محفوظ اور شفقت بھرا ماحول
افغانستان کی جنگ میں بھی لاکھوں بے گناہ افغانی مارے گئے ہیں، ان میں بچے بھی شامل ہیں
امریکا کے صدر بارک اوباما نے عوام سے اپنے ہفتہ وار خطاب میں دو باتیں ایسی کی ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''ہم اپنے بچوں کو محفوظ اورشفقت بھرا ماحول دینا چاہتے ہیں'' دوسری بات انھوں نے یہ کی ہے کہ ''مہلک ہتھیاروں تک رسائی ناقابل معافی جرم ہے'' اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق یا اخبار کی کاپی جوڑنے والے کی شرارت یا ذہانت کہ اوباما کی اس پانچ کالمی خبر کے بالکل برابر ایک تین کالمی تصویر چھپی ہے جس میں دو چھوٹے شامی بچے جو نیم برہنہ ہیں امداد لانے والے ریڈ کراس کے ٹرکوں کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں جو اوباما کی اس خواہش کا مذاق اڑا رہی ہیں جس میں انھوں نے بچوں کو محفوظ اور شفقت بھرا ماحول دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
اس کے برابر ایک اور خبر لگی ہے جس کی سرخی ہے جاپان کے مرکزی شہر میں 50 ہزار مظاہرین جزیرہ اوکی ناوا میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، عرب ملکوں کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جہاں مہلک ترین ہتھیاروں کے بڑے بڑے ذخیرے موجود ہیں ۔
امریکا کے سابق صدر جارج بش نے عراق پر جو حملہ کیا تھا اس کے لیے یہ بہانا بنایا گیا تھا کہ عراق کے صدر صدام نے مہلک ترین ہتھیاروں کا ذخیرہ کر رکھا ہے جو ''آزاد دنیا'' کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ اس بہانے امریکا 10 سال تک نہ صرف عراق پر قابض رہا بلکہ اس جنگ میں لگ بھگ دس لاکھ عراقی ہلاک کردیے گئے، ان ہلاک شدگان میں صرف بڑے ہی نہیں بچے بھی شامل تھے اور عراق کی اس جنگ میں امریکا نے لاٹھی ڈنڈے استعمال نہیں کیے بلکہ مہلک ترین وہ ہتھیار استعمال کیے جن کے استعمال کے خلاف اوباما شکایت کر رہے ہیں اور ان تک رسائی کو ناقابل معافی جرم قرار دے رہے ہیں۔
افغانستان کی جنگ میں بھی لاکھوں بے گناہ افغانی مارے گئے ہیں، ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ آج جنگ زدہ ملکوں خاص طور پر شام اور عراق سے اپنی جانیں بچانے کے لیے جو تارکین وطن مغربی ملکوں کو کشتیوں میں ٹھنس کر بھاگ رہے ہیں یہ تارکین وطن سے بھری ہوئی درجنوں کشتیاں ڈوب چکی ہیں اور ہزاروں تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے جن کی لاشیں سمندر میں اور سمندر کے کنارے بے یار و مددگار پڑی رہیں۔ ویت نام اور کوریا کی جنگوں میں لاکھوں کی تعداد میں مارے جانے والوں میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل تھے۔ اسی طرح 1945 میں جب امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تو کروڑوں جاپانی ان کی آگ میں جل کر خاک ہوگئے ان میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی مہربانی سے جس کا سب سے بڑا سرپرست امریکا ہے، ہر سال لاکھوں بچے دودھ نہ ملنے اور غذا کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں اور لاکھوں بچے علاج کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں ماں باپ کی آمدنی کم ہونے کی وجہ سے لاکھوں نہیں کروڑوں بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے یہ تمام بچے نہ محفوظ تھے نہ انھیں شفقت بھرا ماحول نصیب تھا۔ بلاشبہ بچے ہی ہر قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن دنیا میں موجود کروڑوں بچوں کا کوئی مستقبل ہی نہیں۔ آج کشمیر اور فلسطین میں ہزاروں بچے یتیمی کی زندگی گزار رہے ہیں جو نہ محفوظ ہیں نہ وہ دہشت بھرے ماحول سے واقف ہیں۔ کراچی کی مضافاتی بستیوں میں ہر روز صبح ہزاروں بچے کوڑے دانوں سے پلاسٹک کی پرانی تھیلیاں و شاپر چنتے اور رزق تلاش کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
مہلک ہتھیاروں تک رسائی کی بات اگرچہ اوباما نے امریکا کے ایک نائٹ کلب میں ہونے والی فائرنگ کے پس منظر میں کی ہے جس میں 50 امریکی ہلاک ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے شہر فلوریڈا میں استعمال کیا جانے والا ہتھیار بھی مہلک ہی تھا لیکن آج مغربی ملکوں کی اسلحے کی صنعتوں میں معمولی ریوالور سے لے کر F-16تک اور اس کے آگے ایٹمی ہتھیاروں تک جو جدید ترین ہتھیار کروڑوں کی تعداد میں تیار ہو رہے ہیں کیا ان کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے؟
اسلحے کے تاجروں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دنیا میں مختلف حوالوں سے کئی علاقائی تنازعات پیدا کر رکھے ہیں مثال کے طور پرکشمیر کا تنازعہ فلسطین کا تنازعہ۔کیا یہ تنازعات ناقابل حل ہیں؟ نہیں۔ یہ تنازعات قابل حل ہیں لیکن ہتھیاروں کے تاجر اس قسم کے تنازعات کو حل نہیں ہونے دیتے تاکہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں کمی نہ آجائے۔ ہندوستان اور پاکستان دو ایسے غریب ملک ہیں جہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے لیکن انھیں مسئلہ کشمیر میں ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
ہندوستان جو ماضی میں غیر جانبدار ملکوں کے پیشوا کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا اسے امریکا نے فوجی معاہدوں میں جکڑ لیا ہے اور یہ غریب ملک کھربوں روپوں کا وہ مہلک ترین اسلحہ قانونی طریقے سے خرید رہا ہے جس تک رسائی کو صدر اوباما ناقابل معافی جرم قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی اسلحے کی دوڑ پہلے سے جاری ہے امریکا ہی کی مہربانی سے اب بھارت اور چین بھی ایک دوسرے کے حریف بن گئے ہیں اور حریفوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ لازمی ہوتی ہے مسٹر اوباما ! آپ مہلک ہتھیاروں تک کس کی رسائی کو ناقابل معافی کہہ رہے ہیں؟
اس کے برابر ایک اور خبر لگی ہے جس کی سرخی ہے جاپان کے مرکزی شہر میں 50 ہزار مظاہرین جزیرہ اوکی ناوا میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، عرب ملکوں کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جہاں مہلک ترین ہتھیاروں کے بڑے بڑے ذخیرے موجود ہیں ۔
امریکا کے سابق صدر جارج بش نے عراق پر جو حملہ کیا تھا اس کے لیے یہ بہانا بنایا گیا تھا کہ عراق کے صدر صدام نے مہلک ترین ہتھیاروں کا ذخیرہ کر رکھا ہے جو ''آزاد دنیا'' کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ اس بہانے امریکا 10 سال تک نہ صرف عراق پر قابض رہا بلکہ اس جنگ میں لگ بھگ دس لاکھ عراقی ہلاک کردیے گئے، ان ہلاک شدگان میں صرف بڑے ہی نہیں بچے بھی شامل تھے اور عراق کی اس جنگ میں امریکا نے لاٹھی ڈنڈے استعمال نہیں کیے بلکہ مہلک ترین وہ ہتھیار استعمال کیے جن کے استعمال کے خلاف اوباما شکایت کر رہے ہیں اور ان تک رسائی کو ناقابل معافی جرم قرار دے رہے ہیں۔
افغانستان کی جنگ میں بھی لاکھوں بے گناہ افغانی مارے گئے ہیں، ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ آج جنگ زدہ ملکوں خاص طور پر شام اور عراق سے اپنی جانیں بچانے کے لیے جو تارکین وطن مغربی ملکوں کو کشتیوں میں ٹھنس کر بھاگ رہے ہیں یہ تارکین وطن سے بھری ہوئی درجنوں کشتیاں ڈوب چکی ہیں اور ہزاروں تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے جن کی لاشیں سمندر میں اور سمندر کے کنارے بے یار و مددگار پڑی رہیں۔ ویت نام اور کوریا کی جنگوں میں لاکھوں کی تعداد میں مارے جانے والوں میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل تھے۔ اسی طرح 1945 میں جب امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تو کروڑوں جاپانی ان کی آگ میں جل کر خاک ہوگئے ان میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔
سرمایہ دارانہ نظام کی مہربانی سے جس کا سب سے بڑا سرپرست امریکا ہے، ہر سال لاکھوں بچے دودھ نہ ملنے اور غذا کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں اور لاکھوں بچے علاج کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہے ہیں ماں باپ کی آمدنی کم ہونے کی وجہ سے لاکھوں نہیں کروڑوں بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے یہ تمام بچے نہ محفوظ تھے نہ انھیں شفقت بھرا ماحول نصیب تھا۔ بلاشبہ بچے ہی ہر قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن دنیا میں موجود کروڑوں بچوں کا کوئی مستقبل ہی نہیں۔ آج کشمیر اور فلسطین میں ہزاروں بچے یتیمی کی زندگی گزار رہے ہیں جو نہ محفوظ ہیں نہ وہ دہشت بھرے ماحول سے واقف ہیں۔ کراچی کی مضافاتی بستیوں میں ہر روز صبح ہزاروں بچے کوڑے دانوں سے پلاسٹک کی پرانی تھیلیاں و شاپر چنتے اور رزق تلاش کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
مہلک ہتھیاروں تک رسائی کی بات اگرچہ اوباما نے امریکا کے ایک نائٹ کلب میں ہونے والی فائرنگ کے پس منظر میں کی ہے جس میں 50 امریکی ہلاک ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے شہر فلوریڈا میں استعمال کیا جانے والا ہتھیار بھی مہلک ہی تھا لیکن آج مغربی ملکوں کی اسلحے کی صنعتوں میں معمولی ریوالور سے لے کر F-16تک اور اس کے آگے ایٹمی ہتھیاروں تک جو جدید ترین ہتھیار کروڑوں کی تعداد میں تیار ہو رہے ہیں کیا ان کی ہلاکت خیزی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے؟
اسلحے کے تاجروں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دنیا میں مختلف حوالوں سے کئی علاقائی تنازعات پیدا کر رکھے ہیں مثال کے طور پرکشمیر کا تنازعہ فلسطین کا تنازعہ۔کیا یہ تنازعات ناقابل حل ہیں؟ نہیں۔ یہ تنازعات قابل حل ہیں لیکن ہتھیاروں کے تاجر اس قسم کے تنازعات کو حل نہیں ہونے دیتے تاکہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں کمی نہ آجائے۔ ہندوستان اور پاکستان دو ایسے غریب ملک ہیں جہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے لیکن انھیں مسئلہ کشمیر میں ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
ہندوستان جو ماضی میں غیر جانبدار ملکوں کے پیشوا کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا اسے امریکا نے فوجی معاہدوں میں جکڑ لیا ہے اور یہ غریب ملک کھربوں روپوں کا وہ مہلک ترین اسلحہ قانونی طریقے سے خرید رہا ہے جس تک رسائی کو صدر اوباما ناقابل معافی جرم قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی اسلحے کی دوڑ پہلے سے جاری ہے امریکا ہی کی مہربانی سے اب بھارت اور چین بھی ایک دوسرے کے حریف بن گئے ہیں اور حریفوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ لازمی ہوتی ہے مسٹر اوباما ! آپ مہلک ہتھیاروں تک کس کی رسائی کو ناقابل معافی کہہ رہے ہیں؟