نعت سرائے
والا معاملہ ہوتا ہے اور جس سے کامران اور بامراد ہو کر نکلنے کے لیے اس توفیق کی ضرورت ہوتی ہے
ارادہ تھا کہ رمضان المبارک میں سارے کالم نعت کے حوالے سے لکھے جائیں مگر حسب سابق اس بار بھی دل اور دنیا ساتھ ساتھ نہ چل سکے اور زیرنظر کالم بھی شائد اس دو عملی کا شکار ہو جاتا اگر آج کی ڈاک سے مجھے محمد آصف مرزا صاحب کا شعری مجموعہ ''ستارہ ہے خاک پر'' نہ ملتا۔
میں نے اس شاعر کو اس سے پہلے کبھی سنا یا پڑھا نہیں ہے لیکن ٹائٹل کی غزل نے ہی اسطرح چونکایا کہ ساری کتاب کی ورق گردانی کرنا پڑی اور بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ کیسے کیسے عمدہ شاعر ہمارے آس پاس موجود ہیں لیکن ان کے تخلیقی جوہر کو اظہار اور رسائی کے وہ وسائل میسر نہیں جو ان کا حق اور کسی مہذب معاشرے کی ذمے داری ہیں، اس کے بعض اشعار میں تصوف' فلسفے' تحیر اور سپردگی کے ایسے رنگ نظر آئے جو شاعر کے صاحب دل' اہل نظر اور صاحب ایمان ہونے کے ترجمان تھے، سو اس کے مطالعے کے بعد میں نے سب سے پہلے منظومات کی فہرست میں نعت تلاش کی کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں بقول شاعر
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؓ و با یزیدؓ ایں جا
والا معاملہ ہوتا ہے اور جس سے کامران اور بامراد ہو کر نکلنے کے لیے اس توفیق کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر ایک کو ارزانی نہیں ہوتی اور جہاں بڑے بڑے عقل و دانش کے سمندر ایک قطرے میں سمٹ جاتے ہیں۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است
سو میرے اندازے کے عین مطابق محمد آصف مرزا کی اس مجموعے میں شامل تینوں نعتیں اس کسوٹی پر پورا اتریں، پہلی نعت کے چند شعر کچھ یوں ہیں
ذکر احمدؐ سے منور مرا سینہ کر دے
مرے مولا' مرے یثرب کو مدینہ کر دے
دل صنم خانہ دنیا میں ہوا سنگ فعال
اپنا ہم رنگ بنا اور نگینہ کر دے
اب کہیں اور گوارہ ہی نہیں جائے قرار
اپنے رستے میں مقرر مرا جینا کر دے
دل دیا ہے تو اسے درد شناسی ہو عطا
آنکھ بخشی ہے جو تو نے' اسے بینا کر دے
جا کے نکلے وہ سر حشر' کنار کوثر
چشم گریاں میں رواں میرا سفینہ کر دے
اس کے ساتھ ہی حجاب عباسی کی ادارت میں نکلنے والے سہ ماہی جریدے ''ادب عالیہ'' کیپہلے شمارے پر نظر پڑی تو برادرم سلیم کوثر کی نعت نے روح میں چراغاں سا کر دیا۔ میرا یہ عزیز دوست اور بہت خوب صورت شاعر ایک عرصے سے ایک موذی مرض میں گرفتار ہے، رب کریم سے دعا ہے کہ اپنی بے کنار رحمت سے اس پر اپنا خاص کرم فرمائے کہ اس کی قدرت سے تو کوئی بھی چیز نہ باہر ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ سلیم کوثر کی اس نعت کا ہر شعر اس رحمت خاص کا طالب اور حق دار ہے
حق تعالیٰ نے عطا کی یہ زمیں' آپؐ کا ہوں
میرے آقا' میں کسی کا بھی نہیں' آپؐ کا ہوں
کرہ عشق سے باہر بھی حضورؐ آپ کا تھا
کرہ عشق میں جب سے ہوں مکیں' آپؐ کا ہوں
وسعت چادر رحمت کی کوئی حد ہی نہیں
میں گنہگار' گناہوں کے تئیں' آپؐ کا ہوں
مجھ کو بہکائے گا کیا جلوہ دنیا کا فریب
میرا ایمان کی حد تک ہے یقیں' آپؐ کا ہوں
سب کو ہے ناز غلامی پہ بڑی طاقتوں کی
میرا اعزاز کہ میں خاک نشیں' آپؐ کا ہوں
دیدہ بینا میسر ہو تو پھر آئے نظر
صاف لکھا ہے سرلوح جبیں' آپؐ کا ہوں
اور اب آخر میں ایک اپنی لکھی ہوئی نعت کہ جو حج کے دوران نو سال قبل عطا ہوئی لیکن جس کا ہر شعر آج بھی یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی لفظوں کے قالب میں ڈھلا ہو۔
روضے کی جالیوں کا نظارا عجیب ہے
کن رفعتوں پہ آج ہمارا نصیب ہے
اب اس سے بڑھ کے اور کیا مانگیں خدا سے ہم
محبوب ہے جو اس کا ہمارا حبیب ہے
لگتا ہے صحن مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر
آنکھوں کا چین دل کا سہارا' قریب ہے
مکے میں' ان کے شہر میں' طائف میں دیکھئے
یہ سلسلہ تو سارے کا سارا عجیب ہے
کرتی ہیں ان کی رحمتیں زائر کی دیکھ بھال
ہر ہر قدم پہ کوئی اشارا' حبیب ہے
محفوظ ہر مرض سے رہیں اور تندرست
دیکھو تو آکے' کون ہمارا' طبیب ہے!
چاہو تو اس کو چھو بھی لو امجد بڑھا کے ہاتھ
اتنا یہاں ہر اک ستارا' قریب ہے
میں نے اس شاعر کو اس سے پہلے کبھی سنا یا پڑھا نہیں ہے لیکن ٹائٹل کی غزل نے ہی اسطرح چونکایا کہ ساری کتاب کی ورق گردانی کرنا پڑی اور بہت خوشگوار حیرت ہوئی کہ کیسے کیسے عمدہ شاعر ہمارے آس پاس موجود ہیں لیکن ان کے تخلیقی جوہر کو اظہار اور رسائی کے وہ وسائل میسر نہیں جو ان کا حق اور کسی مہذب معاشرے کی ذمے داری ہیں، اس کے بعض اشعار میں تصوف' فلسفے' تحیر اور سپردگی کے ایسے رنگ نظر آئے جو شاعر کے صاحب دل' اہل نظر اور صاحب ایمان ہونے کے ترجمان تھے، سو اس کے مطالعے کے بعد میں نے سب سے پہلے منظومات کی فہرست میں نعت تلاش کی کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں بقول شاعر
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؓ و با یزیدؓ ایں جا
والا معاملہ ہوتا ہے اور جس سے کامران اور بامراد ہو کر نکلنے کے لیے اس توفیق کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر ایک کو ارزانی نہیں ہوتی اور جہاں بڑے بڑے عقل و دانش کے سمندر ایک قطرے میں سمٹ جاتے ہیں۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است
سو میرے اندازے کے عین مطابق محمد آصف مرزا کی اس مجموعے میں شامل تینوں نعتیں اس کسوٹی پر پورا اتریں، پہلی نعت کے چند شعر کچھ یوں ہیں
ذکر احمدؐ سے منور مرا سینہ کر دے
مرے مولا' مرے یثرب کو مدینہ کر دے
دل صنم خانہ دنیا میں ہوا سنگ فعال
اپنا ہم رنگ بنا اور نگینہ کر دے
اب کہیں اور گوارہ ہی نہیں جائے قرار
اپنے رستے میں مقرر مرا جینا کر دے
دل دیا ہے تو اسے درد شناسی ہو عطا
آنکھ بخشی ہے جو تو نے' اسے بینا کر دے
جا کے نکلے وہ سر حشر' کنار کوثر
چشم گریاں میں رواں میرا سفینہ کر دے
اس کے ساتھ ہی حجاب عباسی کی ادارت میں نکلنے والے سہ ماہی جریدے ''ادب عالیہ'' کیپہلے شمارے پر نظر پڑی تو برادرم سلیم کوثر کی نعت نے روح میں چراغاں سا کر دیا۔ میرا یہ عزیز دوست اور بہت خوب صورت شاعر ایک عرصے سے ایک موذی مرض میں گرفتار ہے، رب کریم سے دعا ہے کہ اپنی بے کنار رحمت سے اس پر اپنا خاص کرم فرمائے کہ اس کی قدرت سے تو کوئی بھی چیز نہ باہر ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ سلیم کوثر کی اس نعت کا ہر شعر اس رحمت خاص کا طالب اور حق دار ہے
حق تعالیٰ نے عطا کی یہ زمیں' آپؐ کا ہوں
میرے آقا' میں کسی کا بھی نہیں' آپؐ کا ہوں
کرہ عشق سے باہر بھی حضورؐ آپ کا تھا
کرہ عشق میں جب سے ہوں مکیں' آپؐ کا ہوں
وسعت چادر رحمت کی کوئی حد ہی نہیں
میں گنہگار' گناہوں کے تئیں' آپؐ کا ہوں
مجھ کو بہکائے گا کیا جلوہ دنیا کا فریب
میرا ایمان کی حد تک ہے یقیں' آپؐ کا ہوں
سب کو ہے ناز غلامی پہ بڑی طاقتوں کی
میرا اعزاز کہ میں خاک نشیں' آپؐ کا ہوں
دیدہ بینا میسر ہو تو پھر آئے نظر
صاف لکھا ہے سرلوح جبیں' آپؐ کا ہوں
اور اب آخر میں ایک اپنی لکھی ہوئی نعت کہ جو حج کے دوران نو سال قبل عطا ہوئی لیکن جس کا ہر شعر آج بھی یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی لفظوں کے قالب میں ڈھلا ہو۔
روضے کی جالیوں کا نظارا عجیب ہے
کن رفعتوں پہ آج ہمارا نصیب ہے
اب اس سے بڑھ کے اور کیا مانگیں خدا سے ہم
محبوب ہے جو اس کا ہمارا حبیب ہے
لگتا ہے صحن مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر
آنکھوں کا چین دل کا سہارا' قریب ہے
مکے میں' ان کے شہر میں' طائف میں دیکھئے
یہ سلسلہ تو سارے کا سارا عجیب ہے
کرتی ہیں ان کی رحمتیں زائر کی دیکھ بھال
ہر ہر قدم پہ کوئی اشارا' حبیب ہے
محفوظ ہر مرض سے رہیں اور تندرست
دیکھو تو آکے' کون ہمارا' طبیب ہے!
چاہو تو اس کو چھو بھی لو امجد بڑھا کے ہاتھ
اتنا یہاں ہر اک ستارا' قریب ہے