آؤ اور زیادہ شوروغل مچائیں
فیثا غورث نے انسانوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے (۱) علم کے رسیا (۲) وقارکے طلبگار (۳) نفع کے خواستگار
ISLAMABAD:
فیثا غورث نے انسانوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے (۱) علم کے رسیا (۲) وقارکے طلبگار (۳) نفع کے خواستگار۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر زندگی کو اولمپک کھیلوں سے مماثلت دی جائے تو پہلا طبقہ تماش بین کا ہے دوسرے مقابلے میں حصہ لینے والے کھلاڑی ہیں اور تیسرا طبقہ شور و غل مچانے والوں کا ہے، اگر ہم پاکستان کے بیس کروڑ انسانوں کو طبقات میں تقسیم کریں تو ہمیں فیثا غورث کے مطابق تین نہیں بلکہ صرف دو طبقات نظر آئیں گے (۱) پہلا طبقہ وہ ہے جو سب کے سب نفع کے خواستگار ہیں اور صرف نفع کی دوڑ کے کھلاڑی ہیں اور دوسرا طبقہ شوروغل مچانے والوں اور تماش بینوں کا ہے جو آلتی پالتی مارکر نفع کی دوڑ کے کھلاڑیوں کے کرتب دیکھ رہے ہیں ایک دوسرے سے دوڑ میں آگے نکلنے کے مناظر سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں اور جی بھر کر شورو غل مچا رہے ہیں ان ہی کھلاڑیوں کے لیے ہومر نے ''اوڈیسی'' میں کہا تھا ''مردے چمگادڑوں کی مانند لہراتے اور چیختے ہیں ایک غار میں'' اس کے علاوہ ہم میں نہ تو علم کے رسیا ہیں اور نہ ہی وقار کے طلبگار ہیں۔
ہمارے دونوں طبقات میں پائی جانے والی سار ی کی ساری علامات ثابت کر رہی ہیں کہ دونوں ہی بیمار ہیں دونوں ہی عذاب میں مبتلا ہیں ایک تو وہ ہیں جو زندگی اور اس کی ہر بات، ہر چیز، ہر رشتے، ہر تعلق کو نفع کی بنیاد پر بناتے اور ختم کرتے ہیں جو زندگی کو صرف نفع اور نقصان سمجھے بیٹھے ہیں جو سارا وقت نفع اور نقصان کی ریزگاری گننے میں لگے رہتے ہیں اور آخر میں خود بھی ریزگاری بن کے رہ جاتے ہیں وہ ریزگاری جو نہ تو خود کے کوئی کام آتی ہے اور نہ ہی دوسروں کے کسی کام کی ہوتی ہے سٹرک کے بیچوں بیچ پڑی ریزگاری جسے دیکھتے تو سب ہیں لیکن اسے اٹھانا کوئی پسند نہیں کرتا۔
سولن نے ایک شعر میں کہا تھا ''بعض بدمعاش امیر ہو جاتے ہیں جب کہ اکثر نیک آدمی غریب ہی رہتے ہیں لیکن وہ اپنے نیک کردار کا امیروں کی دولت سے کبھی تبادلہ نہ کریں گے کیونکہ اعلیٰ کردار ہمیشہ ساتھ دیتا ہے جب کہ روپیہ کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔ آج ہمارا ملک جو منظر پیش کر رہا ہے اسے تاریخ پہلی مرتبہ نہیں دیکھ رہی ہے۔ ایتھنز کی شکست کے بعد سپارٹا میں بے ایمانی اور بدمعاشی کا دور دورہ ہو گیا، صاحب اثر اور صاحب طاقت لوگوں نے تمام قانونی اور شریفانہ حدود و قیود کو نظر انداز کر دیا وہ دولت کے پیچھے دیوانے ہو گئے اور وراثت کے جائز وارثوں کو بھی اس سے محروم کرنے لگے دولت کا ارتکاز بڑی تیزی کے ساتھ چند ہاتھوں میں ہونے لگا ملک مجموعی طور پر بہت غریب ہو گیا۔
حسد، لالچ اور رقابت نے تمام شہریوں کے ذہنوں کو زہرآلود کر دیا صرف ایک سو افراد صاحب جائیداد تھے باقی ساری قوم مفلس و قلاش ہو گئی تھی جس کا نہ کوئی حق تھا نہ عزت، ان میں نہ ذوق کار تھا نہ شو ق تعمیر۔ ملک کی عزت اور عظمت کا خیال دلوں سے محو ہو گیا تھا اور ملک کے دفاع اور تحفظ کی طرف سے بھی لوگ غافل ہو گئے تھے وہ ہر وقت متشدانہ انقلاب کی راہ دیکھنے لگے تھے۔
قدیم یونانی کہتے تھے کہ انسانوں کی شروعات انتہائی نچلی بلکہ وحشیانہ سطح سے ہوئی ہے وہ کہتے تھے کہ دیوتا زیوس نے ہرمس کو زمین پر اس حکم کے ساتھ روانہ کیا تھا کہ بیماریوں کی مانند ان انسانوں کو نابود کر دو جو کہ شرافت، سلیقہ مندی اور عدل کو نہیں اپنا سکتے۔ ہرمس نے قدیم یونان میں اپنا کام کیا یا نہ کیا اس کا جواب تو تاریخ دے سکتی ہے البتہ یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں اس کے کام کے کوئی بھی بھی اثرات نظر نہیں آ رہے بلکہ الٹا وہ انسان جو شرافت، سلیقہ مندی اور عدل کو تھامے ہوئے تھے نابود ہونے جا رہے ہیں ۔
اب رہی بات شوروغل مچانے والوں اور تماش بین کی ان کی جتنی کم بات کی جائے بہتر ہے اور انھیں ان کے کام میں مست رہنے دیا جائے ان سے کم از کم چھیڑ چھاڑ کی جائے کیونکہ یہ سب کے سب وہ انسان ہیں جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ اس سے بہتر کوئی اور کام کر ہی نہیں سکتے ہیں اور انھیں پیدا ہی شوروغل مچانے اور تماشہ دیکھنے کے لیے کیا گیا ہے اس لیے وہ اپنا کام شاندار انداز میں بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں دو چار دن کی ہی تو زندگی ہے اسے اپنی یا دوسروں کی فکر میں کیوں ضایع کر دی جائے۔ رزق کا وعدہ تو خدا نے خود کیا ہے اس لیے بھوکے تو ہم مریں گے ہی نہیں اور باقی جو کچھ ہو رہا ہے یا دوسرے جوکچھ کر رہے ہیں۔ اسے ہونے دو اور انھیں کرنے دو ہم ان کی غم میں اپنی جانیں کیوں ہلکان کریں۔
اس لیے آؤ مل کر اور زیادہ شوروغل مچائیں روز نئے نئے تما شے دیکھیں اور گھر جا کر چین کی نیند سوئیں اور وہ جو دوچار شرپسند روز ہمیں اکسانے اور بھڑکانے کی ناپاک حرکتیں کر رہے ہیں ان کی کسی بھی شرپسندی کو کبھی بھی خاطر میں نہ لائیں آخرکار ایک روز وہ بھی تھک ہار کر ہماری ہی صفوں میں آ بیٹھیں گے اور ہمارے ساتھ مل کر زور زور سے شوروغل مچائیں گے اور نفع کی دوڑ کے خوب مزے لیں گے اور اپنی ماضی کی حرکتوں پر اپنے آپ کو خوب برا بھلا کہیں گے۔
اس لیے ہم سب کے ہر دلعزیز نفع کی دوڑ کے کھلاڑیوں آپ کو نہ تو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی فکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب تمہیں کہیں سے بھی اور کسی سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے بس بے فکر ہوکر دوڑے جاؤ اور خو ب نفع کماتے جاؤ، خوب لوٹ مار کرتے جاؤ خوب کھاتے اور پیتے جاؤ ہم سب کی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ہمارا تم سے وعدہ ہے ہم اور زیادہ شوروغل مچاتے رہیں گے اور زیادہ تمہیں داد تحسین دیتے رہیں گے اور تمہاری دوڑ میں کسی طرح سے بھی دخل اندازی یا اسے روکنے یا اسے خراب کرنے کی کوئی بھی کبھی بھی کو شش نہیں کریں گے ۔ ہم کربھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ ہم سب صرف تماش بین ہی تو ہیں تم بھی عذاب میں مبتلا ہو اور ہم بھی عذاب میں مبتلا ہیں ہم دونوں برابر ہی تو ہیں اس لیے ہم تمہارا برا چاہ بھی کیسے سکتے ہیں ۔