بلوچستان کی صورتحال

کیچ (Kech)کا شُمار ملک کی پسماندہ ترین علاقے میں ہوتا ہے، کیچ بلوچستان کے ریگستانی علاقے دشت کا حصہ ہے

tauceeph@gmail.com

LONDON:
کیچ (Kech)کا شُمار ملک کی پسماندہ ترین علاقے میں ہوتا ہے، کیچ بلوچستان کے ریگستانی علاقے دشت کا حصہ ہے، دشت ایران کی سرحد سے متصل ہے۔ دشت کا ایک حصہ میدانی ہے اور بڑا حصہ پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے۔یہ پہاڑی سلسلہ کراچی سے متصل لسبیلہ ضلعے سے شروع ہوتا ہے اور ایرانی سرحد تک چلا جاتا ہے۔ دشت کی آبادی80 ہزار ہے۔ یہ ایک تحصیل اور چھ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے ۔آبادی کا بیشتر حصہ زراعت سے منسلک ہے۔ غریب لوگ مال مویشی پال کر روزگار حاصل کرتے ہیں۔ دشت میں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے۔

زراعت اورغلے بانی کے لیے بارشوں سے حاصل ہونے والاپانی ایک زمانے میں واحد ذریعہ تھا۔ اس علاقے کی سیاسی کارکنوں نے میرانی ڈیم کی تعمیرکی لیے طویل جدوجہد کی جس کی بنا پر پرویز مشرف حکومت نے میرانی ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو مکمل کیا۔ بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے والے میرانی ڈیم سے علاقے کی ضروریات پوری ہوتی ہے۔ کراچی سے گوادر جانے والی کوسٹل ہائی وے دشت کے قریب سے گزرتی ہے۔ یوں اس علاقے کے لوگوں کو آمدورفت میں سہولت ملتی ہے ، اس علاقے سے گزرنے والا پہاڑی سلسلہ بلوچ جنگجوؤں کی پناہ گاہ ہے، گزشتہ چھ ماہ سے اس علاقے میں ایک آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی صورتحال سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ لوگوں کا روزگار ختم ہو چلا ہے ۔ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، ان میں سے بہت سے خاندان کراچی کے مختلف علاقوں میں پناہ گزیں ہوئے ہیں۔

شایع شدہ رپورٹوں کے مطابق کیچ کے گاؤں زرن بوگ ، بال اور کولاچ کی پوری آبادی اس صورتحال سے متاثر ہوئی ہے ۔کراچی پہنچنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال اتنی خراب تھی کہ وہ گھر میں موجود نقدی کے سوا کچھ نہ لاسکے۔ یہ لوگ روزگار سے محروم ہوئے اور بچوں کے پاس اب کوئی کام نہیں رہ گیا، دشت روایتی طور پر نیشنل پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔ میر اکرم بلوچ جو طالب علموں کے دور سے بلوچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں ،کئی دفعہ اس علاقے سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔

وہ ایک زمانے میں بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر بھی تھے۔ گزشتہ ہونے والے قومی انتخاب میں میر اکرم بلوچ کامیابی کے باوجود اپنا عہدہ نہیں سنبھال پائے تھے ۔ گزشتہ دنوں ہونے والے ضمنی انتخاب میں میر اکرم بلوچ کامیابی کے قریب تھے کہ سرحدی علاقے میں قائم ایک پولنگ اض میں اٹھارہ سو سے زیادہ ووٹ برآمد ہوگئے یہ سب کچھ کیسے ہوا یہ کوئی نہیں جانتا مگر میر اکرم اب عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں۔ اکرم بلوچ کا خاندان روایتی طور پر سردار گھرانہ ہے مگر اکرم بلوچ نے کبھی اپنی سرداری کو استعمال نہیں کیا۔

بلوچستان مستقل مسائل اور بحرانوں کا شکار ہے۔ بلوچستان میں اس وقت دو قسم کی سیاسی جماعتیں متعارف ہیں ۔ افغانستان کی سرحد سے متصل پشتون علاقے میں محمود اچکزئی کی جماعت پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن ، بلوچ علاقوں میں نیشنل پارٹی جس کی قیادت میر حاصل بزنجو اور بلوچستان نیشنل پارٹی جس کی قیادت اختر مینگل کرتے ہیں متحرک ہیں۔

میر بزنجو اوراختر مینگل کی جماعتیں آئینی جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ اس علاقے میں بندوق کے ذریعے بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگاکر حقوق حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والے جنگجو بھی فعال ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک دو سال تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے ۔ ان کی پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو اس وقت وفاقی وزیر ہیں ، وفاقی حکومت نے چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت گوادر سے خضدار تک سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس راہداری میں صنعتی زون قائم ہوںگے، گوادرکی بندرگاہ کی ترقی کا کام مکمل ہورہا ہے۔

میر اکرم بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچوں کو اقتصادی راہداری کے تحت منصوبوں میں ملازمتوں اور ٹھیکوں کے لیے کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آتی ۔ یوں علاقے کے لوگ ان منصوبوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ دشت سے ہجرت کرنے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط اور آپریشن شامل ہیں۔ لوگ خشک سالی کی بنا پر روزگار کی تلاش کے لیے کراچی منتقل ہوئے اس طرح پہاڑوں سے آنے والے جنگجوؤں اور قانون نافذ کرنے والی اداروں کے درمیان ہونے والے آپریشن کی بنا پر عام آدمی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عام آدمی اگر جنگجوؤں کے مطالبات پورے نہ کرے تو اس کی زندگی کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایجنسیوں کے اہلکار کارروائی کرتے ہیں تو عام آدمی کے لیے زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔اس علاقے میں نیشنل پارٹی کے کئی کارکن جاں بحق ہوئے ہیں۔


میر اکرم صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والی اداروں کو منتخب نمایندوں کو اعتماد میں لینا چاہیے، اس طرح سرکاری اداروں اور عام آدمی کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔ وہ اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ اس علاقے میں متاثر ہونے والے افراد کی دوبارہ بحالی کے لیے کوئی منصوبہ فوری طور پر شروع ہونا چاہیے ۔

اس منصوبے کے تحت غریب آدمی کو اتنی امداد ضرور ملنی چاہیے کہ نا صرف اس کا نقصان پورا ہوجائے بلکہ وہ دوبارہ بہتر زندگی کا آغاز کرسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگجو پہاڑی سلسلے میں روپوش ہوتے ہیں جب آپریشن تیز ہوتا ہے تو یہ ایران اور پاکستان کے درمیان نومین لینڈ No man Land میں پناہ لیتے ہیں، انھیں اس علاقے میں سازگار ماحول ملتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایرانی حکومت کے باغی اس طرح پاکستانی علاقے میں روپوش ہوتے ہیں اس لیے مکران ڈویژن میں حالات کو بہتر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہو، بلوچستان یوں تو 1947سے بحرانوں کا شکار ہے اور گزشتہ 63سالوں کے دوران اس صوبے میں پانچ آپریشن ہوچکے ہیں مگر بلوچستان کا بحران ختم نہیں ہوپایا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کی بعد صورتحال خراب ہوئی۔ انتہا پسند گروپوں کو نئی زندگی ملی، ان گروہوں نے دوسرے صوبوں سے آکر آباد ہونے والوں کو نشانہ بنایا ، بہت سے اساتذہ ، صحافی، ڈاکٹر، وکیل ، پولیس افسران وغیرہ ناحق مار دیے گئے۔جس کی بنا پر صوبے کا تعلیم صحت اور انتظامی نظام تباہ ہوا ۔ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا تو انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس معاملے پر ملک میں اور بیرونی ممالک احتجاج کیا۔ سپریم کورٹ میں مقدمات کی بھرمار ہوگئی۔

زرداری حکومت نے بلوچستان میں ہونے والے مظالم کی مذمت کے لیے قومی اسمبلی میں قرار داد منظور کرائی، پاکستانی ریاست کی جانب سے ایک صوبے بلوچستان کے عوام سے یکجہتی کی یہ پہلی مثال تھی۔پیپلز پارٹی کے اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ بنے، یہ بد ترین حکومت ثابت ہوئی۔ ایک طرف ہزارہ برادری کی نسل کشی ہوئی تو دوسری طرف مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ عالمی ایشو بن گیا۔ پھر اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کا سیلاب آگیا۔ الزام لگایا گیا کہ بلوچستان کی کابینہ کے بعض اراکین ان وارداتوں میں ملوث ہیں جب عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے تو حالات بہتر ہونا شروع ہوئے، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ کسی حد تک رک گیا۔

ڈاکٹر مالک نے یورپ میں جلا وطن رہنماؤں سے ملک مین واپسی کے لیے مذاکرات شروع کیے۔ اس طرح کئی لا پتہ افراد کی واپسی ہوئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ڈاکٹر مالک کو زیادہ اختیارات مل جاتے تو بہت سے گمراہ افراد واپس آجاتے مگر ڈاکٹر مالک کی حکومت کے خاتمے کے بعد صورتحال منجمد ہوگئی ۔گزشتہ مہینے بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ کے گھر سے برآمد ہونے والے کروڑوں روپے اور خزانے کے سابق مشیر کی گرفتاری کے بعد نیشنل پارٹی پر سوالات اٹھے اوریہ سوالات اب بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہیں۔یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ترقی کے لیے ضروری ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے ، بلوچستان کی واحد بندرگاہ گوادر کا رابطہ چین دارالحکومت بیجنگ سے ہوجائے گا مگر ان منصوبوں کی کامیابی کے لیے صوبے میں سکون انتہائی ضروری ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جلا وطن رہنماؤں سے بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے اور علاقے میں غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے نئے منصوبے شروع کیے جائیں۔ لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ گوادر کی بندرگاہ کی ترقی اور اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے شروع ہونے سے بلوچ اقلیت میں تبدیل نہیں ہوں گے، پھر جنگجو نوجوانوں کو بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ غیر ملکی طاقتوں کی فراہم کردہ بندوق سے بلوچستان کے حقوق نہیں مل سکتے۔ یہ طاقتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد سب کچھ بھول جاتی ہیں ، بلوچستان کی 63سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

کچھ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں آیندہ سیاسی کارکنوں کے مقابلے پر اسمگلروں اور سرکاری ٹھیکیداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ایسی کوئی پالیسی علاقے کی صورتحال کو مزید بگاڑ دے گی۔اب وقت آگیا ہے کہ اسلام آباد کو بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی آئینی حل تلاش کرنے پر غورکرنا ہوگا۔
Load Next Story