انصاف کی دہائی
غریب آدمی کوئی غلط کام کرے تو اس کے لیے گناہ ہوتا ہے اور وہی کام اگر امیر آدمی کرے تو ثواب کہلاتا ہے
' تم کرو تو پن، ہم کریں تو پاپ، ہم غریب لوگ ' یہ ہندوستان کی ایک مشہور فلم کے گانے کا ایک مصرعہ ہے۔ یعنی کہ غریب آدمی کوئی غلط کام کرے تو اس کے لیے گناہ ہوتا ہے اور وہی کام اگر امیر آدمی کرے تو ثواب کہلاتا ہے۔ یہی صورتحال کچھ ہمارے یہاں انصاف کی فراہمی کی بھی ہے جس میں پتیلی چور جیل میں بند ہوتے ہیں جب کہ اربوں روپے کا خورد برد اور غبن کر نیوا لے ملک کے خدمت گار (حکمران) بن جا تے ہیں ۔
کراچی میں اہلیہ کے قتل کے الزام میں ایک ایس ایس پی کو ایک لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور ماں کے قتل کے الزام میںایک بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو دس لاکھ روپے کی ضمانت پر رہائی مل گئی۔ اگرکسی وڈیرے یا ڈائریکٹر کوکوئی چپراسی یا کسان قتل کردیتا تو اسے فورا سزا ہوجاتی لیکن بڑے لوگوں کو قتل کے الزام کے باوجود رہائی (ضمانت) مل گئی۔
دراصل ہمارے ہاں ایسا آئین ہی نہیں کہ قاتل کا قاتل کے طور پر مقدمہ چلے ، اپنی بیوی کے قاتل ایس ایس پی کے خلاف گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگیا ، یہ ہمارے ہاں ایک معمول کا عمل ہے، پھر وکیل سر کار نے بھی ضمانت کی درخواست کی مخالفت نہیں کی۔اگروکیل سر کارکو ضمانت کی مخالفت کرنی ہی نہیں تھی تو پھر قتل کا مقدمہ کیونکردرج ہوا ۔ یہ تو پیٹی بھائی کو بچانے کا احسن طریقہ ہے ۔دوسرا مقدمہ اپنی ماں کے قاتل کا ہے ۔ ایک بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے اپنی ماں کو چھری سے وارکرکے قتل کردیا جب کہ اسی ماں نے دودھ پلایا اور پالا پوسا۔ اگر ہمارے آئین میں یہ درج ہو تاکہ قتل کو اہل خانہ کی جانب سے معاف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ ریاست قاتل کے خلاف مقدمہ لڑے گی تو پھر کسی کو رہائی نہیں ملتی۔
ریمینڈ ڈیوس کو بھی اسی طرح خون بہا دیکر نکلنے کا موقع فراہم کیا گیا ، چند ہفتوں میں درجنوں لڑکیاں اورخواتین قتل ہوئیں جن میں عنبرین، زینت اور ماریہ بھی شامل ہیں۔ان دل دہلا دینے والے واقعات کے باوجود آخرکار ہوتا یہ ہے کہ خون بہا دیکر یا معاف کرواکر یا ڈرادھمکا کے گواہوں کو منحرف کروالیا جا تا ہے ۔ نتیجتا قاتل آزاد دندناتا پھرتا ہے۔ جیسا کہ کراچی میں بابر ولی نام کے معروف صحافی کے قتل کے چھ گواہان اوراس کے وکیل کو قتل کردیا گیا۔اب عدالت کسے سزا دے، وہ کہتی ہے کہ گواہوں کے بغیر ہم سزا کیسے دے سکتے ہیں ۔
جب یہاں لوگوں کو جان کی دھمکی ملے گی توکیونکرگواہی دینے کی کوئی جرات کرے گا۔ ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں اہل خانہ کو معاف کرنے کے حق سے محروم کرنے کے لیے اسمبلی میں آئین پاس کروانا ہوگا اور قاتل کے خلاف مدعی ریاست خود بنے ۔ پھر گواہان کو جان کی سلامتی کے لیے تحفظ فراہم کیا جائے ، اگر اسے تحفظ فراہم کرنے کی یقین نہیں کرائی جا سکتی تو کیونکرکوئی گواہی دے گا، پھردولت مندوں کی پیسوں کی ریل پیل بھی خاصہ کام دکھاتی ہے۔کسی پرمقدمہ ہوتا ہے تو وہ فوری بیرون ملک دبئی، لندن یا عرب وغیرہ یا کسی اور ملک میں چلا جاتا ہے اور پھر جب رکاوٹیں شروع ہوتی ہیں تو جگہ جگہ پیسوں کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ۔ ان پیسوں کے کھیل میں گواہان، سہولت کار، نوکرشاہی ، منصف سمیت سب شریک ہو جاتے ہیں ۔ سپریم کورٹ آف پا کستان کے چیف جسٹس ظہیر احمد جمالی بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ما تحت عدالتوں کوکرپشن سے پاک کرنا ہو گا ۔ اس کا مطلب کیا ہے 'کرپشن سے پاک' کا مطلب ہی یہ ہے کہ رشوت دے کر مجرم آزاد ہوتے ہیں۔
اس میں پیشکار، وکیل سے لے کرکلرک تک سب شامل ہوتے ہیں ۔ ایسا نہیں تو بتایا جائے کہ کرپشن کا مطلب کیا ہے؟ اس طبقاتی معاشرے میں ماں اور بیوی کا قاتل صرف اس لیے دندناتا پھرے کہ اس کے پاس دولت ہے ، دھونس دھمکیاں اور عہدے ہیں ۔ اگر ہمارا معاشرہ طبقاتی نہ ہوتا ، یہاں سرمایہ داری اور جاگیرداری نہ ہوتی، نوکر شاہی اور افسر شاہی نہ ہوتی،ہمارے حکمران عالمی سامراج کے آلہ کار نہ ہوتے توکیا کوئی دولت کے بل بوتے پر قتل کرکے آزاد پھرتا؟ ایسا قطعی ممکن نہیں ۔ جب روس ، چین، ہند ، مشرقی یورپ سوشلسٹ ممالک تھے یا اب شمالی کوریا، کیوبا وغیرہ میں کوئی قتل کرکے آزاد پھرسکتا تھا یا ہے ؟ قطعی نہیں ۔ یہاں تو اب آئے روز لڑکیوں کا قتل ہوتا ہے۔
چند دنوں قبل کا واقع ہے کہ گجرانوالہ میں اپنی پسندکی شادی کرنے پر باپ اور بھائی نے مل کر بیٹی یا بہن کو قتل کردیا ، شاہ فیصل کالونی میں الفلاح تھا نے کے حدود میں ایک دھوبی ستارکی کپڑے کی گٹھری جوکہ سائیکل پر تھی کوئی چور لے بھاگا ۔ جب ان چند سوروپے کی چوری ہونے پر ستار الفلاح تھانے ایف آئی آرکٹوانے گیا تو اس سے ڈیڑھ ہزار روپے لیے گئے اورکوئی پرچی بھی نہیں دی ،کہا کہ بھاگ دوڑ میں خرچے تو ہوتے ہیں ۔ تین ہفتے ہوگئے اس دھوبی کے کپڑے تو نہیں ملے مزید پندرہ ہزار روپے لے لیے ۔ اس دھوبی ستارکے پاس نہ کوئی ثبوت ہے کہ وہ عدالت میں جائے ۔ پھر یہ بتائیں کہ انصاف کے لیے کہاں جائے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنیوالا ہے جب دنیا ایک ہوجائے گی ، مل کر پیداوار کرینگے اور مل کر بانٹ لیں گے ، محبتوں اور خوشحالی کا راج ہو گا۔