واپس تو جانا ہوگا
اسلحے کا یہ منظر ہم سب کے لیے بڑا وحشت انگیز تھا کہ ہم نے کبھی اس طرح کھلے بندوں اسلحہ لہراتا ہوا دیکھا ہی نہ تھا
71ء کی پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو پاکستانی پنجاب کے مشرقی بارڈر پر آباد ایک گاؤں کے پانچ چھ خاندان بمباری سے بچتے بچاتے اور اُجڑے پُجڑے ہمارے گاؤں آ گئے۔ سب خانماں برباد اور خالی ہاتھ تھے لیکن ہم دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس بے چارگی کے باوجود ان کے پاس بندوقیں اور پستول بھی تھے۔ اسلحے کا یہ منظر ہم سب کے لیے بڑا وحشت انگیز تھا کہ ہم نے کبھی اس طرح کھلے بندوں اسلحہ لہراتا ہوا دیکھا ہی نہ تھا۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ چونکہ یہ بارڈر پر رہتے ہیں، اس لیے ان کے لیے اسلحہ رکھنا ضروری ہے۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ سرحد پر رہتے ہوئے ناجائز طور پر پار بھی جاتے رہے ہیں اور اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہیں، اسی لیے اسلحہ رکھتے ہیں۔
اُن دنوں اس بارڈر پر بلند خاردار باڑ نہیں تھی جو آج ہے، اس لیے آر پار طرفین کا ''کاروبار'' چوری چھپے جاری رہتا تھا۔ ریٹائرڈ بریگیڈئیر اسلم گھمن صاحب نے بھی اپنی کتاب ''ہاں یہ سچ ہے'' میں اس ''کاروبار'' کا ذکر کیا ہے (لیکن سرحدی علاقہ مختلف ہے)۔ بہرحال یہ مہاجرین ہمارے گاؤں آئے تو ہم نے انھیں رضائیاں لحاف بھی دیے اور مہینوں ان کے خورونوش کا انتظام و انصرام بھی کیے رکھا۔ ان کے پاؤں لگے تو انھوں نے اپنی عادات کے مطابق دنگے فساد بھی شروع کر دیے اور آئے روز کشت و خون بھی۔ رفتہ رفتہ انھوں نے گاؤں کی بے آباد زمینوں اور شاملاٹوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ پھر اسی گاؤں میں ان کے بچے بھی پیدا ہونے لگے اور کچے گھر پکے ہوتے گئے۔ بھٹو صاحب نے ان سرحدی مہاجرین کی بہت شاندار مدد بھی کی اور یوں یہ معاشی طور پر ہم گاؤں والوں سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے۔
ان کی زیادتیوں میں رفتہ رفتہ مزید اضافہ ہونے لگا تو ہمارے اور آس پاس کے گاؤں کے سیانوں کا وفد کئی بار مقامی تھانے گیا کہ ان مہاجرین کو اُن کے اپنے گاؤں واپس بھیجیں کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور ان کے مقبوضہ دیہات (جن پر بھارت نے قبضہ کر لیا تھا) بھی واپس پاکستان کو مل چکے ہیں لیکن یہ لوگ کبھی واپس نہ گئے۔ اب تک نہیں گئے۔ ان کے کئی بچوں کی شادیاں ہمارے اور آس پاس کے کئی دیہاتوں میں ہو چکی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اپنے سرحدی گاؤں بھی جاتے ہیں اور وہاں کی فصلوں کی آمدنی بھی پاتے ہیں لیکن ہمارے گاؤں کی زیرِ قبضہ زمینیں آج تک ہاتھ سے جانے نہیں دیں۔ یہ ''کہانی'' مجھے پاکستان آئے افغان مہاجرین کے حوالے سے آج بے طرح یاد آ رہی ہے جنھیں یہاں آئے 36 سال ہو گئے ہیں۔
افغانستان کی وہ جنگ کب کی ختم ہو چکی ہے جس کے کارن یہ لوگ یہاں آئے تھے لیکن اب یہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف ان کی زیادتیاں روز افزوں ہیں لیکن پاکستان اور اہلِ پاکستان بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ستم یہ بھی ہے کہ افغانستان کے حکمران اور یہ افغان مہاجرین پاکستان کے لاتعداد احسانات کے شکر گزار ہونے کے بجائے ہمیں ''گھُوریاں'' ڈالتے اور دھمکاتے ڈراتے بھی ہیں۔
پاکستان کے خلاف ان کے جرائم بھی بڑھ رہے ہیں۔ افغان فورسز نے گزشتہ دنوں پاک فوج کے میجر علی جواد چنگیزی کو گولیاں مار کر جس طرح بہیمانہ طریقے سے شہید کیا ہے، اس سانحہ نے ہمارے دل توڑ دیے ہیں۔ افغان فوج کے اس سفاک اقدام کی وجہ سے پاکستان بھر میں ایک ہی متحدہ اور متفقہ آواز سنائی دے رہی ہے: ''افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔'' پاکستان کے لیے زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ افغان حکمران پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی دوستی اور محبت کا زیادہ دم بھرتے ہیں، حالانکہ بھارت جہادِ افغانستان کے دوران ہمیشہ مجاہدینِ افغانستان کی مخالفت اور افغانستان پر حملہ آور قوتوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ہے؟ افغان عوام اور افغان حکام پاکستان کی مہربانیوں اور نوازشات کا شمار کرنا چاہیں بھی تو نہیں کرسکتے۔ اپنے محدود مالی وسائل کے باوجود پاکستان گزشتہ ساڑھے تین عشروں سے مسلسل چالیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ کئی شعبوں میں افغانستان کی بہتری اور بہبود کے لیے اعانت و امداد فراہم کررہا ہے۔ عالمِ اسلام میں پاکستان واحد ملک ہے جو افغانستان کے لیے سب سے بڑا ڈونر ملک ثابت ہوتا آرہا ہے۔ افغانستان کی ڈویلپمنٹ اور افغان عوام کی تعلیم میں بہتری کے لیے پاکستان 885 ملین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ افغان طلباء طالبات کو اب بھی پاکستان میں مفت تعلیم حاصل کرنے کے بھرپور مواقع دستیاب ہیں۔
پاکستان کے سبھی اسپتالوں میں افغانوں کو پاکستانیوں سے بہتر علاج معالجے (اور وہ بھی مفت) کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ کابل یونیورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی، ننگرہار یونیورسٹی میں سرسید پوسٹ گریجویٹ فیکلٹی، بلخ کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں لیاقت علی خان فیکلٹی اور کابل میں رحمان بابا اسکول اور رحمان بابا ہوسٹل کا قیام پاکستان کے تحفے ہیں۔ ان تحفوں پر پاکستان کے اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ طور خم سے جلال آباد تک جانے والی سڑک بھی پاکستان نے تعمیر کی ہے۔ افغان عوام کی بہبود کے لیے پاکستان نے گزشتہ ایام ہی کے دوران افغان حکومت کو مفت سو بسیں اور سو ٹرک عطیہ کیے ہیں۔ اس کے باوجود افغان حکمران پاکستان کے ناشکرے ہیں۔ یہ مناظر پاکستانیوں کی دل شکنی کا باعث بن رہے ہیں۔
گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران افغان فورسز نے پاکستان پر کسی اشتعال کے بغیر جس انداز میں فائرنگ کی ہے اور طورخم پر پھاٹک تعمیر کرنے کے خلاف افغانستان کی طرف سے پاکستان کے خلاف جس دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، یہ اسی کا ردِعمل ہے کہ پاکستان میں اب یہ توانا اور متحدہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پاکستان میں موجود چالیس لاکھ افغان مہاجرین واپس جائیں۔ یہ آوازیں حکومتی ایوانوں سے بھی بلند ہونے لگی ہیں۔ ''افغان مہاجرین واپس جاؤ'' کی یہ آوازیں یقینا کابل بھی پہنچ رہی ہوں گی۔ کابل انتظامیہ پاکستان کی سیکیورٹی کے دشمنوں کو جس طرح اپنے ہاں پناہ دے رہی ہے، یہ اقدامات تو کھلے بندوں امن دشمنی کا ثبوت ہیں۔ بیس اور اکیس جون 2016ء کو پشاور میں ہونے والے دو واقعات بتاتے ہیں کہ افغان مہاجرین کے خلا ف پاکستانیوں کے جذبات میں حدت اور شدت پیدا ہورہی ہے۔
بیس جون کو پشاور میں چھوٹے بڑے تاجروں نے متحد اور منظم ہوکر افغان مہاجرین کی زیادتیوں اور تجاوزات کے خلاف ایک زبردست مظاہرہ کیا اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ انھیں شہر اور ملک سے جلد از جلد نکالا جائے۔ تنگ آئے پشاوری تاجروں کی طرف سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا احتجاج تھا جس میں یک زبان ہوکر افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ابھی اس کی بازگشت مدہم بھی نہ پڑی تھی کہ اکیس جون کو سی ٹی ڈی کے ذمے دار حکام نے پشاور میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پشاور سمیت خیبرپختون خواہ کے پانچ بڑے شہروں میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں براہ راست افغان ملوث ہیں اور انھیں کابل سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ سی ٹی ڈی حکام کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی پریس کانفرنس تھی۔ پاکستانیوں کے لیے یہ واقعات بڑی تکلیف اور دلی رنج کا باعث بنے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پنجاب کے سابق گورنر کے صاحبزادگان اغوا ہوئے تو وہ افغانستان لے جائے گئے۔ ان پے در پے وارداتوں نے افغانیوں کے حوالے سے پاکستانیوں کے دل توڑ دیے ہیں اور وہ بجا طور پر شکوہ کناں ہیں کہ ہمارے احسانات کا کیا یوں بدلہ دیا جانا تھا؟ خدا نے کرے کہ سندھ کے چیف جسٹس صاحب کے صاحبزادے کو اغوا کرنے والے بھی افغانی نکلیں۔ یہ بہیمانہ واردات چار روز قبل ہی ہوئی ہے۔
اگر اس شرمناک حرکت میں افغانستان کی سرزمین اور افغان باشندے ملوث پائے گئے تو پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف غم و غصہ میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ افغان مہاجرین کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ازخود افغانستان واپس چلے جائیں، اس سے قبل کہ پاکستانیوں کے جذبات میں مزید اشتعال پیدا ہوجائے۔