18رمضان۔جالبؔ کا یوم وفات
مجھے یاد ہے شعبان کے آخری ایام تھے اور میں لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہورہا تھا۔ بھائی ٹھیک نہیں تھے
حضرت مولانا شاہ احمد نورانی نے حبیب جالبؔ کے انتقال پر کہا تھا ''حبیب جالب کی وفات رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہوئی، ان مقدس ایام میں صرف اﷲ کے محبوب بندے ہی آخری سفر اختیار کرتے ہیں۔''
مجھے یاد ہے شعبان کے آخری ایام تھے اور میں لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہورہا تھا۔ بھائی ٹھیک نہیں تھے مگر میری مجبوری تھی مجھے نوکری پر واپس آنا تھا ، سوچا تھا رمضان گزارکرعید بچوں کے ساتھ مناکر فوراً لاہور پہنچوںگا۔شیخ زید اسپتال لاہور میں بھائی سے اجازت طلب کی ''بھائی میں جلدی واپس آجاؤںگا '' مجھے خوب یاد ہے اس لمحے بھی بھائی کی آنکھیں میں دیکھ رہا ہوں، خدا کی قسم وہ آنکھیں مجھے خدا حافظ کہہ رہی تھیں جیسے بھائی کو پتا تھا کہ اب وقت نہیں بچا، ملاقات نہیں ہوگی۔
یہ 12 اور 13 مارچ 1993 کی درمیانی رات تھی، رات ساڑھے گیارہ بجے ڈاکٹروں نے بھابی اور بچوں کو کمرے سے باہر نکال دیا، یہ آخری ساعتیں یہ آخری سانسیں تھیں ڈاکٹر اپنی سی کوشش کررہے تھے مگر اب وقت نہیں رہا تھا، کچھ دیر پہلے جالب اپنی بیوی سے کہہ چکے تھے۔ ''اب کہانی مُک گئی ہے'' اور ایسا ہی ہوا آدھی رات گزرچکی تھی، باقی رات صبح کی طرف بڑھ رہی تھی، رات کو صبح کے رستے پر ڈال کر حبیب جالب ساڑھے بارہ بجے رات اپنی ماں کے سات روانہ ہوگیا۔
اماں اپنے بیٹے کو لینے آئی ہوئی تھی۔''چلو بیٹا ! تم نے بہت دکھ سہہ لیے'' بھائی جالب نے بھی انتقال سے ایک ہفتہ پہلے کہنا شروع کردیا تھا۔ میری اماں آئی ہے وہ کمرے کے باہر کھڑی ہے، اے تاج (ہماری بھابی) اماں کو اندر لے آ۔ وہ مجھے لینے آئی ہے مجھے اماں کے ساتھ جانا ہے مگر اسے اندر تو لے آؤ'' بھابی کمرے کے باہر جاتیں اور اندر آکر بھائی سے کہتیں ''باہر تو کوئی بھی نہیں ہے، میں دیکھ کر آئی ہوں'' مگر بھائی بھابی اور بچوں پر بگڑ بگڑ جاتے ''جاؤ جاؤ، میری اماں باہرکھڑی ہے، دروازہ کھول دو، کھڑکیاں کھول دو، وہ دیکھو وہ اماں باہر باغیچے میں کھڑی ہیں'' تھک ہار کے روتے ہوئے سے کہتے ''اماں! میں کی کراں! میں اٹھ نہیں سکدا، (اماں! میں کیا کروں! میں اٹھ نہیں سکتا'' بھابی نے باغیچے میں جاکر رو رو کے اماں سے کہا ''اماں! تم اپنے بیٹے کو مت لے کر جاؤ، دیکھو! ہم پر رحم کھاؤ''
مگر بھائی جالب بھی تو رکنے کو تیار نہیں تھے وہ تو خود کہہ رہے تھے ''مجھے اماں کے ساتھ جانا ہے وہ مجھے لینے آئی ہے''
اور یوں اماں اپنے چہیتے بیٹے حبیب کو لے گئیں۔
وہی بیٹا جس کے بارے میں اماں نے کہا تھا ۔ یہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کا دورحکومت تھا۔ نواب امیر محمد خان آف کالا باغ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ گورنر مغربی پاکستان کے تخت پر بیٹھے تھے، انھی کے ایما پر حبیب جالب کو ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں گرفتارکیا گیا تھا مگر اصل بات یہ تھی کہ حبیب جالب قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا، خیر پولیس حبیب جالب کوجیل سے ضلع کچہری لاہور لائی۔ اماں بھی وہاں موجود تھیں، اماں نے اپنے بیٹے حبیب کو اس حال میں دیکھا تو ان سے برداشت نہ ہوا۔
اماں کا نام رابعہ بصری تھا اماں نے قلندرانہ جلال میں انسپکٹر پولیس سے کہا ''اوئے تھانیدارا ! میرے بچے کی ہتھکڑی کھول دے، یہ بھاگے گا نہیں اس لیے کہ میں نے اسے جاگتا دودھ پلایا ہے یہ بزدل نہیں ہوسکتا اور پولیس انسپکٹر اس قلندرانہ جلال کی تاب نہ لاسکا اس نے ہتھکڑی کھول دی۔حبیب جالب رمضان شریف کے مقدس مہینے کی 18 تاریخ کو اپنی اماں کے ساتھ دنیا چھوڑ گئے رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں جنت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے سارے دروازیں بند کردیے جاتے ہیں میرا ایمان ہے کہ حبیب جالب جتنی تھے۔
یہ تو دنیا والوں کے لیے اﷲ نے انھیں رمضان المبارک میں بلایا تاکہ دنیا والے سمجھ لیں اور خدائی دعوؤں سے باز رہیں۔ کون کیا ہے اﷲ کے ہاں کسی کا کیا مقام و مرتبہ ہے یہ بات دنیا کا ناقص علم سمجھنے سے قاصر ہے۔
حبیب جالب کی مختصراً سوانح پیش خدمت ہے۔ حبیب احمد نام کا بچہ 24 مارچ 1928 بمطابق1346 ہجری بروز ہفتہ گاؤں میانی افغاناں ضلع ہوشیار پور مشرقی پنجاب، ہندوستان میں پیدا ہوا، والد کا نام صوفی عنایت اﷲ اور والدہ کا نام رابعہ بصری تھا،بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک سابق ڈائریکٹر مرکزی محکمہ اطلاعات ونشریات حکومت پاکستان اور اردو کے ممتاز شاعر عبدالحمید خاں سابق اسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ نیشنل بینک آف پاکستان رشیدہ بیگم جن کے تینوں بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں اور راقم الحروف سعید پرویز سابق انسپکٹر انکم ٹیکس، افسانہ نگار، کالم نگار، شاعر، محقق، حبیب جالب کے بارے میں سات کتابوں کا اعزاز حاصل ہے اب میں اکیلا رہ گیا ہوں باقی بہن بھائی والدین کے پاس جاچکے، مجھ تک یہی ہمارے مزدور محنت کش والدین کی بیلنس شیٹ ہے۔ حبیب جالب نے پہلا شعر 1942میں کہا، جماعت ہفتم کے امتحانی پرچے میں ''وقتِ سحر'' کا جملہ بنانے کو کہا گیا جملہ تو نہ ہوا شعر ہوگیا:
وعدہ کیا تھا آئیںگے امشب ضرور وہ
وعدہ شکن تو دیکھیے وقت سحر ہو
اینگلو عربک کالج دہلی ہی میں دوسرا شعر۔ سال تھا 1945 اسکول کے سامنے مسجد تھی بعد نماز دعا بھی ہوئی شعر ہوا:
مدتیں ہوگئیں خطاب کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
قیام پاکستان کے بعد دہلی سے کراچی آمد حبیب احمد مست کے نام سے شاعری جاری رکھی اور دسویں جماعت میں داخلہ لے لیا لیکن شاعری کے جنون نے پڑھنے نہ دیا:
1952میں حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک میں شمولیت اور پہلی گرفتاری ریگل چوک کراچی سے دی۔ اسی سال پنجاب یونیورسٹی ہال لاہور میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرے میں شرکت، حبیب احمد مست، اب حبیب جالب بن گئے تھے، ابن انشاء نے جالب تخلص رکھا جگر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا ''اگر ہمارا زمانہ مے نوشی ہوتا تو ہم پاؤں میں گھنگھرو باندھ کے جالب کی غزل پر سر محفل رقص کرتے۔'' 1956 میں لال قلعہ دہلی میں پنڈت جواہر لعل نہرو کی صدارت میں مشاعرہ پڑھا، ہجرت کے موضوع پر لکھی غزل پڑھی محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے، ترے شہر میں ایک جہاں چھوڑ آئے۔
مشاعرہ لوٹا، اگلے روز وزیراعظم ہندوستان نے بلوا لیا، شوکت تھانوی اور حفیظ جالندھری بھی تھے، پنڈت جی کی فرمائش پر وہی غزل جالب صاحب نے سنائی۔ اسی سال نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور شادی بھی ہوئی 1957 میں پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ مکتبہ کارواں لاہور نے شایع کیا۔ سرورق حنیف رامے نے بنایا تھا۔ 1958 میں کراچی سے لاہور منتقلی اور 1962 میں جنرل ایوب کے خود ساختہ دستور کے خلاف پہلی بھرپور آواز بلند ہوئی۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
اس آواز کی گونج لاہور سے چاٹگام تک سنی گئی پھر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ ستمبر 1966 میں شہرۂ آفاق شعری مجموعہ سر مقتل شایع ہوا، مکتبہ کارواں لاہور نے اسے شایع کیا تھا نومبر 1966 یعنی تین ماہ میں اس کتاب کے سات ایڈیشن شایع ہوئے پھر جنرل ایوب حکومت نے کتاب ضبط کرلی، پریس سیل کردیا اور کتاب کے ناشر چوہدری عبدالحمید کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ عوام نے چوری چھپے اس کتاب کے سیکڑوں ایڈیشن پورے ملک میں شایع کیے، سال 1971 آگیا حبیب جالب بنگالیوں کے ساتھ کھڑا تھا اس نے تاریخی قطعہ لکھا پڑھا اور جیل چلا گیا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کوکہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کوکہ منزل کھورہے ہو
اور پھر منزل کھوگئی، بنگلہ دیش بن گیا۔ 1976 میں حیدرآباد سازش بنا جالب اپنی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے ساتھ جیل میں تھا۔ 1978 میں جالب صاحب کی پچاسویں سالگرہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں منائی گئی، لولمبا یونیورسٹی روس میں بھی سالگرہ منائی گئی کارل مارکس اور لینن کے مجسمے جالب کو بھجوائے گئے۔ اس موقعے پر لاہور کے ادیبوں، شاعروں نے ایک کتاب بھی شایع کی نامور مصور صادقین صاحب نے خواہش ظاہرکی اور سرورق بنا۔
جنرل ضیا الحق آگئے جالب صاحب پھر جیل میں کوٹ لکھپت لاہور سے میانوالی جیل بھیج دیے گئے جالب زخم کھاتا رہا مسکراتا رہا، میانوالی جیل میں مزید بیماریاں لے کر باہر آئے، 1980میں کراچی پریس کلب نے تاحیات اعزازی رکنیت دی اور جواباً جالب نے پہلی بار جنرل ضیا کے خلاف لکھی نظم سنائی، ظلمت کو ضیا صرصرکو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا'' آخر یہ باضمیر شاعر 13 مارچ 1993 کے دن وفات پاگیا۔
جالب نے اپنے دیباچے میں ایک جگہ لکھا ہے ''بزرگوں سے سنا ہے کہ اے اﷲ ساتھ ایمان کے قبر میں اتارنا'' اس کا مطلب میں یہی سمجھتاہوں کہ آخری سانس تک قبر میں اترگیا، جالب کے دور سے سبھی شاعروں، ادیبوں نے انھیں خراج تحسین و عقیدت پیش کیا ہے جو سیکڑوں صفحوں پر مشتمل کتابوں میں رسائل میں شامل ہے حکومت نے بھی بعد از مرگ سبھی سول اعزاز دے ڈالے۔ ہلال امتیاز حتیٰ کہ نشان امتیاز بھی۔
مجھے یاد ہے شعبان کے آخری ایام تھے اور میں لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہورہا تھا۔ بھائی ٹھیک نہیں تھے مگر میری مجبوری تھی مجھے نوکری پر واپس آنا تھا ، سوچا تھا رمضان گزارکرعید بچوں کے ساتھ مناکر فوراً لاہور پہنچوںگا۔شیخ زید اسپتال لاہور میں بھائی سے اجازت طلب کی ''بھائی میں جلدی واپس آجاؤںگا '' مجھے خوب یاد ہے اس لمحے بھی بھائی کی آنکھیں میں دیکھ رہا ہوں، خدا کی قسم وہ آنکھیں مجھے خدا حافظ کہہ رہی تھیں جیسے بھائی کو پتا تھا کہ اب وقت نہیں بچا، ملاقات نہیں ہوگی۔
یہ 12 اور 13 مارچ 1993 کی درمیانی رات تھی، رات ساڑھے گیارہ بجے ڈاکٹروں نے بھابی اور بچوں کو کمرے سے باہر نکال دیا، یہ آخری ساعتیں یہ آخری سانسیں تھیں ڈاکٹر اپنی سی کوشش کررہے تھے مگر اب وقت نہیں رہا تھا، کچھ دیر پہلے جالب اپنی بیوی سے کہہ چکے تھے۔ ''اب کہانی مُک گئی ہے'' اور ایسا ہی ہوا آدھی رات گزرچکی تھی، باقی رات صبح کی طرف بڑھ رہی تھی، رات کو صبح کے رستے پر ڈال کر حبیب جالب ساڑھے بارہ بجے رات اپنی ماں کے سات روانہ ہوگیا۔
اماں اپنے بیٹے کو لینے آئی ہوئی تھی۔''چلو بیٹا ! تم نے بہت دکھ سہہ لیے'' بھائی جالب نے بھی انتقال سے ایک ہفتہ پہلے کہنا شروع کردیا تھا۔ میری اماں آئی ہے وہ کمرے کے باہر کھڑی ہے، اے تاج (ہماری بھابی) اماں کو اندر لے آ۔ وہ مجھے لینے آئی ہے مجھے اماں کے ساتھ جانا ہے مگر اسے اندر تو لے آؤ'' بھابی کمرے کے باہر جاتیں اور اندر آکر بھائی سے کہتیں ''باہر تو کوئی بھی نہیں ہے، میں دیکھ کر آئی ہوں'' مگر بھائی بھابی اور بچوں پر بگڑ بگڑ جاتے ''جاؤ جاؤ، میری اماں باہرکھڑی ہے، دروازہ کھول دو، کھڑکیاں کھول دو، وہ دیکھو وہ اماں باہر باغیچے میں کھڑی ہیں'' تھک ہار کے روتے ہوئے سے کہتے ''اماں! میں کی کراں! میں اٹھ نہیں سکدا، (اماں! میں کیا کروں! میں اٹھ نہیں سکتا'' بھابی نے باغیچے میں جاکر رو رو کے اماں سے کہا ''اماں! تم اپنے بیٹے کو مت لے کر جاؤ، دیکھو! ہم پر رحم کھاؤ''
مگر بھائی جالب بھی تو رکنے کو تیار نہیں تھے وہ تو خود کہہ رہے تھے ''مجھے اماں کے ساتھ جانا ہے وہ مجھے لینے آئی ہے''
اور یوں اماں اپنے چہیتے بیٹے حبیب کو لے گئیں۔
وہی بیٹا جس کے بارے میں اماں نے کہا تھا ۔ یہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کا دورحکومت تھا۔ نواب امیر محمد خان آف کالا باغ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ گورنر مغربی پاکستان کے تخت پر بیٹھے تھے، انھی کے ایما پر حبیب جالب کو ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں گرفتارکیا گیا تھا مگر اصل بات یہ تھی کہ حبیب جالب قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا، خیر پولیس حبیب جالب کوجیل سے ضلع کچہری لاہور لائی۔ اماں بھی وہاں موجود تھیں، اماں نے اپنے بیٹے حبیب کو اس حال میں دیکھا تو ان سے برداشت نہ ہوا۔
اماں کا نام رابعہ بصری تھا اماں نے قلندرانہ جلال میں انسپکٹر پولیس سے کہا ''اوئے تھانیدارا ! میرے بچے کی ہتھکڑی کھول دے، یہ بھاگے گا نہیں اس لیے کہ میں نے اسے جاگتا دودھ پلایا ہے یہ بزدل نہیں ہوسکتا اور پولیس انسپکٹر اس قلندرانہ جلال کی تاب نہ لاسکا اس نے ہتھکڑی کھول دی۔حبیب جالب رمضان شریف کے مقدس مہینے کی 18 تاریخ کو اپنی اماں کے ساتھ دنیا چھوڑ گئے رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں جنت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے سارے دروازیں بند کردیے جاتے ہیں میرا ایمان ہے کہ حبیب جالب جتنی تھے۔
یہ تو دنیا والوں کے لیے اﷲ نے انھیں رمضان المبارک میں بلایا تاکہ دنیا والے سمجھ لیں اور خدائی دعوؤں سے باز رہیں۔ کون کیا ہے اﷲ کے ہاں کسی کا کیا مقام و مرتبہ ہے یہ بات دنیا کا ناقص علم سمجھنے سے قاصر ہے۔
حبیب جالب کی مختصراً سوانح پیش خدمت ہے۔ حبیب احمد نام کا بچہ 24 مارچ 1928 بمطابق1346 ہجری بروز ہفتہ گاؤں میانی افغاناں ضلع ہوشیار پور مشرقی پنجاب، ہندوستان میں پیدا ہوا، والد کا نام صوفی عنایت اﷲ اور والدہ کا نام رابعہ بصری تھا،بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک سابق ڈائریکٹر مرکزی محکمہ اطلاعات ونشریات حکومت پاکستان اور اردو کے ممتاز شاعر عبدالحمید خاں سابق اسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ نیشنل بینک آف پاکستان رشیدہ بیگم جن کے تینوں بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں اور راقم الحروف سعید پرویز سابق انسپکٹر انکم ٹیکس، افسانہ نگار، کالم نگار، شاعر، محقق، حبیب جالب کے بارے میں سات کتابوں کا اعزاز حاصل ہے اب میں اکیلا رہ گیا ہوں باقی بہن بھائی والدین کے پاس جاچکے، مجھ تک یہی ہمارے مزدور محنت کش والدین کی بیلنس شیٹ ہے۔ حبیب جالب نے پہلا شعر 1942میں کہا، جماعت ہفتم کے امتحانی پرچے میں ''وقتِ سحر'' کا جملہ بنانے کو کہا گیا جملہ تو نہ ہوا شعر ہوگیا:
وعدہ کیا تھا آئیںگے امشب ضرور وہ
وعدہ شکن تو دیکھیے وقت سحر ہو
اینگلو عربک کالج دہلی ہی میں دوسرا شعر۔ سال تھا 1945 اسکول کے سامنے مسجد تھی بعد نماز دعا بھی ہوئی شعر ہوا:
مدتیں ہوگئیں خطاب کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
قیام پاکستان کے بعد دہلی سے کراچی آمد حبیب احمد مست کے نام سے شاعری جاری رکھی اور دسویں جماعت میں داخلہ لے لیا لیکن شاعری کے جنون نے پڑھنے نہ دیا:
1952میں حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک میں شمولیت اور پہلی گرفتاری ریگل چوک کراچی سے دی۔ اسی سال پنجاب یونیورسٹی ہال لاہور میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرے میں شرکت، حبیب احمد مست، اب حبیب جالب بن گئے تھے، ابن انشاء نے جالب تخلص رکھا جگر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا ''اگر ہمارا زمانہ مے نوشی ہوتا تو ہم پاؤں میں گھنگھرو باندھ کے جالب کی غزل پر سر محفل رقص کرتے۔'' 1956 میں لال قلعہ دہلی میں پنڈت جواہر لعل نہرو کی صدارت میں مشاعرہ پڑھا، ہجرت کے موضوع پر لکھی غزل پڑھی محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے، ترے شہر میں ایک جہاں چھوڑ آئے۔
مشاعرہ لوٹا، اگلے روز وزیراعظم ہندوستان نے بلوا لیا، شوکت تھانوی اور حفیظ جالندھری بھی تھے، پنڈت جی کی فرمائش پر وہی غزل جالب صاحب نے سنائی۔ اسی سال نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور شادی بھی ہوئی 1957 میں پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ مکتبہ کارواں لاہور نے شایع کیا۔ سرورق حنیف رامے نے بنایا تھا۔ 1958 میں کراچی سے لاہور منتقلی اور 1962 میں جنرل ایوب کے خود ساختہ دستور کے خلاف پہلی بھرپور آواز بلند ہوئی۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
اس آواز کی گونج لاہور سے چاٹگام تک سنی گئی پھر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ ستمبر 1966 میں شہرۂ آفاق شعری مجموعہ سر مقتل شایع ہوا، مکتبہ کارواں لاہور نے اسے شایع کیا تھا نومبر 1966 یعنی تین ماہ میں اس کتاب کے سات ایڈیشن شایع ہوئے پھر جنرل ایوب حکومت نے کتاب ضبط کرلی، پریس سیل کردیا اور کتاب کے ناشر چوہدری عبدالحمید کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ عوام نے چوری چھپے اس کتاب کے سیکڑوں ایڈیشن پورے ملک میں شایع کیے، سال 1971 آگیا حبیب جالب بنگالیوں کے ساتھ کھڑا تھا اس نے تاریخی قطعہ لکھا پڑھا اور جیل چلا گیا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کوکہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کوکہ منزل کھورہے ہو
اور پھر منزل کھوگئی، بنگلہ دیش بن گیا۔ 1976 میں حیدرآباد سازش بنا جالب اپنی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے ساتھ جیل میں تھا۔ 1978 میں جالب صاحب کی پچاسویں سالگرہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں منائی گئی، لولمبا یونیورسٹی روس میں بھی سالگرہ منائی گئی کارل مارکس اور لینن کے مجسمے جالب کو بھجوائے گئے۔ اس موقعے پر لاہور کے ادیبوں، شاعروں نے ایک کتاب بھی شایع کی نامور مصور صادقین صاحب نے خواہش ظاہرکی اور سرورق بنا۔
جنرل ضیا الحق آگئے جالب صاحب پھر جیل میں کوٹ لکھپت لاہور سے میانوالی جیل بھیج دیے گئے جالب زخم کھاتا رہا مسکراتا رہا، میانوالی جیل میں مزید بیماریاں لے کر باہر آئے، 1980میں کراچی پریس کلب نے تاحیات اعزازی رکنیت دی اور جواباً جالب نے پہلی بار جنرل ضیا کے خلاف لکھی نظم سنائی، ظلمت کو ضیا صرصرکو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا'' آخر یہ باضمیر شاعر 13 مارچ 1993 کے دن وفات پاگیا۔
جالب نے اپنے دیباچے میں ایک جگہ لکھا ہے ''بزرگوں سے سنا ہے کہ اے اﷲ ساتھ ایمان کے قبر میں اتارنا'' اس کا مطلب میں یہی سمجھتاہوں کہ آخری سانس تک قبر میں اترگیا، جالب کے دور سے سبھی شاعروں، ادیبوں نے انھیں خراج تحسین و عقیدت پیش کیا ہے جو سیکڑوں صفحوں پر مشتمل کتابوں میں رسائل میں شامل ہے حکومت نے بھی بعد از مرگ سبھی سول اعزاز دے ڈالے۔ ہلال امتیاز حتیٰ کہ نشان امتیاز بھی۔