17 رمضان غزوۂ بدر نصرت الٰہی کا مظہر
آج بھی اگر ہم اسوۂ رسول اکرمؐ پر عمل پیرا ہوجائیں تو فرشتے ہماری مدد و نصرت کے لیے آسمانوں سے اتر سکتے ہیں
بدر وہ مقام ہے جہاں 17رمضان المبارک2 ھ جمعے کے دن کفار اور اہل ایمان کے درمیان جنگ ہوئی۔ یہاں ایک کنواں تھا جس کے مالک کا نام بدر بن عامر تھا، اسی سے اس کنویں اور پھر اس جگہ کا نام بدر پڑا۔
یہ جنگ کیوں لڑی گئی؟ مورخین نے اس جنگ کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ مگر جنگ بدر کی بڑی وجہ یہ واقعہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ طواف کعبہ کے لیے جارہے تھے کہ ابوجہل نے ان سے کہا، اگر تم ابی صفوان (امیہ) کے مہمان نہ ہوتے تو اپنے گھر صحیح سلامت واپس نہ لوٹتے۔ جواب میں حضرت سعدؓ نے فرمایا، اگر تم ہمیں کعبہ جانے سے روکو گے تو ہم تمہارا تجارتی راستہ (یعنی شام کا راستہ) روک دیں گے۔
قریش نے کبھی کسی کو خانہ کعبہ آنے سے نہیں روکا تھا، یہ پہلا واقعہ تھا، لہذا حضور نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کو اس پابندی کے ہٹانے پر مجبور کرنے کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ کی دھمکی کے مطابق اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ جن کی تعداد تین سو سے کچھ زاید تھی، نہایت جلدی میں اور کم سامان جنگ کے ساتھ گھر سے نکلے۔ ادھر مکہ مکرمہ سے کفار قریش کا ایک بہت بڑا لشکر جس کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ہوکر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوا۔
غزوۂ بدر کے چند اہم واقعات
٭ جب نبی کریم ﷺ نے چند بچوں کو جنگ میں جانے سے روک کر واپس بھیجا تو سعد بن ابی وقاصؓ کے چھوٹے بھائی عمیر بن ابی وقاصؓ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ یہ دیکھ کر نبی اکرمؐ بہت متاثر ہوئے اور آپ نے انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔
٭ لشکر اسلام 16رمضان المبارک کو مقام بدر پر پہنچا۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ زمین پر ایک خاص جگہ ہاتھ رکھتے اور فرماتے، یہ فلاں کافر کے مر کر گرنے کی جگہ ہے اور ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر کافر اسی جگہ مرا۔ کتب احادیث میں عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہؓ سے مروی ہے کہ دوسرے روز جنگ ختم ہونے کے بعد جب ہم نے ان نشانات کو دیکھا تو ہر کافر اسی جگہ مرا پڑا تھا جہاں حضور ﷺ نے نشان لگائے تھے۔
٭ نبی کریم ﷺ کے لیے ایک جھونپڑی بنائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے۔
٭ حضور ﷺ ساری رات اﷲ تعالی کی بارگاہ میں دعائیں فرماتے رہے۔ پھر اگلے روز یعنی17رمضان المبارک کو صحابہؓ کی صف بندی اس طرح فرمائی کہ قلت تعداد کے باوجود وہ بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ اس کے بعد جھونپڑی میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ دعا فرمائی،
اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، اسے پورا فرما، اے اﷲ! جو تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے مجھے عطا فرما، اے اﷲ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔ نبی اکرمؐ نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ہاتھوں کو پھیلا کر اونچی آواز سے دعا کررہے تھے کہ آپؐ کے کندھوں سے چادر مبارک گرگئی تو ابوبکر صدیقؓ نے حاضر ہوکر چادر مبارک کندھوں پر ڈال دی اور عرض کیا، یارسول اﷲ ﷺ آپ کی اﷲ سے یہ دعا کافی ہے۔ آپؐ کا رب آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔ اس کے بعد رسول مکرم ﷺ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے، عن قریب کفار کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔
٭ نبی کریم ﷺ چھڑی سے مجاہدین کی صفیں درست کررہے تھے کہ آپ کی چھڑی حضرت سوادؓ کے پیٹ پر لگی جس پر حضرت سوادؓ نے قصاص کا مطالبہ کیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے پیٹ مبارک سے پیراہن اٹھا کر فرمایا، میرا شکم قصاص کے لیے حاضر ہے۔ حضرت سوادؓ نے فورا شکم مبارک کو چوم لیا۔ بعد میں جب حضرت سوادؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے نبی اکرم ﷺ سے قصاص کا مطالبہ کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا، میدان جنگ میں اچانک اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش مرتے وقت میرا بدن رسول کریم ﷺ کے جسم مبارک سے چُھو جائے۔ اس پر حضور ؓ نے حضرت سواد انصاریؓ کے لیے دعا فرمائی۔
٭ حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابوحسیل ؓ کہیں سے آرہے تھے کہ کفار نے راستے میں روک لیا اور اس وعدے پر چھوڑا کہ وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ دونوں صحابیؓ میدان میں پہنچے اور پوری صورت حال نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بیان کی تو رسول کریم ﷺ نے ان دونوں کو صفوں سے الگ کردیا اور ارشاد فرمایا، ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے۔ جنگ بدر میں افراد کی کمی کے باوجود حضور ﷺ کا یہ فیصلہ ایفائے عہد کی عظیم مثال ہے۔
٭ رمضان المبارک 2 ھ کی 17 تاریخ، جمعہ المبارک کا دن تھا کہ دوپہر کے وقت لڑائی شروع ہوئی۔ ابتدا میں انفرادی لڑائی ہوئی پھر اجتماعی جنگ ہوئی۔ حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور دیگر صحابہؓ نے شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے اور مختصر مدت میں کفار کی صفوں کو منتشر کردیا اور کفار نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس جنگ میں70 کفار قتل ہوئے، جن میں 22 سردار شامل تھے۔ 70سرکردہ افراد گرفتار ہوئے اور باقی فرار ہوگئے۔ اس طرح اﷲ تعالی نے رسول عربی ﷺ اور آپ کے غلاموں کو فتح مبین عطا فرمائی۔
جنگ بدر میں ابوعبیدہؓ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروقؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعبؓ نے اپنے بھائی کو اور اسی طرح بہت سے صحابہؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور حب نبوی ﷺ کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ جب قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی تو عمر فاروقؓ نے مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کو خود قتل کرے۔ ابوبکر صدیقؓ نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے، اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔
نبی رحمت ﷺ نے صدیق اکبرؓ کے مشورے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔
اس جنگ میں اﷲ نے مومنین کو فتح مبین عطا فرمائی۔ آج بھی اگر ہم اسوہ رسول اکرم ﷺ پر عمل پیرا ہوجائیں تو فرشتے ہماری مدد و نصرت کے لیے آسمانوں سے اتر سکتے ہیں۔
یہ جنگ کیوں لڑی گئی؟ مورخین نے اس جنگ کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ مگر جنگ بدر کی بڑی وجہ یہ واقعہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ طواف کعبہ کے لیے جارہے تھے کہ ابوجہل نے ان سے کہا، اگر تم ابی صفوان (امیہ) کے مہمان نہ ہوتے تو اپنے گھر صحیح سلامت واپس نہ لوٹتے۔ جواب میں حضرت سعدؓ نے فرمایا، اگر تم ہمیں کعبہ جانے سے روکو گے تو ہم تمہارا تجارتی راستہ (یعنی شام کا راستہ) روک دیں گے۔
قریش نے کبھی کسی کو خانہ کعبہ آنے سے نہیں روکا تھا، یہ پہلا واقعہ تھا، لہذا حضور نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کو اس پابندی کے ہٹانے پر مجبور کرنے کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ کی دھمکی کے مطابق اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ جن کی تعداد تین سو سے کچھ زاید تھی، نہایت جلدی میں اور کم سامان جنگ کے ساتھ گھر سے نکلے۔ ادھر مکہ مکرمہ سے کفار قریش کا ایک بہت بڑا لشکر جس کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ہوکر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوا۔
غزوۂ بدر کے چند اہم واقعات
٭ جب نبی کریم ﷺ نے چند بچوں کو جنگ میں جانے سے روک کر واپس بھیجا تو سعد بن ابی وقاصؓ کے چھوٹے بھائی عمیر بن ابی وقاصؓ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ یہ دیکھ کر نبی اکرمؐ بہت متاثر ہوئے اور آپ نے انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔
٭ لشکر اسلام 16رمضان المبارک کو مقام بدر پر پہنچا۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ زمین پر ایک خاص جگہ ہاتھ رکھتے اور فرماتے، یہ فلاں کافر کے مر کر گرنے کی جگہ ہے اور ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر کافر اسی جگہ مرا۔ کتب احادیث میں عمر فاروقؓ اور دیگر صحابہؓ سے مروی ہے کہ دوسرے روز جنگ ختم ہونے کے بعد جب ہم نے ان نشانات کو دیکھا تو ہر کافر اسی جگہ مرا پڑا تھا جہاں حضور ﷺ نے نشان لگائے تھے۔
٭ نبی کریم ﷺ کے لیے ایک جھونپڑی بنائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے۔
٭ حضور ﷺ ساری رات اﷲ تعالی کی بارگاہ میں دعائیں فرماتے رہے۔ پھر اگلے روز یعنی17رمضان المبارک کو صحابہؓ کی صف بندی اس طرح فرمائی کہ قلت تعداد کے باوجود وہ بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ اس کے بعد جھونپڑی میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ دعا فرمائی،
اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، اسے پورا فرما، اے اﷲ! جو تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے مجھے عطا فرما، اے اﷲ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔ نبی اکرمؐ نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ہاتھوں کو پھیلا کر اونچی آواز سے دعا کررہے تھے کہ آپؐ کے کندھوں سے چادر مبارک گرگئی تو ابوبکر صدیقؓ نے حاضر ہوکر چادر مبارک کندھوں پر ڈال دی اور عرض کیا، یارسول اﷲ ﷺ آپ کی اﷲ سے یہ دعا کافی ہے۔ آپؐ کا رب آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔ اس کے بعد رسول مکرم ﷺ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے، عن قریب کفار کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔
٭ نبی کریم ﷺ چھڑی سے مجاہدین کی صفیں درست کررہے تھے کہ آپ کی چھڑی حضرت سوادؓ کے پیٹ پر لگی جس پر حضرت سوادؓ نے قصاص کا مطالبہ کیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے پیٹ مبارک سے پیراہن اٹھا کر فرمایا، میرا شکم قصاص کے لیے حاضر ہے۔ حضرت سوادؓ نے فورا شکم مبارک کو چوم لیا۔ بعد میں جب حضرت سوادؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے نبی اکرم ﷺ سے قصاص کا مطالبہ کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا، میدان جنگ میں اچانک اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش مرتے وقت میرا بدن رسول کریم ﷺ کے جسم مبارک سے چُھو جائے۔ اس پر حضور ؓ نے حضرت سواد انصاریؓ کے لیے دعا فرمائی۔
٭ حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابوحسیل ؓ کہیں سے آرہے تھے کہ کفار نے راستے میں روک لیا اور اس وعدے پر چھوڑا کہ وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ دونوں صحابیؓ میدان میں پہنچے اور پوری صورت حال نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بیان کی تو رسول کریم ﷺ نے ان دونوں کو صفوں سے الگ کردیا اور ارشاد فرمایا، ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے۔ جنگ بدر میں افراد کی کمی کے باوجود حضور ﷺ کا یہ فیصلہ ایفائے عہد کی عظیم مثال ہے۔
٭ رمضان المبارک 2 ھ کی 17 تاریخ، جمعہ المبارک کا دن تھا کہ دوپہر کے وقت لڑائی شروع ہوئی۔ ابتدا میں انفرادی لڑائی ہوئی پھر اجتماعی جنگ ہوئی۔ حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور دیگر صحابہؓ نے شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے اور مختصر مدت میں کفار کی صفوں کو منتشر کردیا اور کفار نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس جنگ میں70 کفار قتل ہوئے، جن میں 22 سردار شامل تھے۔ 70سرکردہ افراد گرفتار ہوئے اور باقی فرار ہوگئے۔ اس طرح اﷲ تعالی نے رسول عربی ﷺ اور آپ کے غلاموں کو فتح مبین عطا فرمائی۔
جنگ بدر میں ابوعبیدہؓ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروقؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعبؓ نے اپنے بھائی کو اور اسی طرح بہت سے صحابہؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور حب نبوی ﷺ کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ جب قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی تو عمر فاروقؓ نے مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کو خود قتل کرے۔ ابوبکر صدیقؓ نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے، اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔
نبی رحمت ﷺ نے صدیق اکبرؓ کے مشورے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔
اس جنگ میں اﷲ نے مومنین کو فتح مبین عطا فرمائی۔ آج بھی اگر ہم اسوہ رسول اکرم ﷺ پر عمل پیرا ہوجائیں تو فرشتے ہماری مدد و نصرت کے لیے آسمانوں سے اتر سکتے ہیں۔