پاک افغان قضیہ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2,430کلومیٹر طویل سرحد ہے


Muqtida Mansoor June 22, 2016
[email protected]

کئی ہفتوں سے پاکستان کی مغربی سرحد پر شدید تناؤ ہے، گزشتہ ہفتے ہونے والی دوطرفہ فائرنگ میں میجر علی جواد چنگیزی سمیت کئی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ ٹکراؤ کی یہ صورتحال طورخم کے مقام پر گیٹ نصب کرنے کی وجہ سے پیش آئی ہے، گو کہ اس وقت سرحد کی دونوں جانب خاموشی ہے، لیکن تناؤ ہنوز برقرار ہے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ تناؤ کسی فوری صورتحال کا نتیجہ ہے؟ یا ماضی میں ہونے والے بعض فیصلوں کا ردعمل؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2,430کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ 1,290کلومیڑ صوبہ پختونخوا جب کہ 1,140کلومیٹر بلوچستان سے ملتی ہے۔ انگریزوں نے اس خطے پر قبضے کے بعد ایک نیا تزویراتی بندوبست کیا تھا۔ یہ بندوبست انگریز کے چلے جانے اور پھر عالمی سطح پر 45 برس تک مسلط رہنے والی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے اس خطے میں بعد از سرد جنگ معاملات کو چلانے میں ان گنت پیچیدہ مسائل جنم لے رہے ہیں۔

جس طرح برصغیر میں ان گنت ریاستوں اور رجواڑوں(Princely States) کواپنے اندرونی معاملات چلانے کی آزادی تھی، مگر خارجہ اور دفاعی امور انگریز حکمران چلاتے تھے۔ اسی طرح افغانستان بھی ایک ایسی ہیPrincely States تھی، جس کی خارجہ اور دفاعی پالیسی انگریز کے ہاتھوں میں تھی، صرف اندرونی معاملات مقامی حکمرانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے۔

اس زمانے میں برصغیر کے شمال مغرب میں زار روس کی طاقتور سلطنت موجود تھی، جس نے افغانستان سے ملحق مسلم ریاستوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ لہٰذا زار روس کی جنوب کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لیے انگریز حکمرانوں نے کئی تزویراتی اقدامات اور بندوبست کیے۔ اس سلسلے میں برطانوی سول سرونٹ سر مورتیمر ڈورنڈ اور افغان حکمران عبدالرحمان خان کے درمیان12نومبر1893کو برٹش انڈیا اور پرنسلی افغانستان کے قبائلی علاقوں کے درمیان 100برس کے لیے سرحد پرخط کھینچنے کا معاہدہ ہوا۔ یہ سرحد اس مناسبت سے ڈیورنڈ لائن کہلاتی ہے۔

اسی نوعیت کا معاہدہ ایک دوسرے برطانوی سول سرونٹ رابرٹ سنڈیمن نے اس وقت کے خان قلات خدا داد خان کے ساتھ1876میں کیا جس کے مطابق حکومت برطانیہ نے کوئٹہ میں چھاؤنی قائم کرکے اس پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا۔ ساتھ ہی کوئٹہ کے شمال میں موجود پشتون علاقوں کو بھی نئے صوبائی بندوبست میں شامل کرلیا گیا، مگر اس بندوبست کو مکمل صوبائی درجہ نہیںدیا گیا بلکہ ایک چیف کمشنر کے ذریعے اس نظام کو کنٹرول کیا گیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوئٹہ میں قائم چھاؤنی نے دوسری اور تیسری افغان جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور شمال کے دفاعی معاملات پر نظر رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوئی۔ برطانیہ کے اس تزویراتی بندوبست کے نتیجے میں پشتون آبادی تین حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک بڑا حصہ افغانستان میں رہ گیا، جب کہ برٹش انڈیا میں موجود پشتون دو صوبائی انتظاموں یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ (NWFP)اور بلوچستان میں تقسیم ہوگئے۔ یہ تقسیم آج تک جاری ہے۔

ڈورنڈ لائن کے ساتھ تزویراتی اہمیت کی 7قبائلی ایجنسیاں اور6سرحدی ریجن قائم کیے گئے۔ ہر ایجنسی میں ایک پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا جو مقامی ملکوں کی مدد سے ان ایجنسیوں کا انتظام چلانے کے علاوہ زار روس کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتا تھا۔ انقلاب کے بعد جب سوویت یونین قائم ہوا تو خطرات مزید بڑھ گئے۔

لیکن حکومت برطانیہ نے اس چیلنج کو بھی اسی بندوبست کو جاری رکھا۔ البتہ شمال میں طورخم اور مغرب میں چمن کے مقام پر برطانوی حکومت نے سرحدی چوکیاں قائم کرکے اپنی دفاعی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ مگر ڈورنڈ لائن کے دونوں اطراف آباد پشتون نے کبھی اس سرحد کو حقیقی تسلیم نہیں کیا،اسی لیے اس کا احترام بھی نہیں کیا۔ انھوں نے صدیوں پر محیط ان تجارتی اور معاشرتی رابطوں کے راستوں پر بغیر کسی روک ٹوک آمد و رفت کے سلسلے کو جاری رکھا،جن پر باڑ لگانا ممکن نہیں تھا۔ برطانوی حکومت نے بھی اس سلسلے میں زیادہ سختی نہیں کی۔

برطانوی دور میں تمام قبائلی علاقوں کو دہلی سے کنٹرول کیا جاتا تھا، قیام پاکستان کے بعد یہ ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں آگئیں۔ اسی مناسبت سے انھیں وفاقی زیر انتظام قبائلی علاقہ جات یعنیFATAکا نام دیا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ حکومت پاکستان ان علاقوں کو صوبہ پختونخوا (سابقہNWFP )میں ضم کرکے اس علاقے کو نارمل شہری نظام کا حصہ بنائے گی لیکن حکومت پاکستان نے نہ صرف نوآبادیاتی بندوبست کو جاری رکھا، بلکہ اس دور میں نافذ کیے گئے ظالمانہ قانون فرنٹیر کرائمز ریگولیشن(FCR)میں بھی کسی قسم کی ترمیم کی زحمت گوارا نہیں کی۔1973کے آئین میں قبائلی علاقہ جات کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کچھ نشستیں مخصوص ضرور کیں مگر ان کا طریقہ انتخاب پورے ملک میں رائج انتخابی عمل سے مختلف ہونے کی وجہ سے قبائلی عوام کو رائے دہی کے وہ حقوق نہیں مل سکے، جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں، لیکن ان خامیوں اور خرابیوں کے باوجود1980تک یہ بندوبست پرسکون انداز میں چلتا رہا۔

قبائلی علاقوں میں سیاسی اور انتظامی بے چینی اس وقت شروع ہوئی، جب حکومت پاکستان نے روس اور امریکا کی پراکسی جنگ کا حصہ بننے اور گوریلا جنگ کے لیے جنگجو مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کی حکومت پاکستان نے ایک طرف دینی مدارس میں جنگجوؤں کی عسکری تربیت کا سلسلہ شروع کیا، جب کہ دوسری طرف دنیا بھر سے افغان جنگ میں حصہ لینے کیلیے آنے والے جنگجوؤں کو قبائلی علاقوں میں ٹھہرانے کا بندوبست کیا۔

اس سلسلے میں مقامی ملکوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات اور تحفظات کو نظر اندازکردیا گیا۔ بعد میں اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر پولیٹیکل ایجنٹوں اور مقامی ملکوں کے اختیارات میں تخفیف کردی گئی۔ نتیجتاً ایک صدی پرانے پولیٹیکل ایجنٹ کے نظام کے متاثر ہونے سے ان علاقوں میں گورننس کے نئے مسائل پیدا ہوگئے۔9/11کے بعد جب حکومت پاکستان اپنی افغان پالیسی میں تبدیلی پر مجبور ہوئی، تو وہ جنگجو عناصر جن کی دو دہائیوں تک سرپرستی کی گئی تھی اور جنھیں ہر قسم کی سہولیات مہیا کی گئی تھیں، پاکستان دشمنی پر اتر آئے۔ لہٰذا آج یہ علاقہ پاکستان کے لیے ناقابل برداشت دردِ سر بن چکا ہے۔

اب جہاں تک افغانستان اور اس کا پاکستان کے پشتون علاقوں پر دعوے کا تعلق ہے، تو تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دو صدیوں قبل تک افغانستان کوئی ملک نہیں تھا بلکہ مختلف قبائل پر مشتمل علاقہ تھا۔ کابل تک پشتون علاقہ اشوک کے دور سے کسی نہ کسی شکل میں ہندوستان کا حصہ رہا ہے جب کہ مغربی علاقہ ایران میں شامل تھا۔ دہلی کے مسلمان حکمرانوں کی حکومت بھی کابل تک پھیلی ہوا کرتی تھی۔ راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی پشتون علاقے پنجاب میں شامل تھے۔ دراصل موجودہ افغانستان 18 ویں صدی میں نادرشاہ درانی کی کوششوں سے مختلف قبائل کو یکجا کرنے کے نتیجے میں وجود میں آیا جو19 ویں صدی میں برطانوی ہند اور روسی سلطنت کے درمیان'' گریٹ گیم '' کے نتیجے میں بفر اسٹیٹ کی حیثیت اختیار کرگیا۔

ڈورنڈ لائن اسی گریٹ گیم کا حصہ تھی۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پشتون عوام ہی نہیں بلکہ افغان حکومت نے بھی ڈورنڈ لائن کو کبھی حقیقی سرحد تسلیم نہیں کیا۔افغان حکمرانوں کو یہ توقع تھی کہ جب انگریز ہندوستان کو چھوڑے گا، تو معاہدے کی مدت ختم ہونے سے قبل پشتون علاقہ اس کے حوالے کردے گا، مگر انگریز نے جاتے ہوئے، برصغیر میں جہاں دیگر ان گنت سنگین مسائل چھوڑے، وہیں ڈورنڈ لائن کا مسئلہ بھی دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی افغان حکومت نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کی۔

1993میں ڈورنڈ لائن معاہدے کی مدت ختم ہوگئی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب سرد جنگ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی تھی اور دنیا میں نئی تزویراتی حدبندیاں ہورہی تھیں۔ روسی افواج کے نکل جانے کے بعد افغانستان شدید سیاسی انتشار اور انتظامی خلفشار کا شکار تھا۔ پاکستان طالبان (پاکستانی دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ) کی مدد سے اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ اس لیے نہ تو ڈورنڈ لائن کے معاہدے کی مدت میں توسیع پر توجہ دی گئی اور نہ ہی کسی نئے معاہدے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

پاکستانی منصوبہ ساز تزویراتی گہرائی کا تصور لیے طالبان کی مدد سے افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے حالانکہ طالبان نے بھی پشتون ہونے کے ناتے ڈورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان کبھی حقیقی سرحد تسلیم نہیں کیا۔ لیکن پاکستانی منصوبہ ساز اسی خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ طالبان ان کی مٹھی میں ہیں اور وہ اس خطے کی سیاست کو اپنی مرضی کے مطابق چلا سکیں گے۔ لہٰذا انھوں نے سرحدی بندوبست سمیت کسی بھی اہم ایشو کو حل کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔9/11کے واقعے نے پاکستانی منصوبہ سازوں کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کردیا۔ مگر تزویراتی گہرائی کا تصور ذہن سے محو نہیں ہوا۔ آج جو صورتحال درپیش ہے، اس میں اگر ایک طرف افغان حکومت کی ہٹ دھرمیاں شامل ہیں، تو وہیں دوسری طرف ہماری اپنی سیاسی غلطیوں کا بھی بہت زیادہ عمل دخل ہے۔

لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ ڈورنڈ لائن کے مستقل حل اور مہاجرین کی واپسی سمیت تمام متنازعہ امور پر افغان حکومت کے ساتھ کھل کر مذاکرات کیے جائیں۔تاکہ خطے میں پائیدار امن اور مغربی سرحد کو شورشوں سے پاک کرنے میں مدد مل سکے۔ یاد رہے کہ ہمارے ایک طرف سمندر ہے، جب کہ تین اطراف میں موجود ممالک میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ بھی ہمارے خوشگوار تعلقات نہیں ہیں، جو کہ ایک المیہ ہے۔ اس لیے دوسروں کی چیرہ دستیاں اپنی جگہ، مگر خود ہم سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں یاہو رہی ہیں، ان کی درستی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں