امجد صابری کا جرم کیا تھا

امجد صابری توابدی نیند سوگئےمگرسوئےہوئےحکمران نہ جانے کب جاگیں گے اورکب انہیں احساس ہوگا کہ ایسے لوگ روزپیدا نہیں ہوتے


پاکستان میں قوالی کے بڑے ناموں کی رخصتی کے بعد لگا تھا کہ یہ فن اب وہ مقام کھو دے گا مگر امجد صابری نے انتہائی خوبصورتی، کمال مہارت اور جذبے سے گا کر قوالیوں کو لازوال کردیا۔

ازل سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ابد تک جاری رہے گا کہ ہر قوم کی زندگی میں کچھ اچھے اور کچھ نہایت ناخوشگوار دن آتے ہیں۔ کچھ ایسے حادثے رونما ہوتے ہیں جب میت ایک گھر سے اٹھتی ہے مگر سوگوار پوری قوم ہوتی ہے۔ ایسا ہمیشہ ان لوگوں کے لئے ہوتا ہے جو معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ جن کا معاشرے کی ترقی میں کوئی کردار ہو، اپنے عمل کی وجہ سے وہ بہت سے لوگوں کے لئے مثال ہوں، یا معاشرے کی فلاح کے لئے انہوں نے کوئی کام کیا ہو۔ ایسے لوگوں کا اس طرح چلے جانا کہ انکا مقابل کوئی نہ ہو کسی بھی معاشرے کے لئے برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔

22 جون 2016 بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا ہی سیاہ دن ثابت ہوا اور ہم سے ایک ایسا شخص لے گیا جسے دنیا ''امجد صابری'' کے نام سے جانتی تھی۔ اور جن کا نام سُنتے ہی ''بھر دو جھولی میری یا محمد ﷺ ذہن میں آتا تھا۔ برصغیر میں قوالی کے فن کو شہرت کے بام عروج پر پہنچانے والے صابری خاندان کے سپوت، غلام فرید صابری کے صاحبزادے اور مقبول صابری کے بھتیجے امجد صابری جو پاکستان و اسلام کا نام اور پیغام پوری دنیا میں پھیلانے کے حوالے سے مشہور تھے، 22 جون کو کراچی میں اپنے گھر کے قریب نامعلوم افراد کی نامعلوم گولی کا نشانہ بن گئے۔ جس کے بعد پوری قوم بس اسی سوال کا جواب تلاش کر رہی ہے کہ امجد صابری کو کس نے اور کیوں مارا؟
ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے پہلے ہی
یعنی ایک ستارہ ٹوٹا شام سے پہلے ہی



اک لمحے کے لئے ٹھہر کر جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر معاشرے میں بسنے والے انسانوں کی کسی نا کسی حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف پہچان ہوتی ہے۔ کوئی بہترین معالج مشہور ہوتا ہے تو کسی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اچھا سیاستدان ہے، کوئی ایک مسلک کا بہت اچھا عالم اور مبلغ ہوتا ہے تو کسی کی وجہ شہرت تجارت ہوتی ہے۔ یہ سب لوگ جیسے جیسے اپنے پیشے میں نام کماتے ہیں، ویسے ویسے ان کے کچھ مخالف اور دشمن بھی بنتے جاتے ہیں۔ اور کسی دن کسی موڑ پر وہ دشمنی ان کی جان لے لیتی ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مسلک، فرقے، گروہ، زبان اور ان سب چیزوں سے ہٹ کر اپنی پہچان بناتے ہیں، جو پورے معاشرے کی ایک خاص پہچان بنتے ہیں۔ ان کی کسی سے دشمنی ہوتی ہے نہ رنجش، کسی سے جھگڑا ہوتا ہے نہ یہ کسی فساد کی وجہ ہوتے ہیں۔ یہ محبت کا پیغام دیتے ہیں، لوگوں کو ہنسنا سکھاتے ہیں، خود تکلیف میں ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی خاطر اپنا فرض نبھاتے ہیں۔

امجد صابری بھی انہیں لوگوں میں سے ایک تھے، ان سے ملنے والا ہر شخص یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ اخلاق، شفقت اور محبت کی ایک کھلی کتاب تھے۔ وہ نسب سے تو دنیا کے مشہور ترین قوال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، مگر ذاتی زندگی میں انکساری، ملنساری اور خوش مزاجی ہی ان کی پہچان تھی۔ ہر وقت مسکراتے ہوئے ملنا، وطن سے اور اپنے شہر سے محبت، رسول ﷺ سے محبت، آلِ رسول ﷺ کی عقیدت اور اپنے فن سے بے حد لگاؤ ہی شاید امجد صابری کا جرم بن گیا۔

پاکستان میں قوالی کے بڑے ناموں کی رخصتی کے بعد یوں لگتا تھا کہ یہ فن اب وہ مقام کھو دے گا جو ان لوگوں کی محنت اور آواز نے اسے بخشا، مگر امجد صابری نے انتہائی خوبصورتی، کمال مہارت اور جذبے سے گا کر نا صرف اس فن کو بلکہ اپنے خاندان کی گائی ہوئی قوالیوں کو لازوال کردیا۔


اس سوال کے جواب میں کہ امجد صابری سے کس کی دشمنی ہوسکتی ہے اور کس نے ان پر گولی چلائی؟ راقم کی ناقص رائے یہ ہے کہ جس نے بھی امجد صابری پر گولی چلائی ہے ہوسکتا ہے کہ اس کی ان سے کوئی دشمنی نہ ہو، ہوسکتا ہے اس کو یہ بھی اندازہ نہ ہو کہ جس شخص کی وہ جان لینے جا رہا ہے وہ محض ایک شخص نہیں بلکہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہے۔ اس کو یہ گھناؤنا کام سر انجام دینے کے لئے جس نے حکم دیا ہے یہ درحقیقت اس کی سوچ اور حکمت عملی کا حصّہ تھا جو حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگیا۔ یہ بات ہر کسی پر عیاں ہے کہ آدمی کتنا بڑا بھی ہو لیکن بدقسمتی سے شہر کراچی میں اس کی جان کی قیمت محض چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے۔

اس افسوسناک واقعہ کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کراچی آج وہ کراچی بالکل بھی نہیں جیسا اس سے پہلے دور حکومت میں یا اس سے پہلے ہوا کرتا تھا- بلکہ یہ ایک بدلا ہوا شہر ہے۔ 2013ء تک یہ حالات تھے کہ شہر میں روزانہ درجنوں افراد کا نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونا معمول بن چکا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور رینجرز کے آپریشن نے اس تعداد میں نمایاں کمی کی ہے اور شہر کا امن بہت حد تک واپس آیا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں زمین کی قیمتیں بڑھیں اور لوگ واپس روشنیوں کے شہر کی طرف بڑھنے لگے، شہر میں روزے، تراویح، شاپنگ اور دوسری سرگرمیاں سکون سے جاری تھیں کہ ان لوگوں کو جن کا کام ہی جان لینا اور ڈر کی حکومت قائم کرکے پیسہ کمانا تھا۔ انہیں اپنے وجود کے ختم ہونے کا خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے یکے بعد دیگرے دو ہائی پروفائل لوگوں کو نشانہ بنا کر ساری انگلیاں رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف موڑ دی ہیں۔

آج امجد صابری تو ابدی نیند سوگئے مگر ہمارے سوئے ہوئے حکمران نہ جانے کب جاگیں گے اور کب انہیں احساس ہوگا کہ امجد صابری روز روز پیدا نہیں ہوتے، ایسے لوگ ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں اور اپنے اندر ایک عہد کو سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کو اس بے دردی سے قتل کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہر سیاسی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب اس دھرتی کی گود ایسے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والوں کے وجود کو ترسے گی۔
میں قبر اندھیری میں گھبراؤں گا جب تنہا
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہﷺ
روشن میری تربت کو ِللہ ذرا کرنا
جب وقت نزع آئے آقا دیدار عطا کرنا
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
جب وقت نزع آئے آقا، دیدارعطا کرنا
مجرم ہوں زمانے کا محشر میں بھرم رکھنا
رُسوائے زمانہ ہوں کملی میں چُھپا لینا
رُسوائے زمانہ ہوں دوزخ سے بچا لینا
منظور دُعا میری مقبول خُدا کرنا
جب وقت نزع آئے آقا دیدار عطا کرنا



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور500 الفاظ پرمشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصرمگرجامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویراورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں