امامِ عالی مقام ؓکا پیغامِ انقلاب

’’بار الٰہا ! تو جانتا ہے ، جو کچھ ہمارے طرف سے ہوا وہ نہ تو حصول اقتدار کے لیے، نہ مال و دنیا میں اضافے کے لیے.


Shaista Zaidi November 24, 2012
یہ امارت اور خلافت میرے نزدیک بکری کی چھینک سے بھی زیادہ حقیر ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ۔ فوٹو فائل

سرزمین مکہ پر ایک آواز گونجی تھی۔

'' لوگو! لاالہ الااﷲ کہو، اور فلاح پا جائو'' یہ آواز خدا کے آخری رسولﷺ کی آواز تھی
کربلا اسی آواز کی بازگشت ہے ۔ نواسۂ رسول ﷺ جگر گوشۂ بتول کی عظیم قربانی کی یاد منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اس کلمے کے معنی سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ جانیں کہ فلاح کے معنی کیا ہیں ، جو اس کلمہ لاالہ کا نتیجہ اور ثمر ہے۔

وہ کیا حالات تھے ، جن کے خلاف احتجاج کی خاطر آپ نے اپنا سب کچھ لٹا دیا اور وہ مصائب برداشت کئے جن کی یاد آج تک انسان کو خون کے آنسو رلا رہی ہے ۔ کیا لوگوں نے کلمہ لاالہ الااﷲ کا اعتراف بند کر دیا تھا ، یا نمازیں ترک کر دی تھیں یا مسجد یں مٹا دی گئی تھیں۔ امامؓ ؓ نے ہمیں یہ بتایا کہ یہ کلمہ محض زبانی اعتراف نہیں ہے ۔ عبادتیں محض چند ارکان ادا کرلینے کا نام نہیں ہے۔ یہ کلمہ پورے معاشرتی انقلاب کا پیغام ہے جس انقلاب کی بنیادیں خدا نے اس طرح بیان کیں۔

''اﷲ وہ ہے جو حکم دیتا ہے تمہیں عدل کا اور احسان کا اور قرابتوں کے احترام کا اور منع کرتا ہے تمہیں فحشاء و منکر اور اپنی حدوں سے آگے قدم بڑھانے سے'' (سورۂ نحل 9)
نواسۂ رسولﷺ اپنے آپ کو تاریخ کے اس موڑ پر دیکھ رہے ہیں جہاں یہ کلمہ محض زبانوں پر باقی ہے اور اس کی روح کو مردہ کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے نام پر بدترین اور ظالم ترین حکومت برسر اقتدار ہے ۔ ملوکیت نے اسلام کی نقابیں اوڑھ لی ہے۔ اور اسلام کی شناخت گم ہوچکی ہے۔ اور اگر آپ اس صورت حال کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے تو ہمیشہ کے لیے اسلام کی ا صل پہچان ختم ہوجا تی۔ یہ یاد منانے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ ہم جانیں ،کہ امام کا احتجاج کن حالات کے خلاف تھا، اور اسلام کی سچائیاں کیا ہیں ۔ یہ جاننے کے لیے ہم امام عالی مقام کے ہی ایک خطبے سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ خطبہ آپ نے واقعہ کربلا سے دو سال پہلے میدان منیٰ میں ارشاد فرمایا ۔ اس موقع پر آپ نے دنیائے اسلام کے علماء اور دانشوروں کو حج پر آنے کی خصوصی دعوت دی۔ ان علماء اور دانشوروں میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ آپ نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انھیں اپنی ذمہ داریاں یاد دلائیں ۔ آپ فرما رہے ہیں۔

''اے وہ گروہ! جو علم و فضل کے لیے مشہور ہے، جس کا نیکی اور خیر سے تذکرہ ہوتا ہے ... یہ عزت و احترام ا س لیے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ احکام الٰہی کا اجراء کریں گے۔''
یہاں ہمیں امام علیؓ کا قول یاد آتا ہے۔ آپ قبول خلافت کی وجہ بیان فرما رہے ہیں ، آپ نے فرمایا:

''اگر لوگوں کے حاضر ہونے کی وجہ سے مجھ پرحجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور علماء سے یہ خدائی عہد نہ ہوتا کہ وہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک سے سمجھوتہ نہیں کریں گے، تو تم دیکھتے کہ میں ناقۂ خلافت کی مُہارکو اس کی پشت پر ڈال دیتا تاکہ یہ ناقۂ خلافت جدھر چاہے نکل جائے اور جس خار زار کو چاہے، اپنی چراگاہ بنا لے، تاکہ تم دیکھتے کہ تمھاری یہ امارت اور خلافت میرے نزدیک بکری کی چھینک سے بھی زیادہ حقیر ہے۔'' (خطبہ نمبر3 نہج البلاغہ)

امام علیؓ کے یہ الفاظ ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہر دور کے علماء کا یہ خدائی فریضہ ہے ،کہ ظلم سے سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اور پھر امام حسینؓ بتا رہے ہیں کہ ان کے دور کے علماء کے اس فریضہ کو فراموش کرنے سے امت پر کیا گزری ۔

''آپ نے امت کے حقوق کو نظرانداز کر دیا ہے ۔ کمزور اور بے بس افراد کے حقوق کو ضائع کر دیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے ہیں اسے حاصل کرکے بیٹھ گئے ہیں۔''
پھر آپ فرماتے ہیں '' آپ کے آباء و اجداد کے بعض عہد و پیماں ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں، جب کہ رسول ﷺ کے عہد و پیماں نظر انداز ہو رہے ہیں اور آپ کو کوئی پروا نہیں۔''

غور طلب بات یہ ہے کہ رسول ﷺ کے عہد و پیمان ٹوٹنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ وضاحت فرماتے ہیں۔
''اندھے، گونگے ، اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں، کوئی ان کی حالت زار پر رحم نہیں کرتا۔ ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔ کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے ہیں اور کچھ مصیبت کے مارے اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہوگئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔

ہر شہر میں، ہر منبر پر اس کا خطیب چیختا ہے۔ عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ کوئی حاکم ظالم ہے ۔ جابر، دشمنی اور عناد رکھنے والا، اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ہے۔ ہر جگہ ان کا حکم چلتا ہے۔ جب کہ یہ خدا کو مانتے ہیں نہ روز جزا کو۔''

امام عالی مقام نے ان الفاظ میں ظلم اور ظالمانہ کردار کے حاکموں کے کردار کی خصوصیات بتائیں، ظلم کا ایک پہلو لوگوں کو غلام بنانا ہے۔ غلام محض وہی نہیں ہوتے، جنہیں خرید لیا جائے۔ غلامی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل دوسروں کی مرضی کے تابع ہوجائے۔ دوسرا پہلو عوام کی معاش پر قبضہ کرکے ان سے احتجاج کی طاقت چھین لیا جائے۔ اور تیسرا اور سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کے جسم پر ہی نہیں بلکہ ان کے ذہنوں پر بھی غلط تاویلوں کے ذریعے قبضہ کر لیا جائے، عمل کی آزادی ہی سلب نہ ہو ، ذہن کی آزادی بھی ختم ہوجائے۔

ان الفاظ میں بڑی آفاقیت ہے۔ ہر ظلم کے یہی تین رخ ہوتے ہیں۔ آزادیوں کو سلب کرنا، معاشی لوٹ مار اور برین واشنگ ۔
سب سے بڑا المیہ امام عالی مقام یہ دیکھ رہے ہیں کہ جس دین کے اصول عدل و احسان ہوں اس دین کے نام پر یہ حالت ہوجائے کہ :

''تعجب ہے اور کیوں نہ تعجب ہو، ملک ایک دھوکے باز ستم گر کے ہاتھوں میں ہے ۔ جس کے ٹیکس وصول کرنے والے ظالم ہیں اور صوبوں میں اس کے گورنر مومنوں کے لیے سنگ دل اور بے رحم ہیں۔''
پھر آپ ان حالات میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''بار الٰہا ! تو جانتا ہے ، جو کچھ ہمارے طرف سے ہوا وہ نہ تو حصول اقتدار کے لیے، نہ مال و دنیا میں اضافے کے لیے، بلکہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تیرے دین کو آشکار کردیں تاکہ تیرے مظلوم اور بے یار و مددگار بندوں کو امن و سکون میسر آسکے۔''

آٓخر میں آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا : '' اے لوگو! آج اگر تم نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو مجھے خوف ہے کہ ظالم تم پر ہمیشہ کے لے مسلط ہوجائیں گے اور مجھے یہ خطرہ ہے کہ وہ دین خدا کے چراغ کو نہ بجھا دیں ۔''
یہ حقیقت ہے کہ اس نظام ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت نے نواسۂ رسول ﷺ کا اس طرح ساتھ نہیں دیا ، جو حالات کا تقاضہ تھا ۔ امام عالی مقام ؑ کی پیشن گوئی پوری ہوئی۔ آج تک امت مسلمہ پر ظالم حکومت کر رہے ہیں۔

لیکن جہاں تک دین خد اکے چراغ کا تعلق ہے، اسلامی اقدار کی روشنی کا سوال ہے ، نبی ﷺ کے نواسے نے اپنا خون ہی نہیں نذر کیا ، بلکہ جن کا خون اپنے خون سے زیادہ پیارا ہوتا ہے ، جو بازؤں کی طاقت ہوں۔ آنکھوں کا نور ہوں، گود کے پالے ، گھر کے اجالے ، سب ہی کا خون نذر کر دیا۔ گھر کے سارے چراغوں کو میدان کربلا میں لے آئے تاکہ چراغ نبوت کی لو مدھم نہ ہونے پائے۔ جب یہ پاک و معصوم خون چراغ نبوت کی نذر ہوں تو نور نبوت نوراً علا نور بن جائے ، ہمیشہ کے لیے ، ہر زمانے کے لیے ہر خطہ ارض کے لیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں