپ کی لغت میں کوئی لفظ نہیں تو ان کی حوصلہ شکنی سے تو گریز کریں۔ چوہدری صاحب! پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں اگر آپ نے پولیس افسروں پراظہارِ خیال کی ریت ڈال ہی دی ہے تو کیا آپ سے بصد احترام یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ جب آپکے لیڈر نے سندھ میں ایک ایسا آئی جی لگایا جسکی مالی اور اخلاقی کرپشن کی داستانیں پورے سندھ میں مشہور تھیں اور جسکی فلمیں تک بنی ہوئی تھیں اس کی تعیناتی پر توآپکی پیشانی پر نہ کوئی شکن نمودار ہوئی اورنہ تقریر ہوئی ۔
پھر ُاسی صوبے میں ایسے آئی جی لگائے گئے جو اپنے آفس میں بیٹھ کرنذرانے وصول کرتے رہے اس پر بھی آپ نے کبھی سینیٹ میں آواز بلند نہ کی پھرسندھ میں ایسے آئی جی تعینات کیے گئے جو پیسے لے کر بھرتیاں کرتے رہے جو APCsکی خرید اری میں اربوں روپے کی کرپشن میں ملوّث ہوئے (جن میں اربوںکا کمیشن کھانے کا الزام کچھ سیاستدانوں پر ہے) اور جن کے خلاف سپریم کورٹ میں کار روائی چل رہی ہے مگر آپ کو ان کی تعیناتی پر بھی کبھی اعتراض نہیں ہوا بلکہ آپ تعینات کرنے والوں کی تعریف و توصیف میں مصروف رہے۔ چوہدری صاحب! آپ کی پارٹی کے بڑے بڑے وزرأ سارے کنبے سمیت مال سمیٹتے رہے، آپ کے قائدین کے لندن ، پیرس اور سوئٹزرلینڈ میں خریدے گئے محلّات اور زیورات کی لیکس بھی میڈیا میں آتی رہیں مگر آپ کی تقریر سننے کو کان ترستے رہے اور آپ کاکرپشن کے خلاف جذبۂ جہاد بیدار نہ ہوا۔۔آپ کے غیض و غضب کا نشانہ بنا تو ایک باضمیر اور ایماندار پولیس افسر ہی بنا ! واہ چوہدری صاحب واہ!
؎خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد۔ جوچاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔