ہمارے یہ بھیڑیے

اس قدر خوبصورت اور عاشقانہ موسم قسمت سے ہی ملتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی روزہ داروں پر خاص عنایت ہے


Abdul Qadir Hassan June 23, 2016
[email protected]

JAMRUD: کئی دنوں کی جسم گداز گرمی کے بعد اور صبر و تحمل کی شکست فاش کے بعد آج قدرت نے اپنے اس بندے پر خصوصی مہربانی کی ہے۔ قطرہ قطرہ بارش گر رہی ہے۔ بھگوتی نہیں مگر ڈراتی ضرور ہے اور ساتھ ہی ہوا ایسی ظالم بن کر چل رہی ہے کہ بجلی کے پنکھے اور اے سی وغیرہ سب ہم عاشقوں کا منہ دیکھ رہے ہیں جو ان کے بغیر ایک لمحہ بھی گزارنے پر تیار نہیں تھے یعنی موسم ایسا بدلا ہے جو میرے جیسے خنک پہاڑی شخص کو بھی دیوانہ بنا دیتا ہے۔ آج کا دن لاہور کا نہیں روزہ داروں کا دن ہے جو سحری کھا کر سوئے اور جب جاگے تو ان کے ہوش خطا ہو گئے۔

اس قدر خوبصورت اور عاشقانہ موسم قسمت سے ہی ملتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی روزہ داروں پر خاص عنایت ہے یا روزہ داروں کے دوستوں پر بھی مہربانی ہے کہ جون جیسے تپتے جلتے مہینے میں دنیا ہی بدل دی، اعتبار کیجیے قدرے سردی اور خنکی کا احساس ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مالک ہے زمینوں آسمانوں اور موسموں کا،وہ اپنے بندوں پر مہربانی کرنے پر آتا ہے تو سب کو حیران کر دیتا ہے، سب کچھ اسی کے پاس تو ہے، وہ جیسا چاہے کرے، اللہ کے تابع فرمان افراد بھی فرمانبردار انسانوں کی طرح خوش ہوتے ہیں اور جس کی قسمت میں ہوتا ہے وہ شکر بھی ادا کرتا ہے ورنہ موسم کی تبدیلی کو ہی سب کچھ قرار دے دیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ موسموں کا ہیر پھیر ہی سب کچھ ہے۔ بہرکیف انسان کا جو جی چاہے وہ کہتا اور سمجھتا رہے۔

اللہ کے اپنے انداز ہیں اس کی مہربانی ہے وہ جو چاہے کر دے اور ہم کچھ بھی مانگتے رہیں ہمیں کچھ بھی نہ دے یہ سب اس کے اپنے انداز ہیں، پل میں راجہ پل میں فقیر کر دینا اس کا ایک مشغلہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ ہم عام انسان ہیں جو اس کی ہر نعمت کو اپنی کوئی زمینی کوشش قرار دیتے ہیں اور اپنی کارکردگی پر خوش ہو جاتے ہیں۔

موسم اس قدر ٹوٹ کر ''برسا'' ہے کہ اور ہر موضوع موسم کے اس جادو میں گم ہو گیا ہے جب کہ میں نے صبح صبح اخباروں میں سندھ کے تھل میں جاں بحق ہونے والے بچوں کا پھر ذکر پڑھا ،کوئی تین بچے بھوک اور پیاس میں اپنے خالق کے پاس چلے گئے اور ہم خوش و خرم انسانوں کو شرمندہ چھوڑ کر۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے کہ تھر میں بچے مر رہے ہیں ان کے بھوکے پیاسے ماں باپ ان کو دفنا رہے ہیں یا اپنی مٹی کے سپرد کر رہے ہیں، یعنی جہاں سے آئے تھے وہیں ان کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ وہ اپنے اس مستقل ٹھکانے میں باقی ماندہ زندگی بسر کر لیں گے اور اگر نامناسب نہ ہو تو وہ ہم پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنی دوسری دنیا میں وقت کاٹیں گے۔

ہمارے حکمران جب کسی بیماری کے بہانے یا سیر سپاٹے کے شوق میں کسی غیر ملک میں چلے جاتے ہیں تو ان کے اس شوق پرجو خرچ آتا ہے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سے تھر کے مفلوک الحال بچے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ وہ ہم خوشحال پاکستانیوں کو کیا سزا دے گا اور ہمارے بال بچوں کو خوش رکھے گا یا ہمیں ان کا ناقابل برداشت غم دے دے گا۔

سندھ میں ایک بڑے آدمی کا نوجوان بیٹا اغوا ہو گیا ہے اس کا ابھی تک تو کوئی پتہ نہیں چلا ،خدا کرے اس نوجوان کے ماں باپ اپنے بیٹے کی خوشیاں دیکھیں لیکن ہم نے پنجاب میں دیکھا کہ وزیراعظموں اور بڑے لوگوں کے بچے اغوا ہو گئے اور پھر مہینوں برسوں بعد واپس آئے بدلی ہوئی شکل اور زندگی کے ساتھ۔ ایک نوجوان کی زندگی میں جب یہ مرحلہ آتا ہے تو وہ پھر کچھ بھی بن سکتا ہے یا تو اسے اللہ کی سزا سمجھ کر برداشت کر جاتا ہے یا پھر کسی نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے جو نہ جانے کیسی ہو گی۔

ہمارے پاکستان میں ادھر کچھ عرصہ سے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ کسی بھی شخص کو اغوا کر لینا کچھ مشکل نہیں ایک چھوٹا سا پستول بڑے سے بڑا کام کر جاتا ہے لیکن اس کا نتیجہ کس صورت میں اہل خانہ پر گزرتا ہے اور کس حال میں یہ مغوی اپنا وقت گزارتا ہے جو اس کے تصور میں بھی نہیں ہوتا کیونکہ کون نوجوان ہے جو اپنی جوانی کے چند برس اس عذاب میں بسر کرنے پر پہلے سے تیار ہوتا ہے۔

ہماری حکومتیں اگر اپنی قوم کی حفاظت نہیں کرسکتیں اگر حکومتی ادارے بالکل ہی بے عمل ہو گئے ہیں تو پھر قوم کو اللہ کے حوالے کر دیں اور ہر کوئی اپنی حفاظت کا خود ذمے دار بن جائے۔ پھر دیکھیں گے کون زندہ رہتا ہے یا کون نہیں۔ ایک چرواہا مجھ سے کہنے لگا کہ جناب ایک تو ان بکریوں کی حفاظت جان کو کھا جاتی ہے اوپر سے اپنی جان بھی ان جانوروں کے ساتھ سولی پر لٹکتی رہتی ہے۔ ریوڑ کی کسی بکری کو بھیڑیا بھی لے جانا چاہے تو مجھے اس کا مقابلہ کرنا پڑتاہے اور جنگلی بھیڑیے کے ساتھ مقابلے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے وہ کون نہیں جانتا لیکن پھر بھی ہم بھیڑوں کو بچاتے ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ ہمارے حکمران شاید ہماری حفاظت کا سوچتے بھی نہیں وہ خود بھیڑئیے بن کر ہماری جان کو کھا جاتے ہیں کجا کہ ہمیں کسی سے بچا سکیں۔ اورہم اپنے حکمرانوں کو مائی باپ کہہ سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں