90 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود لاڑکانہ کھنڈر بنا ہوا ہے

’’ ڈیل‘‘ کے ذریعے لاڑکانہ میں بلدیاتی الیکشن کے بعد اہم عہدوں پر داغ دار اور کرپشن آلود لوگ نامزد کیے گئے۔


’’ ڈیل‘‘ کے ذریعے لاڑکانہ میں بلدیاتی الیکشن کے بعد اہم عہدوں پر داغ دار اور کرپشن آلود لوگ نامزد کیے گئے۔ فوٹو: فائل

یہ کہتے ہوئے اچھا تو نہیں لگتا لیکن کہے بنا کوئی چارہ بھی نہیں کہ سیاست داںاس قدر بے حس ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنی بدنامی کا رتی بھر بھی احساس نہیں رہا۔ اس کی بدترین مثال حکم راں جماعت کی جانب سے '' ڈیل'' کے ذریعے لاڑکانہ میں بلدیاتی الیکشن کے بعد اہم عہدوں پر نام زد کیے گئے وہ لوگ ہیں، جن کا کردار شہریوں کی نظر میں داغ دار اور کرپشن آلود ہے۔

کبھی یہ تاثر عام تھا کہ سیاسی پارٹیاں عوام کی حمایت سے آگے بڑھتی ہیں لیکن کئی سال قبل جب علاقے کے بااثر وڈیرے یا جاگیردار کو پارٹی میں شامل کرکے اس علاقے کی ڈری، سہمی رعایا کا ووٹ باآسانی حاصل کرنے کی سیاسی روایت شروع ہوئی، تب سے ہی عوام سے جڑے بنیادی مسائل کے حل میں عوامی رائے کی اہمیت ختم ہوگئی اور یوں معاشرتی مسائل کا نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کے ختم ہونے کی دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ایک غریب محنت کش، اک عام کاروباری شخص اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے پرامن ماحول، روزگار، پینے کا صاف پانی، معیاری طبی اور تعلیمی سہولیات سمیت انصاف کا متقاضی ہے لیکن یہ بنیادی ضروریات جن کو فراہم کرنا حکومتی ذمے داری ہے کا حصول آج عوام کے لیے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہیں۔

پہلے سیاسی جماعتوں کا یہ عمل تو کسی حد تک قابل قبول تھا کہ جہاں مسائل میں گھر ے عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے وہ علاقے کے معزز یا بااثر شخصیات کا سہارا لیا کرتی تھیں۔ لیکن جب سے سیاسی جماعتوں نے ووٹ کے حصول کے لیے کرپٹ، سرمایہ دار، رشوت خور یہاں تک کہ خطرناک جرائم پیشہ افراد کا سہارا لینا شروع کردیا ہے، تب سے نہ صرف حالات بدترین ہوگئے ہیں بل کہ ان کا علاج بھی ناممکن لگتا ہے۔

ایسے میں عوامی مسائل کا حل بھی ان جماعتوں کی ترجیح نہیں رہا۔ ایسی ہی گھناؤنی سیاست کا عکس لاڑکانہ میں صاف دکھائی دینے لگا ہے کیوں کہ شہریوں کی نظر میں حکم راں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے اہم بلدیاتی عہدوں پر جن افراد کو نام زد کیا ہے ان میں کئی لاڑکانہ کے ترقیاتی منصوبوں کی تباہی اور کروڑوں کی کرپشن کے الزام کی زد میں ہیں اور آج تک وہ اس الزام کو جھوٹا ثابت کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات کے بعد بدترین دھڑے بندی کا شکار پیپلزپارٹی کے مقامی راہ نما عہدوں کے حصول کی جنگ لڑ رہے تھے تب پیپلزپارٹی کی مرکزی راہ نما ایم این اے فریال تالپور کا کہنا تھا کہ وہ بلدیاتی عہدوں کے لیے ایسے لوگ نام زد کریں گی کہ جن کا لوگوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ تب شہری یہ سمجھ رہے تھے کہ اب کی بار باکردار، اچھے پڑھے لکھے اور نوجوان لوگ سامنے آئیں گے لیکن اب شہریوں کی تمام امیدیں دم توڑ گئی ہیں اور وہ پیپلزپارٹی قیادت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے ضلع کونسل لاڑکانہ کے چیئرمین کے لیے صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے بھائی تحصیل باقرانی کے صدر طارق انور سیال اور وزیر تعلیم نثار کھوڑو کی بیٹی ندا کھوڑو کوشاں تھے تاہم ناکامی پر نثار کھوڑو نے پیپلزپارٹی کے سینیر کارکن قاضی اصغر جب کہ سیال برادری نے خان محمد سانگرو (جن پر مبینہ طور پر تحصیل ڈوکری کے کئی ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کے الزامات ہیں) کو ضلع کونسل کا چیئرمین بنانے کی سفارش کی۔ جس پر سیال لابی کام یاب رہی اور ایم این اے فریال تالپور سے ملاقات اور مبینہ ڈیل کے بعد ٹھیکے دار خان محمد سانگرو کو ضلع کونسل کا چیئرمین نام زد کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح چیئرمین کے عہدے کے خواہش مند پی پی رتوڈیرو کے سابق صدر اعجاز لغاری کو وائس چیئرمین بنانے کی پیش کش کی گئی لیکن ان کے انکار اور پھر سفارش پر پارٹی کارکن لالا نظر محمد پٹھان کو وائس چیئرمین نام زد کیا گیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی پیپلزپارٹی کی جانب سے لاڑکانہ کے میئر کے لیے پارٹی کے سینیر راہ نما اور سابق ضلعی صدر خیر محمد شیخ مضبوط امیدوار تھے تاہم پارٹی قیادت نے مبینہ طور پر پانچ کروڑ روپے کی ڈیل کے بعد ایسے تاجر اور ٹھیکے دار محمد اسلم شیخ کو نام زد کیا ہے جن پر لاڑکانہ کو روشن کرنے کے لیے وفاق و صوبائی حکومت کی سولر پینل لائٹس کی تنصیب کی اسکیم میں کروڑوں روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ کیوں کہ خطیر رقم کی اس اسکیم میں غیر معیاری آلات استعمال ہونے کی وجہ سے شروع دن سے ہی اس اسکیم سے شہری مستفید نہیں ہو سکے ہیں۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ اک وزیر کے کہنے پر کروڑوں روپے مالیت کا مذکورہ ٹھیکا دیا گیا تھا جس میں وہ خود بھی حصہ دار تھے یا انہیں بھاری کمیشن ملا تھا۔ دوسری جانب ڈپٹی میئر کے لیے بھی نام زد امیدوار انور علی لہر بڑے سرمائے دار علی نواز لہر کے بیٹے ہیں، جن کے لیے بھی یہ تاثر عام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر عہدے کے حصول کے لیے دو کروڑ روپے دیے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ لاڑکانہ کے شہری پیپلزپارٹی کی قیادت کے ان فیصلوں سے کسی طور بھی خوش نظر نہیں آتے اور حیران ہیں کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس سارے معاملے سے باخبر ہیں تو کرپٹ عناصر کی اہم بلدیاتی عہدوں پر نام زدگی پر خاموش کیوں ہیں۔

کچھ عرصہ قبل جب بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی کی مرکزی، صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی باڈیز کو تحلیل کرتے ہوئے عوامی عدالت میں جانے کا اعلان کیا تھا کہ اب ہر فیصلہ عوام کی مشاورت سے ہی ہوگا تو پھر لاڑکانہ میں عوام کی امنگوں کے برعکس فیصلے کیوں کیے گئے ہیں۔ ذاریع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو ان تمام معاملات سے دور رکھا گیا ہے جنہیں ان کی پھوپھی ایم این اے فریال تالپور ہی دیکھتی ہیں۔ بلدیاتی عہدوں پر کام یاب امیدواروں کے درمیان ووٹنگ کے بعد عہدے دار 29جون کو منتخب ہوکر 5جولائی کو حلف لے کر 6جولائی کو اپنا منصب سنبھالیں گے۔

ایک جانب پیپلزپارٹی کی مرکزی، صوبائی اور ذیلی باڈیز تحلیل کی گئی تو متعدد راہ نما و کارکنان بلدیاتی عہدوں کے حصول کے لیے کوشاں رہے اب جب یہ عمل بھی مکمل کر لیا گیا ہے تو ایک بار پھر پارٹی عہدوں کے حصول کے لیے پارٹی میں موجود دھڑوں نے لابنگ کرنا شروع کر دی ہے اور ان کے درمیان سرد جنگ شدت اختیار کرگئی ہے۔ پارٹی ذرایع کا کہنا ہے کہ میئر کے لیے مضبوط امیدوار سمجھے جانے والے پیپلزپارٹی ضلع لاڑکانہ کے سابق صدر خیر محمد شیخ نے میئر نہ بنائے جانے پر ایک بار پھر ضلعی صدر کا عہدہ مانگ لیا ہے جن کے مدمقابل کئی سال سے پارٹی کے ضلعی سیکریٹری جنرل عبدالفتاح بھٹو نے سیال برادری کے ساتھ مل کر پارٹی کی ضلعی صدارت کے حصول کے لیے سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔

اسی طرح ضلعی سیکریٹری جنرل کے لیے صوبائی وزیر داخلہ کے بھائی طارق انور سیال بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ سیاسی گہما گہمی میں سیاسی لوگوں اور ان کے من پسند بیوروکریٹس کے تو حالات بہتر ہو تے جا رہے ہیں لیکن عوام مسائل کی چکی میں پستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ لاقانونیت، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ اور حکومتی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی شخصیات کے رحم و کرم پر چھوڑے گئے بلدیاتی ادارے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ ایک جانب سے صوبائی وزیر داخلہ کے دو برادر نسبتی انتہائی جونیئر گیارہ گریڈ کے افسر ہونے کے باوجود تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن باقرانی اور ڈوکری میں اٹھارہ گریڈ کے افسران کی جگہ بٹھائے گئے تھے لیکن ایف آئی اے اور نیب کی چھاپہ مار ٹیموں اور اینٹی کرپشن کی کارروائیوں کے بعد مذکورہ اسامیاں کئی ماہ سے خالی ہیں، جہاں کوئی افسر اب آنے کو تیار نہیں۔

اسی طرح ڈوکری ٹی ایم اے میں پیپلزپارٹی کے راہ نما کے آشیرباد سے ٹی ایم او امداد کھوکھر کروڑوں روپے او زی ٹی شیئر نکلوانے کے بعد کئی ماہ سے غائب ہیں۔ جو صرف مہینے کی آخری تاریخوں میں ہی نظر آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر لاڑکانہ کے ایڈمنسٹریٹر کے لیے بھی میونسپل کارپوریشن کے پاس کئی سالوں سے کوئی افسر موجود نہیں اور یہ ذمہ داری ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ جاوید جاگیرانی ادا کر رہے ہیں جن کی لاپروائی کی وجہ سے شہر گندگی اور تجاوزات کی زد میں ہے۔ لاڑکانہ جو کہ حکم راں جماعت کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے کاغذات میں90ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی موئن جو دڑو سے بدتر دکھائی دیتا ہے، جہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ہر جگہ گندگی، سیوریج کا کھڑا پانی، تجاوزات کی بھرمار، ٹریفک کا اژدحام معمول ہے۔ ایسی صورت حال میں شہری منتخب نمائندوں اور نااہل بیورو کریٹس کو بددعائیں اور کوستے نظر آتے ہیں۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ اب جب کوئی ان کے مسائل حل کرنے کا وعدہ یا دعویٰ کرتا ہے تو انہیں ایسا لگتا ہے کہ کوئی انہیں گالی دے رہا ہو۔ شہریوں کے نزدیک لاڑکانہ وہ بدنصیب شہر ہے جہاں کے باسی اب اس شہر کو چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ لاڑکانہ میں امن امان کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ہفتے کے دوران دو معصوم بچوں سمیت آٹھ افراد قتل کیے جاچکے ہیں۔ بجٹ لیپس ہونے سے قبل اور نئے بجٹ میں مختص رقوم کے حصول کے لیے سڑکوں کی نام نہاد کھدائی کے کام نے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ شہریوں نے نیب سے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے لاڑکانہ کے ترقیاتی کاموں کے لیے خرچ کردہ اربوں روپے کا حساب لیا جائے اس کے بعد دوبارہ بجٹ جاری کیا جائے تاکہ شہریوں کو ریلیف مل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں