شہادتِ حسین ؓاور پیغامِ عاشور

آج اگر امتِ مسلمہ نے ذلت و رسوائی سے چھٹکارا پانا ہے تو اسے شعار حسینی ؑاپنا ناہوگا ۔

میں موت کو سعادت ، اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں، امام عالی مقام علیہ السلام ۔ فوٹو : فائل

ارشادِ رب العزت ہے '' اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہم نے آپ کو شاہد اوربشارت دینے والے اورڈرانے والابناکر بھیجا۔ اور اللہ کے اذن سے اس کی جانب بلانے والانورانی و درخشاں چراغ بنا کر بھیجا''۔(سورہ احزاب 45-46 )

اس میں کوئی شک نہیں کہ امت ِ مسلمہ نے تہذیب و تمدن اسلام کو اپنایا ہے، جو لفظِ شہید اور اسکے معانی و مفاہیم کو دوسر ے کلمات کی نسبت عظیم تر گردانتی ہے۔لفظ شہید ایک مقدس اور پاک و پاکیزہ لفظ ہے یہی وجہ ہے کہ اسے تغسیل و تکفین کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے کہ ا س نے اعلائے کلمۃ الحق کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اللہ کی وحدانیت کی گواہی دی ہے۔ جسم شہید پاک و طاہر ہے ، اسی بناء پر راہِ خدا میں شہادت دینے والے کو اسی خاک و خون میں غلطاں لباس میں دفن کیا جاتا ہے۔شہید وہ نورانی لفظ ہے، جس کے ارد گرد انوار کی شعاعیں طواف میں مصروف رہتی ہیں۔

شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔شہید کا خون مٹی میں جذب نہیں ہوتا بلکہ اس کے خون کا ہر ہر قطرہ '' قطرہ قطرہ دریا می شود'' کہ مصداق دریا کی صورت اختیار کرکے معاشرے کے روح و بد ن میں داخل ہوجاتا ہے اور اسے جاودانی بخش دیتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔

حضرت علی ؓ ابن موسیٰ الرضا ؓکا ارشاد ہے کہ امام حسین ؓ نے فرمایا ۔ ایک روز حضرت امیر المومنین خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو راہِ خدا میں جہاد پر آمادہ کررہے تھے ۔ جس کے دوران ایک جوان کھڑا ہوا عرض کی یا امیر المومنین! مجاہدین راہِ خدا کی فضلیت بیان فرمائیں ،مولائے کائنات نے فرمایا کہ ایک روز جب ہم غزوہ ذات السلاسل سے واپس پلٹ رہے تھے اور میں پیغمبر اسلام کے پس پشت ان کے ناقہ عضبہ پر سوار تھا، یہی سوال جو تم نے مجھ سے کیا میں نے پیغمبر اسلام سے کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا ، مجاہدین راہِ خدا جس گھڑی جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتے ہیں اللہ ان کے حق میں آتش جہنم سے بیزاری لکھ دیتا ہے جس وقت وہ جہاد کے لئے خود کو تیار کرتے ہیں ، خدا ملائکہ کے درمیان ان کے وجود پر فخر و مباہات کرتا ہے اور جس وقت وہ اپنے خانوادہ سے رخصت ہوتے ہیں تو اپنی خطائوں سے پاک و منزہ ہوجاتے ہیں۔

پھر راہِ جہاد میں قدم رکھنے کے بعد ضمنی طور پر یہ لوگ جو بھی نیک عمل انجام دیتے ہیں دوہرے ثواب کے حق دار ہوجاتے ہیں۔اس دوران گزرنے والے ایک ایک دن کے عوض ایک ایک ہزار سال کی عبادتوں کا ثواب ان کے نامہ میں لکھا جاتا ہے۔ جس وقت یہ دشمنان دین کے مقابل صف آرا ہوجاتے ہیں نیزے بلند ہوتے ہیں تیر کمانوں میں جوڑ کر انہیں رہا کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں توملائکہ الہی ان کا احاطہ کرکے، ان کی فتح و نصرت کیلئے دعائیں کرتے ہیں اور منادی بہشت آواز دیتا ہے جنت تلواروں کے سائے میں ہے چنانچہ ایک شہیدکیلئے تلواروں اور نیزوں کے زخم موسم گرما میں ملنے والے ٹھنڈے پانی سے زیادہ خوشگوار ہوتے ہیں ۔

جب ایک مجاہد جسم پر زخم کے سبب زمین پر گرتا ہے قبل اس کے کہ اس کا بدن زمین تک پہنچے، خداوندِعالم اسکی شریک و ہمسر کو جس کا تعلق حور العین سے ہوتا ہے اس کی خدمت کے لیے بھیج دیتا ہے تاکہ وہ پیش خدا اسکے مقام و عظمت کی بشارت دے دے ۔ جیسے ہی اس کا جسم زمین تک پہنچتا ہے، زمین اس سے گویا ہوتی ہے ،کیا کہنے اس پاکیزہ روح کے کہ جو پاک و پاکیزہ بدن سے خارج ہوئی ہے۔پس تجھ کو بشارت ہو کہ تیرے لیے وہ نعمتیں آمادہ و منتظر ہیں جن کے مثل اب تک کسی کی آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا، نہ کسی کے تصور نے ان تک پرواز کی ہے ۔ خداوندِعالم اس روح کو ایک مخصوص قالب میں ڈھال کر بہشت کی زینت قراردے دیتا ہے ۔ وہ بہشت کی نعمتوں سے بہرہ مندہوتی رہتی ہے ۔

جب روز قیامت آپہنچتا ہے شہدا اس عظمت و جلالت کے ساتھ محشور ہوتے ہیں کہ ان کی راہوں میں پیغمبران خدا سواریوں سے اتر کر احترام کرتے ہیں ، پیادہ ہوجاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنی مخصوص جگہوں پر جا پہنچیں ۔وہ لوگ بارگاہِ احدیت میں اتنے زیادہ عظمت و وقار کے حامل ہوتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اہل خانہ ،عزیزوں و پڑوسیوں میں سے ستر ہزار افراد کی شفاعت کاحق رکھتا ہے ۔ با لآخر وہ لوگ میرے (رسول خدا ) اور خلیل خدا حضرت ابراہیم ؑ کے ہمراہ ایک مخصوص مقام تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور صبح و شام لقائے وجہ اللہ سے فیضیاب ہوتے ہیں(تفسیر مجمع البیان جلد2)۔

یہ عام شہید کا مقام ہے اور وہ ہستی جو جوانانِ جنت کی سردار ہو جس کے بارے میں خیر البشر ،احمد مصطفی ؐ کا فرمان ہے حسینؓ منی و انا من الحسین ؓ احب اللہ من احب حسیناجو سوار دوشِ رسول ؐ جو فرزند علی ؓ و بتول ؓ ہو اور جس نے حضرت ابراہیم کے خواب فدیناہ بذبح عظیم کو کربلا کے تپتے صحرا پر اپنے 72جگر پاروں و جانثاروں کی طاہر مطہر جانوں کے نذرانے پیش کرکے نہ صرف سچ کردکھایا ہو بلکہ ملتِ ابراہیمی اور امت مسلمہ کی عزت و حرمت کو بام عروج تک پہنچا کر سید الشہداء کا لقب پایا ہو اس کے مقام اعلیٰ کا کیا رتبہ و درجہ ہوگا۔

امام حسین علیہ السلام کا ارشاد ہے ۔ اللہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنے واجب کی حیثیت سے پہلے ذکر کیا کیوں کہ وہ یہ جانتا ہے ۔ اگر یہ دونوں فریضے ادا کیے گئے اور قائم ہوگئے تو سب فرائض خواہ نرم ہو یا سخت خود ادا ہوجائیں گے۔یہ دونوںانسانوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور صاحبان حقوق کے حقوق ان کی طرف پلٹانے والے اور ظالموں کومخالفت پر آمادہ کرنے والے ہیں (تحفہ العقول صفحہ237)۔
ایک اور جگہ پر فرمایا لوگو! رسالت مآب ؐ کا ارشاد ہے وہ جو کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے،پیمان الہی کو توڑ دیا ہے ،سنت رسول ؐ کی مخالفت کرتا ہے ،بندگان خدا کے درمیان ظلم و گناہ کرتا ہے اور پھر بھی عمل سے اور نہ قول سے اسکی مخالفت کرتا ہے اللہ پر واجب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کی جگہ اس شخص کو ڈال دے گا (مقتل الخوارزمی جلد1)۔

پھر ایک اور جگہ ارشاد فرما یا کہ کیا تم نہیں دیکھ رہے ، حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے دوری نہیں کی جارہی ، ایسی صورت میں مومن کو حق ہے کہ وہ اللہ سے ملاقات کی رغبت کرے (تحف العقول)
اسی بناء پر حسین ؓ نے کہا تھا

میں موت کو سعادت ، اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (تحف العقول صفحہ645)
پھر اپنا مقصدِ شہادت یوں فرمایا
خدا تو جانتا ہے ، میرا قیام نہ سلطنت کیلئے ہے ، نہ حصول دولت کے لیے، بلکہ ہم تیرے دین کو پیش کرنا چاہتے ہیں ، تیرے شہروں میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں ، تیرے مظلوم بندوں کے لیے ، امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ چاہتے ہیں فرائض سنن اور احکام پر عمل کیا جائے (تحفہ العقول)


اس حدیث میں امام نے دنیا پر واضح کردیا کہ دین سے رو گردانی کی جارہی ہے ۔ شہروں میں اصلاح کی بجائے دنگا و فساد ہے ، مظلومین و مستضعفین مصائب و آلام میں گرفتار ہیں ۔اس بات کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا ، میرا خروج نہ خودپسندی ،نہ اکڑ ،نہ فساد ،نہ ظلم کے لیے ہیں ، میں نے جد کی امت کی اصلا ح کے لیے خروج کیا ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد محمد ؐ اور والد نامدار علی کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔(مقتل الخوارزمی

یزید نے، حاکم مدینہ کو حسین ؓ ابن علی ابن ابی طالب ؓ کو بیعت کے لیے مکتوب لکھا ۔ حسین ؓ نے صاف انکار کردیا ۔
چنانچہ حسین ؓ نے 28رجب کو نانا کے شہر مدینہ کو الوداع کہا۔کعبہ کی حرمت بچانے کیلئے8ذوالحجہ کوحج کو عمر ہ میں تبدیل کرتے ہوئے ، مکہ چھوڑ دیا اور 2محرم61ہجری کو کربلا میں وار د ہوئے ۔7 محرم کو پانی بند ہوا ،شب عاشور کو حسین ؓ نے چراغ بجھا کر اپنے اصحاب کو اجازت دی کہ جس نے جانا ہے جاسکتا ہے ۔ لیکن جب چراغ روشن ہوا تو سب کے سب اپنی گردنوں پر تلواریں رکھے بیٹھے تھے۔
شب عا شور حسین ؓ نے اپنے اصحاب و انصار ؓ اور اولاد کے ساتھ عبادت میں بسر کی۔روزِعاشور اصحاب باوفا اور اولادِ باصفا کی شہادت کے بعدمیدانِ کربلا کا رخ کیا ۔

ازاں بعد استغاثہ بلند فرمایا ۔ اس حالت میں آپ کی نگاہ مقتل پر پڑی اوراپنے جانثاروں کی لاشیں دیکھ کر یوں گویا ہوئے ، اے حبیب ابن مظاہر ، اے زہیر ابن قین ، اے مسلم ابن عوسجہ ، اے قاسم ؓ ،اے عباس ؓ،اے علی اکبر ؓ ،اے بیشہ شجاعت کے شیرو!میرے جنگ جو بہادرو!میں پکارتا ہوں تو تم جواب کیوں نہیں دیتے۔ میں تمہیں مدد کو بلا رہا ہوں۔تم جواب کیوں نہیں دیتے،اے جنگ جو جوانو! تم سو رہے ہو ۔کیا تمہارے دل امام ؓ کی محبت سے خالی ہوگئے ،اے نیک طینت مددگارو! اٹھو اور حرم رسول ؐ سے ان سرکشوں کو ہٹا دو۔یہ درد بھری آواز سن کر لاشہ ہائے شہداء تڑپ اٹھے، ازاں بعد حسین ؓ قوم جفا کار کے سامنے تشریف لائے ،انہیں اپنا تعارف کرایا جس کے آخری الفاظ یہ تھے۔

''ظالمو عذاب خدا سے ڈرو ۔ وہ بہت سخت عذاب ہوگا ، وہ وقت قریب ہے ، جب عذاب الہی کے شعلے تمہیں گھیر لیں گے''
لیکن اس سرکش قوم پر کسی نصیحت کا اثر نہ ہوا امام ؓ لا حول ولاقوۃ الا باللہ کہتے ہوئے پلٹے اور کہا پھر اب تیار ہوجائومیں نے سب کچھ اتمام حجت کے لیے کیا ہے ،اب رسول ؐ کے نواسے ،کربلا کے پیاسے جعفر طیار ؓ کے بھتیجے اور حیدر کرار ؓ کے بیٹے کی شمشیر زنی کا منظر دیکھو۔پھر آپ ؓنے ذوالفقار حیدری کو نیام سے نکالا اور شیرانہ رجز پڑھتے ہوئے اس قوم زبوں کردار پر حملہ آور ہوئے جس کے بارے میں انگریز مورخ لکھتا ہے

میں آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا ایک وہ شخص جس کے عزیز و اقارب،جوان بچے اس کے سامنے ذبح کردیئے جائیں ،تین دن کا پیاسا ہو ،زخموں سے چور چور ہو وہ حسین ؓ ابن علی ؓ کی طرح اتنی بہادری سے لڑا ہوا ،ایک کے حملہ نے دشمن کی فوج میں وہ ہل چل مچادی کہ ڈر اور خوف سے سپاہی پر سپاہی گر رہا تھا ۔حسین ؓ جدھر رخ کرتے ، دشمن ایسے بھاگتے گویا ہوا کے زور سے ٹڈی دل پریشان ہو رہی ہے۔
امام حسین ؓ کا تیسرا حملہ اس قدر سخت ترین تھا کہ فوجِ یزید ہٹتے ہٹتے کوفہ کے دروازے کے اندر داخل ہوگئی ۔ڈھیروں ٹاپوں کے تلے آکر کچلے گئے۔ہر طرف سے الاماں الاماں کی آوازیں آنے لگیں۔جب حضرت نے عاقبت بربادوں کی یہ صورت دیکھی تو ذوالجناح کی باگ کھینچ لی او ر ایک مقام پر ایستادہ ہوکر ہر سو دیکھا نا گاہ ایک ندائے غیبی زمین و آسمان میں گونجی ۔حسین ؓ کب تک لڑوگے،تمھارے وعدے کا وقت قریب آگیا ہے ۔

حسین ؓ نے یہ صدا سنتے ہی اپنی ذوالفقار آبدار کو نیام میں کرلیااور لقائے الہی کے شوق میں اپنی شہادت کا انتظار کرنے لگے۔سپاہ یزید نے جب حضرت کو اس طرح دیکھا تو سمجھ گئے حسین ؓ شاید تھک گئے ہیں اب تو حملے پے حملہ ،وار پے وار ،تلواروں ،نیروں اور تیروں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ایک مظلوم بھوکے پیاسے کو ہزاروں خون کے پیاسوں نے گھیرلیا،آپ ؓ کا لباس اطہر خون سے تر بتر تھا ،ضعف کی بناء پر غش پر غش آرہے تھے اور شدت پیاس سے زبان خشک تھی اس حالت بے بسی میں امام ؓ نے پھر آواز استغاثہ بلندکی۔اس آواز کے بلند ہوتے ہی ملاء اعلیٰ میں قیامت برپا ہوگئی۔جبرائیل امین نے درگاہ خداوندی میں عرض کی ۔

مجھ سے اپنے پیار ے حسین ؓکی حالت دیکھی نہیں جاتی ،یہی حسین ؓ ہے جس کیلئے میں جنت کے میوے سے کر جاتاتھا جس کے گہوارے کو جھلایا کرتا تھا پالنے والے مجھ سے حسین ؓ کی بے کسی نہیں دیکھی جاتی ،پالنے والے مجھے اذن دے حجاب قدرت سے آواز آئی اگر میرا حسین ؓ مدد قبول کرے تو ضرور کرو ،جبرائیل امین بہ اذن خدا کربلا پہنچے اور امام غریب کے سر پر پروں کا سایہ کرلیا ۔امام ؓ کو سایہ کی وجہ سے ٹھنڈک محسوس ہوئی تو پوچھا کہ اے سایہ کرنے والی مخلوق تو کون ہے کہ تجھے اس بے کسی میں میری مدد کا خیال آیا ۔آواز آئی میں تیرا خادم جبرائیل ہوں۔اجازت دیں تو آپ کے تمام دشمنوں کا خاتمہ کردوں۔حضرت نے وہی جواب دیا جو ابراہیم ؑ نے اس وقت دیا تھا جب انہیں نار نمرود میں پھینکا جارہا تھا ۔ میں لقائے الہی کا مشتاق ہوں۔ہٹ جائو جبرائیل یہ وقت امتحان کا ہے۔

مختصر یہ کہ اپنا عمامہ اور دیگر تبرکات ذوالجناح کی زین سے باندھے اور فرمایا اے اسپ باوفا جب تیرا سوار (جوسوار دوش رسول ؐ ہے)زین سے زمین پر آجائے تو تیری ذمہ داری ہے کہ ان تبرکات کو اہل حرم تک پہنچا دینا ۔آہ کس طرح بیان کیا جائے کہ اس قوم جفا کار نے چاروں طرف سے نیزوں،تیروں کی بارش کردی اور امام عالی مقام اپنے گھوڑے باوفا پر نہ ٹھہر سکے۔

وہ نماز عصر کا وقت تھا نہ حسینؓ گھوڑے پہ تھم سکے
وہ صدا اذاں کی بلند تھی کہ زمیں پہ خود کو گرادیا
رضا بقضائہ و تسلیما لامرہ کہتے ہوئے زمین پر تشریف لائے،نماز عصر ادا کرتے ہوئے سجدہ خداوندی میں سر رکھا کہ شمر ذوی الجوشن نے بے دردی سے بوسہ گاہ نبی ؐ پر خنجر چلا دیا جس سے دشتِ نینوا میں زلزلہ آگیا،سورج کو گہن لگ گیا،ہر سو سیاہ آندھیاں چلنے لگیں ، قد قتل الحسین ؓ بکربلاکی صدائیں گونجنے لگیں۔جب خنجر امام ؓ کے حلق پر چل رہا تھا دیکھا کہ ایک چیز اوپر سے نیچے یعنی آسمان سے زمین پر آئی ،ایک زمین سے آسمان کی طرف گئی اور ایک آپ کا طواف کرنے لگی ۔آسمان سے جو چیز آئی وہ جبرائیل تھے۔ زمین سے جو اٹھا وہ نیز ے پر بلندہونے والا امام کا سر تھا اور جو حسین ؓ کے ارد گرد طواف کررہی تھی وہ حسین ؓ کی دکھیاری بہن زینب تھی جو واہ محمدا و علیا کے بین کررہی تھیں کہ کربلا کے بن میں میری ماں فاطمہ زہرا ؓ کا ہرا بھرا دیس لٹ گیا۔

امام حسین ؓ نے دنیا کو بتا دیا کہ میں نے ایثار وقربانی کی شمع اس لیے روشن کی ہے تاکہ قلوب الناس میں جوش و خروش پیدا ہو اورجو معاشرے کو منور اور روشن خیال بناسکے اور اسکے ہر ہر فرد میں نئے سرے سے روح و جان ڈال سکے اور اس کے جسم میں تازہ خون مہیا کرسکے۔ آج پوری دنیا ئے مظلومیت شرق ،غرب ،شمال ،جنوب میں آپ ؓ اور آپ ؓ کے اصحاب ؓ باوفا کی شہادت سے متاثر ہے۔سینکڑوں سال بیت گئے لیکن مظلوم اقوام آج بھی جوش و ولولہ اور جذبے سے سرشار ہیں۔

امام حسین ؓ نے یزیدیت کے بخیے اڈھیر کر رکھ دیئے اور آمریت و ملوکیت کے چہروں پر پڑے ہوئے تمام پردوں کو چاک کرکے دنیا کو یہ بتادیا کہ موت ، ہمیشہ ذلت و رسوائی کی ندامت سے لبریز زندگی سے زیادہ بہتر،عزیز اور زیادہ محبوب ہے ۔آج اگر امتِ مسلمہ نے ذلت و رسوائی سے چھٹکارا پانا ہے تو اسے شعار حسینی ؑاپنا ناہوگا ۔
Load Next Story