میڈم پریذیڈنٹ
وہ 2009 کے نومبر کا ایک روشن دن تھا، اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری روڈھم کلنٹن پاکستان آئی ہوئی تھیں۔
وہ 2009 کے نومبر کا ایک روشن دن تھا، اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری روڈھم کلنٹن پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ انھیں ہماری کچھ منتخب خواتین سے بھی ملنا تھا۔ ہم ان کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک پہلو کے ایک دروازے سے ہیلری کلنٹن نمودار ہوئیں اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیج پر آگئیں۔ شاداب اور مسکراتا ہوا چہرہ ، بے تکلفی سے بات کرتی ہوئی، کھل کر ہنستی ہوئی۔ یہ ان کے دورہ پاکستان کا تیسرا دن تھا۔ ادھر ہیلری بی بی نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے چند جوڑوں پر ہی اکتفا کیا۔ نہ جھمکے جھالے تھے، نہ کنگن اور نہ ست لڑا۔ میں نے فوراً اقبال کے ایک مصرعے میں ترمیم کی ''تُو ہی ناداں چند جوڑوں پر قناعت کرگئی۔''
اس وقت ہم میں سے کسی کو گمان نہیں تھا کہ ان کا سفر وزیر خارجہ سے بھی آگے جائے گا۔ اس لیے کہ وہ بارک اوباما سے ہارچکی تھیں۔ وہ ایک نہایت متحرک وزیرخارجہ رہیں، اپنے عہدے سے جب انھوں نے سبکدوشی اختیارکی تو وہ دس لاکھ کلومیٹرکا ہوائی سفرکرچکی تھیں اوردنیا کا کون سا ایسا خطہ تھا، جہاں ان کے قدم نہیں گئے۔ وہ تمام ملک جو ایک دوسرے سے متصادم تھے، ان کے درمیان صلح صفائی کرانے کے لیے وہ مستقل سفر میں رہیں۔ اس کے باوجود ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ میں کمی نہ آئی اور ان کا چہرہ تھکن یا اعصابی تناؤ کا پتہ نہیں دیتا تھا۔
ہم سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ہم جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں اور پاکستانی جمہوریت کو پروان چڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں، اس بات کا اعتراف بھی انھوں نے کھل کر کیا کہ پاکستانی آمروں کی ہم بھرپورحمایت کرتے رہے، انھیں ہم نے جی کھول کر امداد دی لیکن اس کا کوئی حساب نہیں لیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ امدادی رقوم عوام تک نہ پہنچیں۔ انھوں نے یہ کڑوی بات بھی بلا تکلف کہی کہ ہم نے زلزلہ زدگان کی آباد کاری کے لیے جو بھاری رقم دی تھی وہ یقیناً آباد کاری پر خرچ نہیں ہوئی کیونکہ مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے زمین پر مجھے وہ آبادکاری نظر نہیں آئی۔
پھر اچانک اطلاع آئی کہ وہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ چند مہینوں بعد یہ ارادہ باقاعدہ اعلان میں بدل گیا اور اب ایک طویل اورصبرآزما جدوجہد کے بعد وہ اپنی ڈیمو کریٹ پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔
ایک غریب امریکی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ہیلری جس کے والدین نے محنت و مشقت کر کے اپنی بیٹی کو پڑھایا۔ماں کا کہنا تھا کہ صرف تعلیم وہ ہتھیار ہے جسے حاصل کرکے ہم غربت سے لڑسکتے ہیں۔ ہیلری ماں کی یہ بات گرہ میں باندھ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے گھر سے نکلی تھیں، نہایت محنت اور مستقل مزاجی سے وہ تعلیم کے مختلف مرحلوں سے گزریں۔ بل کلنٹن کالج کے ساتھی تھے، پھر زندگی کے ساتھی ہوئے۔
ایک ٹوٹے ہوئے گھرکا بیٹا جس میں اتنی ہمت تھی کہ امریکا کے جبری بھرتی کے قانون کی خلاف ورزی کرنے اور ویت نام میں جنگ لڑنے سے انکار کردے اور یہیں سے یا شاید اس سے بھی قدرے پہلے ہیلری بھی سیاست کی بھول بھلیاں میں اتریں۔ بل کلنٹن کی صدارتی انتخاب کی مہم انھوں نے جی جان سے لڑی اور خاتون اوّل کی حیثیت سے وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھا۔ ہیلری کے لیے وہائٹ ہاؤس سے وابستہ شیریں یادیں ہیں اور وہیں انھوں نے زندگی کا تلخ ترین گھونٹ پیا۔ یہ بل کی بے وفائی تھی جس نے بل کو مواخذے کی اور ہیلری کو ذاتی دکھ کی صعوبتوں سے گزارا۔ عمومی طور پر اس وقت یہی خیال کیا جارہا تھا کہ ہیلری اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کریں گی، لیکن ہیلری شاید لوگوں کو حیران کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ راتیں وہ رو کر گزارتیں اور صبح جب بل کو ایک مجرم کے طور پر کھڑے ہو کر اپنی صفائی پیش کرنی ہوتی تو پُرسکون چہرے اور پُر وقار انداز کے ساتھ ہیلری ان کی پشت پر ہوتیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ہیلری نے قیامت کی اس گھڑی میں حوصلے اور استقامت سے بل کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو امریکی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ بل کلنٹن اور ہیلری دونوں ہی قصہ کہانی ہوچکے ہوتے۔
آج ہیلری اپنے حریف ٹرمپ سے آگے نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود ابھی لڑائی کے آخری مرحلے باقی ہیں۔ اس موقعے پر ہمیں 1984ء کے سال کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جب جیرالڈائن فراروکو ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے نائب صدرکے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن فرارو کے اطالوی شوہر کی بعض مالیاتی بد عنوانیوں نے فرارو کے لیے جیت کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا۔
ہیلری کلنٹن کا صدارتی عہدے کے لیے نامزد کیا جاتا امریکی تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے، جیسے اب سے 8 برس پہلے بارک اوباما کا رنگ دار اور نیم مسلمان گھرانے سے تعلق کے باوجود صدر امریکا ہوجانا۔
ہیلری اگر نومبر2016ء میں صدر امریکا بنتی ہیں تو یہ سفید فام اور سیاہ فام امریکی عورتوں کی لگ بھگ 2 صدیوں پر پھیلی ہوئی نہایت مشکل اور بعض حالات میں خونیں جدوجہد کا ثمر ہے۔ ہم یہ بات کیسے بھلا دیں کہ یہ 18 اگست 1920 کی تاریخ تھی جب امریکی قانون میں 18 ویں ترمیم منظور کی گئی۔ یہ وہ ترمیم تھی جس نے عورتوں کے حق رائے دہی کو منظور کیا۔ امریکی عورتوں کو یہ حق ایک طویل جدوجہد کے بعد ملا تھا۔ 70 برس تک یہ امریکی عورتیں تھیں جنہوں نے 1848 سے مردوں کی طرح ووٹ دینے کے حق کے لیے آواز بلند کی تھی اور پھر عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق امریکی عورت کا بلند آہنگ نعرہ بن گیا تھا۔ حد تو یہ تھی کہ عورت کی محنت کی آمدنی پر اس کا کوئی قانونی حق نہ تھا اور نہ وہ اپنے روپے سے اپنے نام جائیداد خرید سکتی تھی۔
ہمارے علماء کی طرح امریکی سیاستدان بھی یہی کہتے تھے کہ عورت کی جگہ اس کا گھر ہے نہ کہ سیاست کا میدان۔ انھیں شادی کرنی چاہیے ، بچے پیدا کرنے چاہئیں، گھرگرہستی میں دلچسپی لینی چاہیے اور اپنے شوہروں کو'خوش' رکھنا چاہیے۔ یہ امریکی خانہ جنگی کے دن تھے جب عورتوں نے پہلے فرداً فرداً اور پھر تنظیموں کے ذریعے یہ کہنا شروع کیا کہ انھیں 'پاک بازی' سے کوئی اختلاف نہیں، نہ وہ اپنے بچوں اور گھر کو نظرانداز کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ مردوں کی طرح انسان ہیں اورانسانوں کی طرح جینا چاہتی ہیں۔
70 برس کی یہ تلخ اور طویل لڑائی جن امریکی عورتوں نے لڑی انھیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا آج تصور بھی محال ہے۔ وہ جیل گئیں، مظاہروں کے دوران زخمی ہوئیں، کلیسا نے انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا، سماجی طور پر ان کا بائیکاٹ ہوا۔ یہ70 برس کیسے جان لیوا اور صبر آزما تھے، ان ہی سے پوچھئے جنہوں نے اپنی جوانیاں برباد کیں، جیلیں کاٹیں اور سماج نے جن کا بائیکاٹ کیا۔ یہ بھی سن لیجیے کہ امریکا جیسے جدید ملک میں یہ بھی ہوا کہ اس کی 12 رجعت پرستوں نے عورتوں کا یہ حق مان کر نہیں دیا اور یہ 1984ء تھا جب ان 12ریاستوں نے بھی امریکی عورتوں کی اس جمہوری مانگ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
دنیا میں امریکا سے حسد کیا جاتا ہے، اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے، ہم اسے ایک استعماری اور اور استحصالی ریاست کہتے ہیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مجھ ایسے لوگ امریکا میں کیسے کیسے کیڑے نہیں ڈالتے لیکن اگر ہم ایمانداری سے سوچیں تو دکھائی دیتا ہے کہ جہاں ٹرمپ جیسے سیاستدان ہیں جو نسل پرست اور اسلام دشمن ہیں، وہیں اوباما اور ہیلری جیسے لوگ بھی ہیں جو اس نسل پرستی اور کسی خاص مذہب سے مخاصمت رکھنے کے رویے کو ناقابل برداشت کہتے ہیں۔ یہ لوگ کھل کر مسلمانوں، میکسیکو والوں اور سیاہ فاموں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم دوسروں پر اپنے ملک کے دروازے بند نہیں کرسکتے۔ وہ ان کی ملازمتوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام انسان برابر ہیں اور ہمیں انھیں وہ تمام حقوق دینے چاہیئں جو امریکی آئین ہمیں دیتا ہے۔ یہ لوگ ان کی اولادیں ہیں جو سفید فام تھے لیکن جنہوں نے سیاہ فاموں اور غلاموں کی آزادی اور ان کے حقوق کے لیے اپنا اقتدار ، اپنی زندگی اور اپنی آسائشیں داؤ پر لگادی تھیں۔ یہ لوگ بینجمن فرینکلین، جیمز میڈیسن، جون ایڈمزجیمز، تھامس جیفرسن اور جارج واشنگٹن کی اولادیں ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی ہوا کہ امریکی جرنیلوں نے استعماری طاقت کے طور پر دنیا کے لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا، ان کے وسائل کا استحصال کیا لیکن یہ بھی امریکی ادیب، دانشور، فلسفی اور شاعر ہیں جن کی کتابیں ہمیں بے ضمیری ، جنگی جنون اور مذہبی تعصبات سے نفرت کرنا سکھاتی ہیں۔
یہ امریکی عوام کی دانش ہے کہ بش جونیر کے بعد انھوں نے ایک رنگ دار صدرکا انتخاب کیا اور دوسری مرتبہ بھی اسے صدر کے عہدے پر فائز کیا اور اب شاید وہ ایک عورت کو منتخب کرنے والے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے حق میں کیا بہتر ہے۔
یوں محسوس ہورہا ہے کہ وہ 'میڈم پریسیڈنٹ ' کو 'مسٹر پریذیڈنٹ' پر ترجیح دینے والے ہیں۔