ہمارا نیوکلیئر پروگرام بے داغ ہے این ایس جی کی رکنیت کیلیے بروقت درخواست دی ماہرین

پاکستان کوایٹمی ری ایکٹرزکی ضرورت ہے،عبدالقیوم، امریکامخالف بیان دینے کے بجائے خارجہ پالیسی بدلی جائے، عمرخان،علی سرور


ایک طاقتورملک سے منسلک نہیں رہناچاہیے،محمدعلی،امریکی جھکاؤانڈیاکی طرف ہے،ظفراقبال،ہمسایوں سے بہترتعلق رکھناہوگا،طاہرملک ۔ فوٹو : ایکسپریس

دفاع اورخارجہ امور کے ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کاممبر بننے کیلیے درخواست دے کربھارت کیلیے مشکل کھڑی کردی ہے، اب اگر انڈیا کو ممبرشپ دی جاتی ہے تو پاکستان کو بھی دینی پڑے گی،پاکستان خطے میں تنہا نہیں ہوا، ملکی مفاد میں خارجہ پالیسی تشکیل دے کر پاکستان اب بھی خطے میں اہم کردار ادا کرسکتاہے۔

دنیا کے ممالک کے ساتھ معاشی اور جغرافیائی صورتحال کے تناظر میں تعلقات استوار کیے جائیں، افغانستان کے ساتھ موثر ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات حل کیے جائیں، پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام بے داغ اور شفاف ہے، نیوکلیئر ری ایکٹرز سے 2050 تک 40 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں،افغانستان اور سعودی عرب میں پاکستان کے سابق سفیر عمر خان علی شیرزئی نے کہاکہ ماضی میں افغانستان کے اندر ایسے پاکستانی سفیر تعینات کیے گئے جنھیں وہاں کے شہروں اور کلچر کابھی پتہ نہیں تھا،جنرل پرویز مشرف نے ایک کال پر پاکستان کے مفادات کا سودا کیا اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن گئے، افغانستان کے ساتھ لڑائی کے بجائے بات چیت اور ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات حل کیے جائیں۔

غلط خارجہ پالیسوں کی وجہ سے ہمارے دونوں بارڈر پرشورش برپا ہے، سرتاج عزیز کو امریکاکیخلاف بیان نہیں دینا چاہیے تھا،اس طرح کے بیانات تو آئی ایس پی آر کی طرف سے دیے جانے چاہئیں، طارق فاطمی تھرڈ لیول کا افسر ہے جو صرف مکھن بازی کے ذریعے نوکری کر رہا ہے جبکہ سرتاج عزیز عمر کے اس حصے میں ہے جہاں درست فیصلے مشکل سے ہوتے ہیں،خارجہ امور سے متعلق حکومتی ٹیم تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا نیوکلیئرسپلائرز گروپ میں اگر نان این پی ٹی ارکان کو ممبرشپ دینی ہے تو پھر یہ اصول پوری دینا کے ممالک پر لاگو ہونا چاہیے، انرجی بحران سے نکلنے کیلیے پاکستان کو ایٹمی ری ایکٹرز کی ضرورت ہے، نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکینت سے یہ کام آسان ہو جائے گا، اس کلب میں شامل ہوکر پاکستان دنیا کے دوسرے ممالک کو نیوکلیئرریسرچ، نیوکلیئرسیکیورٹی، یورینیم پراسسنگ اور ری سائیکلنگ میں تربیت دے سکتا ہے۔سابق سفیر علی سرور نقوی نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایڈہاک ازم پر چل رہی ہے۔

اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ گولی کا جواب گولی سے دیںگے اس طرح کے بیان آئی ایس پی آر کو دینے چاہئیں خارجہ امور کے مشیر کو نہیں،فارن آفس میں سنیجدہ لوگوں کو تعینات کرکے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اعتماد کی فضا بحال کی جائے، نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان اور بھارت کو اکٹھی ممبر شپ ملے گی یا پھر دونوں کو نہیں ملے گی۔سید محمد علی نے کہاکہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا فقدان ہو تو دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں، معاشی عدم سیکیورٹی کی صورتحال کے باعث ہم جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے، پاکستان کو کسی ایک طاقت ور ملک کے ساتھ منسلک نہیں رہنا چاہیے،امریکانے جنوبی ایشا کیلیے بھارت نژاد شخص کو تعینات کر رکھا ہے اس لیے پاکستان کو ایف 16 طیارے فراہم نہیں کیے گئے، بھارت گزشتہ 25 سال سے بزنس کمونٹی پر سرمایہ کاری کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکااین ایس جی کے معاملے پر بھارت کی حمایت کر رہا ہے۔

دفاعی امور کے ماہر ظفر اقبال چیمہ نے کہاکہ پاکستان نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ممبرشپ کیلیے درخواست دے کر کامیاب سفارتکاری کا مظاہرہ کیا، اب اگر انڈیا کو اس گروپ میں شامل کردیا جاتاہے تو پاکستان کو بھی ممبرشپ دینا ہوگا بصورت دیگر دونوں ممالک ممبر نہیں بن سکیںگے، اگر صرف انڈیا نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بن جاتا تو پاکستان کا راستہ بلاک ہوجاتا،اگر ہم نیوکلیئر گروپ کا رکن نہ بھی بن جائیں توہمیں اس گروپ میں شامل ملکوں کی حمایت اور ان سے تعاون کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ہمیں بھی اس قسم کا ویورمل سکے جو انڈیا کو آج سے 11 سال قبل مل چکا ہے جس کی بنیاد پر انڈیا نے امریکاسمیت دنیا کے 13ملکوں کیساتھ نیوکلئر ڈیل کی ہے، اس بنیاد پر انڈیا باہر سے یورینیم خرید رہاہے۔

ایک وقت ایسا تھا پاکستان اور انڈیا کیلیے امریکی پالیسی یکساں ہوتی تھی تاہم اب امریکاکا جھکاؤ انڈیا کی جانب ہوچکاہے۔پروفیسر طاہر ملک نے کہاکہ پاکستان نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ممبرشپ کیلیے درخواست دے کر مثبت قدم اٹھایا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے بغیر کسی تیاری اور حکمت عملی کے انڈیا کی مخالفت میں بھی درخواست دی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں انڈیا نے بھر پور ورک اورحکمت عملی کے تحت ممبرشپ کیلیے اپلائی کیا، یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ آج کل امریکا کا جھکاؤ انڈیا کی طرف زیادہ ہے بلکہ امریکاکا جھکاؤ ہمیشہ ہی انڈیا کی طرف رہاہے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی اہمیت اور افادیت کو دنیا کے سامنے کبھی نہیں منوایا، آج ہم خطے میں سوائے چین کے دیگر ہمسایہ ملکوں سے بہتر تعلقات نہ ہونے سے مسائل سے دوچارہیں، ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگا کہ نہ تو ہمسایوںکو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی تاریخ کو،لہٰذا ہمیں اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ ملکوں کے درمیان دوستی نہیں ہوتی بلکہ تعلقات ہوتے ہیں جس کے جتنے کامیاب تعلقات ہوںگے وہی ملک کامیاب ہوگا۔

پاک فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ضرب عضب شروع کررکھا ہے، اس سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ ہورہاہے بلکہ یہ آپریشن انڈیا اور افغانستان کے بھی مفاد میں ہیں کیونکہ اس آپریشن نے نہ صرف دہشت گردی بلکہ فرقہ واریت کو بھی روکا ہے، اقتصادی راہداری میں ایران، افغانستان اور حتیٰ کہ انڈیا کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔پروفیسر آمنہ محمود نے کہاکہ ہمیں اپنے قومی مفادکاہر حال میں تعین کرنا ہوگا،ہم نے اس بات کابھی تعین کرنا ہے کہ ہم نے پاکستان کوایک ویلفیئر اسٹیٹ یا اسٹرٹیجک ملک بناناہے، جب تک ہم ڈلیور نہیں کریںگے نہ تو عوام میں حکومت کیلیے ہمدردی بڑھے گی اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو پزیرائی ملے گی۔

اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ آج ریٹنگ میں اول پوزیشن پرآرمی چیف ہیں حالانکہ اول پوزیشن پر وزیر اعظم کو ہونا چاہیے تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اور سول حکومت ڈلیورنہیں کر پارہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں آرمی چیف ہر مشکل وقت میں آگے بڑھ کر فیصلے کرتے ہیں اور ایکشن لیتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر ظفرجسپال نے کہاکہ اس دور میں کوئی بھی ملک تنہا نہیں رہ سکتا،امریکاہمیں چھوڑنا نہیں چاہتا، ہمیں کامیاب خارجہ پالیسی بنانے کیلیے مذہبی نظریہ کے بجائے نیشنل انٹرسٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے بہتر پالیسی بنانا ہوگی، اگر مذہب کی بنیاد پر کامیاب خارجہ پالیسی بنتی تومودی کو سعودی عرب، دبئی اور ایران میں خیر مقدم اور اربوں کے معاہدے نہ ملتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں