جوتے چوری کے خوف سے شرابی امام بنانے والے

معاشرتی خامیوں میں مبتلا افراد جب ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو انہوں نے وہی کام کرنے ہوتے ہیں جو ان کی خصلت میں ہوتے ہیں۔


فہیم اختر ملک June 23, 2016
جب عقل استعمال کرنے کا وقت آتا ہے تو اُس وقت ہم استعمال نہیں کرتے، جب سانپوں کا سر کچلنا چاہیئے ہم انہیں دودھ پلا کر منتخب کرکے اپنا حکمران بنا لیتے ہیں۔

LAHORE: کئی ماہ پہلے ایک واقعہ پڑھا تھا جو یہاں نقل کررہا ہوں۔ ایک گاؤں سے ایک آدمی کا گزر ہوا تو مسجد میں نماز ادا کی جارہی تھی، بس پھر وہ مسافر بھی نماز میں شامل ہوگیا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد اس نے دیکھا کہ امام کا لباس بہت زیادہ میلا اور گندا تھا۔ یہ دیکھ کر مسافر کو کچھ حیرت ہوئی اور اُس نے ایک نمازی سے پوچھا کہ آپ ایسے شخص کو آگے کیوں کرتے ہیں جس کے کپڑے بھی پاک نہیں ہوتے؟ تو نمازی نے کہا اس کے کپڑے تب خراب ہوتے ہیں جب یہ شراب پی کر آتا ہے۔ مسافر اور حیران ہوگیا اور تعجب میں پوچھا شراب بھی پیتا ہے پھر بھی تم لوگ اس کے پیچھے نماز ادا کرتے ہو؟

اس کے جواب میں نمازی نے وجہ بتاتے ہوا کہا کہ نہیں! یہ شراب تب پیتا ہے جب یہ جوا ہار جائے۔ اس جواب پر مسافر کی حیرانگی انتہا کو پہنچ گئی اور پوچھا یہ بندہ شراب بھی پیتا ہے، جوا بھی کھیلتا ہے، پھر بھی تم لوگ اس کے پیچھے نماز اداکرتے ہو؟ تو اس نمازی نے نہایت بے چارگی کے عالم میں جواب دیا کیا کریں اگر اسے آگے نہ کریں تو جماعت کے پیچھے کھڑے ہوکر یہ ہمارے جوتے چوری کرلیتا ہے مجبوری میں اس لئے اسے امام بنا لیتے ہیں۔

چند روز قبل میرے ایک بہت عزیز دوست نے گاؤں سے فون کیا جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ، تھانہ کلچر، بے روزگاری سے شدید پریشان تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے موجودہ حکمرانوں کو اتنا کوسا کہ میں اس کے الفاظ یہاں لکھ نہیں سکتا۔ ہماری درمیان کوئی 15 منٹ تک بات چیت ہوئی، اس دوران صرف میں نے ایک بات اس سے کی کہ تم ہی تو سب سے بڑے حامی تھے اس جماعت کے اور اسی کیلئے تم نے بہت سے لوگوں سے دشمنی بھی مول لی تھی۔ وہ کہنے لگا یار ہم سے غلطی ہوگئی جو اس گونگلو کی بھولی شکل پر اعتبار کرلیا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ جماعت بھی صرف دعوؤں تک رہے گی۔ چیخیں نکلوا دی ہیں اس جماعت نے لوگوں کی، پھر اس نے بتایا کہ لگ بھگ 2 سو ایکڑ زمین ہے ان کے گاؤں میں جو کئی سال سے سیم اور تھور کا شکار ہے۔ چاہے جتنی ہی کاشتکاری کیوں نہ کرلی جائے لیکن کوئی فصل ہی پیدا نہیں ہوتی، روزگار اور آمدن کو کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اب 15 ہزار سے زائد کی آبادی مسلسل یہ سوچ رہی ہے کہ کوئی زمین کا خریدار آجائے تاکہ یہاں سے نقل مکانی کی جاسکے۔

میں نے دوست سے پوچھا کہ جس شخص کو آپ نے بھاری اکثریت سے منتخب کرکے ایوان میں بھیجا ہے، کیا اس منتخب نمائندے نے ایوان میں اس معاملہ کو اٹھایا ہے یا اس سے کوئی رابطہ ہوا؟ تو اس نے جواب دیا بھائی سائیں کو منتخب کرلیا ہے تو تھانہ کے چکروں سے بچے ہوئے ہیں ورنہ اس کی مخالفت کرتے تو کسی نہ کسی ایف آئی آر کی زد میں آکر اب تک جیلوں میں ہوتے۔

اس سے بات ختم ہونے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ پاکستان کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ اس گاؤں کی مانند پاکستانی عوام کی اکثریت بھی انتخابات میں صرف اس لئے ایسے لوگوں کو منتخب کرکے اپنا نمائندہ بناتی ہے تاکہ ان کے جوتے محفوظ رہیں۔ معاشرتی خامیوں میں مبتلا افراد جب ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو انہوں نے وہی کام کرنے ہوتے ہیں جو ان کی خصلت میں ہوتے ہیں، یعنی جوتے چوری کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا۔

اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ وہ لوگ جو اپنے خوف کی وجہ عوام سے زبردستی منتخب ہو آتے ہیں تاکہ ان (عوام الناس) کی عزتیں محفوظ رہیں لیکن وہ ایوانوں میں آکر خواتین کو ایسے ایسے القابات سے نوازتے ہیں کہ ان کے گھر کی عورتیں بھی شرم سے ڈوب مرتی ہوں گی، پھر اگر کوئی مہنگائی کا گلہ کرے تو میرے ملک کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب قوم کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر دالیں مہنگی ہو گئی ہیں تو مرغی کھائیں۔

یقین مانیں مجھے واقعی میں کوئی حیرانگی نہیں ہوتی حکمرانوں کی ایسی باتوں اور ایسے حرکتوں سے کیونکہ اس ساری صورتحال کے ہم ہی زمہ دار ہیں۔ جب عقل استعمال کرنے کا وقت آتا ہے تو اُس وقت ہم استعمال نہیں کرتے، جب سانپوں کا سر کچلنا چاہیئے ہم انہیں دودھ پلا کر منتخب کرکے اپنا حکمران بنا لیتے ہیں اور پھر جب وہ اپنی خصلت کے مطابق ڈسنا شروع کردیتے ہیں تو ہم بے بس ہوجاتے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے ملک کا بیڑا غرق کردیا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ بیڑا تو ہم نے خود اپنا غرق کیا ہوا ہے۔ بلا وجہ ان پر الزام نہ لگائیں، اور اپنے روش پر غور کیجئے۔ اب میری اِس بات کا عملی ثبوت درکار ہے تو تھوڑا برداشت کیجئیے، اب سے ٹھیک 2 سال بعد انتخابات ہونگے اور قوی امید یہی ہے کہ اس بار بھی ہم سب اس قصہ اور اپنے حال سے عبرت پکڑتے ہوئے کوئی سبق نہیں سیکھیں گے اور انہی چور، جواری اور شرابی حکمران منتخب کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور500 الفاظ پرمشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصرمگرجامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویراورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں