اسلام میں کوئی این آر او نہیں

موجودہ رمضان المبارک کا پہلا جمعہ تھا اور دوپہر کا ایک بجا تھا


سید معظم حئی June 22, 2016
[email protected]

موجودہ رمضان المبارک کا پہلا جمعہ تھا اور دوپہر کا ایک بجا تھا۔ مسجد کی پہلی منزل کا ہال جو اس وقت عموماً خالی پڑا ہوتا ہے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ تھے کہ جوق درجوق چلے آ رہے تھے۔ اسی دوران مسجد کے بلند آہنگ لاؤڈ اسپیکر بھی محترم امام صاحب کی تقریرکے لیے بیدار ہو گئے۔ امام صاحب نے سب سے پہلے روزوں کی اہمیت و فضیلت بیان کی اور روزے نماز کی تلقین کی، اور زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن پاک پہ زور دیا۔ سکوت کے اس وقفے میں، میں نے سوچا کہ یقینا نیکیوں کے اس ماہ مبارک میں امام صاحب اب عبادات کے علاوہ دوسرے نیک اعمال کرنے کی بھی تلقین فرمائیں گے۔

حدیث پاکؐ کی روشنی میں ہمارے سیاستدانوں، سول و فوجی بیوروکریسی میں موجود کرپٹ افراد اور ان کے فرنٹ مینوں، درباریوں، چمچوں، گماشتوں، تاجر و کاروباری برادری میں موجود بے ایمان عناصر، قبضہ گیروں، بھتہ خوروں،کام چوروں، سرکاری و نجی زمینوں پہ قبضہ کرنے، چائنا کٹنگ کرنیوالوں، تجاوزات کرنیوالوں، تجاوز کرانیوالوں، لوگوں کا پانی تک چوری کر جانیوالوں، ہم میں موجود بے ایمانوں،کام چوروں، دوسروں کا حق مارنے والوں کی آمدنی اور اس سے کیے جانے والے حج، عمرہ اور دوسری عبادتوں کی کیا حیثیت ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے یہ جامع اور واضح ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سارا سال، ساری زندگی کرپشن، بے ایمانی، بے انصافی کریں، حرام کمائیں اور پھر عبادتوں سے سب معاف کروا لیں، اپنا حرام حلال کروا لیں جی نہیں اسلام میں کوئی این آر او نہیں۔

میں ہمہ تن گوش تھا کہ اب امام صاحب بیان فرمائیں گے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے آخری نبیؐ سے پوچھا گیا ''کوئی مسلمان بزدل بھی ہو سکتا ہے؟'' آپؐ نے فرمایا ''ہاں، ہو سکتا ہے۔'' پھر پوچھا گیا ''کیا کوئی مسلمان بخیل بھی ہوسکتا ہے؟'' آپؐ نے فرمایا ''ہاں، ہو سکتا ہے۔'' پھر پوچھا گیا کہ کیا کوئی مسلمان جھوٹا بھی ہو سکتا ہے؟ آپؐ کافی دیر تک فرماتے اور دہراتے رہے۔

''نہیں کوئی مسلمان جھوٹا نہیں ہو سکتا۔'' مجھے پوری امید تھی کہ جناب امام صاحب ہمیں اس حدیث مبارکہؐ کے بارے میں ضرور بتائیں گے کہ ہمارا تو مجموعی کاروبار زندگی، طریقہ حیات ہی جیسے اب جھوٹ پہ استوار نظر آتا ہے۔ ہم، ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں بشمول ''مذہبی'' سیاستدانوں، میگا کرپٹ موجودہ و سابق VVIP، ٹی وی ٹاک شو میں آنکھیں گھماتے، زبانیں چلاتے، فیل مچاتے چمچوں، درباریوں، تاجروں، افسروں، اہلکاروں، عام شہریوں، ہم میں سے کتنے ہی ہیں کہ اٹھتے بیٹھتے جھوٹ پہ جھوٹ بولتے ہیں اور خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ محترم امام صاحب ہمیں بتائیں گے کہ تعلیمات نبویؐ میں ہے کہ شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے۔

ایمان کے بعد افضل ترین نیکی خلق کو آرام دینا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ امام صاحب ہمیں یہ ضرور بتائیں گے کیونکہ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ کروڑوں لوگوں کا حق، ان کا مال، سرکاری خزانہ لوٹ کر ان کروڑوں لوگوں کو ایذا پہنچانے والے ہمارے حکمراں طبقے سے لے کر اسپتالوں میں مریضوں کو مرتا چھوڑ کر بات بے بات سڑکوں کو لوگوں پہ بند کر کے احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں سے لے کر پورے پورے شہر کا پانی چرا کر ڈالر لانچوں میں دبئی بھیجنے اور روپے گوٹھوں میں دفن کرنے والوں سے لے کر ایک دوسرے کو ہر طرح سے اذیت پہنچانے والے ہم تقریباً سبھی لوگوں کو جیسے یہ تعلیمات نبویؐ کبھی بتائی ہی نہیں گئیں۔

محترم امام صاحب کا توقف ٹوٹا اور ساتھ ہی تقریباً ہمیشہ ہی کی طرح میری خوش امیدی بھی جب انھوں نے پہلے باآواز بلند تبسم فرمایا پھر گویا ہوئے کہ پھر آپ لوگ سو جائیں کہ جاگتے رہیں گے تو ہو سکتا ہے کہ لغو باتوں میں مشغول ہو جائیں پس بہتر ہے کہ سوجائیں۔ کیوں سو جائیں؟ کیوں نہ نیک اعمال کریں۔ کیوں نہ اس رمضان المبارک سے ہی نیک اعمال کا عبادات کے علاوہ بھی آغاز کر دیں۔ ہماری بدقسمتی کے دو حصے ہیں نمبر ایک کہ اسلام جو دین مکمل ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو برتنے اور ہر لمحے کو گزارنے کا ہر طریقہ ہر سلیقہ بتاتا اور سکھاتا ہے اسے ہم اور ہمارے مذہبی طبقے کے ایک واضح وسیع تر حصے نے عبادات و ظاہری علامات تک محدود کر دیا ہے۔ نمبر دو اور ان عبادات و علامات کو ہم نے اپنے ''سارے گناہ'' معاف کروانے کا آسان طریقہ سمجھ لیا ہے اور ہم تقریباً سب ہی جیسے اپنے اس ''بندوبست'' پہ شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں۔

چلیے آپ مسجد میں آنے جانے کے آداب ہی بتا دیجیے کہ ہم انھی سے آداب زندگی کا آغاز کر دیں کہ مسجد کے باہر کی زندگی کی مانند مسجد کے بھی ہم نے اپنے ہی آداب بنا لیے ہیں مثلاً مسجد کے باہرگاڑی ایسے کھڑی کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ گاڑیاں پھنس سکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ تکلیف اٹھا سکیں۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت مجال ہے جو ذرا ٹھہر جائیں، صبر سے کام لیں اور دوسروں کو آگے نکلنے کا موقع دیں، دو چار سیکنڈ انتظار کر کے برابر اور آگے جانے والے لوگوں کو نکل جانے کا موقعہ دینے کے بجائے اچانک ان کے سامنے آ جائیں گے، دوسروں کا راستہ کاٹیں گے، دوسروں کی چپلوں اور جوتوں پہ اپنی چپلیں اور جوتے رکھیں گے، وضو کر کے آئے ہیں تو صف میں بیٹھے لوگوں پہ پانی ٹپکاتے جائیں گے، صفیں پھلانگتے، لوگوں کو لاتیں اور ٹکریں مارتے آگے جائیں گے۔

اپنا پانی، پسینے میں بھیگا رومال جائے نماز پہ بچھا کر سکھائیں گے کہ ساتھ والا آدمی بھی تکلیف اٹھائے، تقریروخطبے کے دوران چاہے صف میں گنجائش ہو کہ نہیں ہم پوری آلتی پالتی مار کے ایک قبائلی سردار کی سی شان سے زیادہ سے زیادہ جگہ گھیر کے بیٹھیں گے۔ عین نماز کے دوران گونج دار ڈکاروں سے اپنی خوش خوراکی کا اعلان کریں گے۔

منہ پہ ہاتھ رکھے بغیر بے دریغ پورے زور سے چھینکیں ماریں گے کہ برابر والا بھی ہمارے جراثیم سے مستفید ہو۔ آخر کی سنتیں اور نوافل باوجود آگے جگہ خالی ہونے کے ہم مسجد سے باہر نکلنے کے راستے پہ ادا کریں گے تا کہ جو لوگ نماز ختم کر کے جانا چاہتے ہیں انھیں مسئلہ ہو، جوتے، چپلیں اوپر سے اٹھا اٹھا کر زمین پہ پھینکیں گے تاکہ زور کی آواز پیدا ہو اور ان کے تلوں میں لگی مٹی مسجد میں پھیلے۔ اور ہاں یہ تو بتانا ہی بھول گیا کہ کیسے ہم تکبیرکے دوران سر گھما گھما کے چاروں طرف دیکھتے ہیں اور کیسے خود آگے بڑھ کر خالی صف پر کرنے کے بجائے دوسروں کو اشارے کر کر کے بلاتے ہیں۔ ادھر جب مسجد کے آداب بتانے کی بات ہو تو امام صاحب صف سیدھی رکھنے اور صفوں کے بیچ جگہ نہ چھوڑنے کی تلقین تک محدود رہتے ہیں کچھ ایسے جیسے ہم نے اپنے مذہب کو حقوق العباد سے عملی طور پر جدا کر کے عبادات و علامات تک محدود کر دیا ہے۔

چلیے آپ اور کچھ نہیں تو لوگوں کو یہی بتا دیجیے کہ نماز صرف رمضان المبارک میں نہیں بلکہ سارا سال فرض ہے۔ کہیں سے تو آغازکیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں