عورتوں پر تشدد کا سدباب
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹے دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ۔
عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن 25 نومبر کو منایا جاتا ہے اور اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوتا ہے اور اختتام دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر ہوتا ہے۔
یہ مہم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورتوں پر تشدد انسانی حقوق کی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔ امسال کا موضوع ''عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے قانون کا استعمال'' ہے۔ہر ملک میں عورتیں اور بچیاں مختلف طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، اسکولوں میں، لڑائیوں میں اور زمانۂ امن میں بھی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو اور جنسی تشدد ہے۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو ترجیح دینے کی وجہ سے لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاطِ حمل، نوعمری کی شادیاں، کاروکاری اور عورتوں کو قتل کرنے کے دوسرے طریقے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
اس تشدد کی وجہ سے عورتیں اور بچیاں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں، ان کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتیں۔ تشدد عورتوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس کے سماجی اور اقتصادی اثرات دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بنتے ہیں، پاکستان میں عورت فاؤنڈیشن 2008 سے ایک مخیر تنظیم ٹروکیئر (Trocaire) کی مدد سے عورتوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں اعداد وشمار جمع کرکے رپورٹیں شایع کر رہی ہے۔
ان اعداد و شمار نے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی اہمیت کو اجاگرکیا ہے اور 2010 اور 2011 میں عورتوں کے لیے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون '' اور ''عورت دشمن رواجوں پر پابندی'' کا قانون خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آج کل عورت فاؤنڈیشن گھریلو تشدد کے خلاف قانون بنوانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ یہ قانون قومی اسمبلی میں منظور ہوگیا تھا، مگر سینیٹ میں منظور نہیں ہوا اور تب ہی اٹھارہویں ترمیم آگئی جس کی بدولت اب یہ قانون صوبائی اسمبلیوں کے دائرۂ اختیار میں آگیا ہے اور اب ہر صوبائی اسمبلی کو اپنے طور پر یہ بل منظور کرنا ہوگا جب کہ اسلام آباد کی وفاقی حدود کے لیے یہ بل منظور کیا جا چکا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹے دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جب کہ بنگلہ دیش بھی اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ ادھر ہندوستان میں جہیز نہ لانے والی خواتین کو جلا دیا جاتا ہے۔
سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جلد از جلد گھریلو تشدد کے خاتمے کا بل منظور کیا جائے۔ تشدد کی شکار خواتین کے لیے شیلٹرز ہوم کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ پولیس کو ٹریننگ دی جائے کہ وہ تشدد کی شکار خواتین کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کریں، ان کی ایف آئی آر درج کریں اور نامناسب سوالات پوچھ کر انھیں ہراساں نہ کریں۔
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2011 کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں کاروکاری کا نشانہ بنتی ہیں اور نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے، دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ملالہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے لڑکیوں کی تعلیم کو بین الاقوامی مہم میں تبدیل کردیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کے ذریعے عورتوں پر تشدد کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر سلامتی کا حق اور تشدد سے پاک زندگی گزارنے کا حق، کے احترام کے لیے مضبوط قوانین بنانا، ان پر عمل درآمد کرانا اور عورتوں کی حفاظت اور ان پر تشدد کی روک تھام کے لیے خدمات فراہم کرنا بھی قانون ساز اداروں کی ذمے داری ہے۔
پارلیمنٹ کو موجودہ قوانین کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کرنا چاہیے۔کسی بھی جمہوری ملک میں کوئی قانون اسی وقت کامیاب قرار پائے گا جب اسے صحیح طور پر نافذ بھی کیا جائے۔ اسمبلیوں کے ارکان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پولیس، پراسیکیوٹرز، ججز، صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والوں، سوشل ورکرز اور مذہبی رہنماؤں وغیرہ کو بھی اس عمل میں شامل کرسکتے ہیں، کسی بھی قانون کے کامیاب نفاذ کے لیے معاشرے میں اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے جس کے بارے میں قانون بنایا گیا ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اگر سول سوسائٹی اور میڈیا بھی اس مسئلے کے بارے میں ہمدردانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں دنیا بھر کی پارلیمانوں نے عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن یعنی 25 نومبر کو اس مسئلے کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کی پارلیمانوں کو ٹھوس قانون اصلاحات اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔یہاں ہم آپ کو اس عالمی دن کا پس منظر بھی بتاتے ہیں۔ 25 نومبر 1960کو ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔
میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 سے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، پاکستان میں عورتوں پر تشدد کی صورتحال عورت فاؤنڈیشن اور ٹروکیئر کی رپورٹوں کی روشنی میں کچھ یوں ہے:
''سال 2011 میں 8,539 عورتیں تشدد کا شکار ہوئیں جب کہ سال 2010 کے مقابلے میں اس ملک بھر میں عورتوں کے خلاف تشدد کے درج شدہ واقعات میں 6.74% اضافہ ہوا ہے۔ سال 2010 میں عورتوں کے خلاف تشدد کے 8,000 واقعات درج ہوئے تھے۔ سال 2009 میں 8,584 واقعات جب کہ سال 2008 میں ان واقعات کی تعداد 7,571 تھی۔ عورتوں کے خلاف تشدد کی صورتحال تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ عموماً ایک جیسی رہی اور ہمارے معاشرے میں عورتوں کے خلاف اس افسوسناک جرم میں کسی واضح کمی یا خاتمے کا رجحان دیکھنے میں نہیں آیا۔''
یہ صورتحال ایک جمودکی عکاسی کرتی ہے۔ نہ تو ریاست عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کچھ کر رہی ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اس غیر مہذب رویے کو ختم کرنے کے لیے کچھ کر رہا ہے۔ آئیے آج یہ دن مناتے ہوئے ایک روشن، تعلیم یافتہ اور تشدد سے پاک معاشرے کے قیام میں اپنا حصہ ڈالیں۔
یہ مہم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورتوں پر تشدد انسانی حقوق کی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔ امسال کا موضوع ''عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے قانون کا استعمال'' ہے۔ہر ملک میں عورتیں اور بچیاں مختلف طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، اسکولوں میں، لڑائیوں میں اور زمانۂ امن میں بھی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو اور جنسی تشدد ہے۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو ترجیح دینے کی وجہ سے لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاطِ حمل، نوعمری کی شادیاں، کاروکاری اور عورتوں کو قتل کرنے کے دوسرے طریقے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
اس تشدد کی وجہ سے عورتیں اور بچیاں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں، ان کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتیں۔ تشدد عورتوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس کے سماجی اور اقتصادی اثرات دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بنتے ہیں، پاکستان میں عورت فاؤنڈیشن 2008 سے ایک مخیر تنظیم ٹروکیئر (Trocaire) کی مدد سے عورتوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں اعداد وشمار جمع کرکے رپورٹیں شایع کر رہی ہے۔
ان اعداد و شمار نے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی اہمیت کو اجاگرکیا ہے اور 2010 اور 2011 میں عورتوں کے لیے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون '' اور ''عورت دشمن رواجوں پر پابندی'' کا قانون خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آج کل عورت فاؤنڈیشن گھریلو تشدد کے خلاف قانون بنوانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ یہ قانون قومی اسمبلی میں منظور ہوگیا تھا، مگر سینیٹ میں منظور نہیں ہوا اور تب ہی اٹھارہویں ترمیم آگئی جس کی بدولت اب یہ قانون صوبائی اسمبلیوں کے دائرۂ اختیار میں آگیا ہے اور اب ہر صوبائی اسمبلی کو اپنے طور پر یہ بل منظور کرنا ہوگا جب کہ اسلام آباد کی وفاقی حدود کے لیے یہ بل منظور کیا جا چکا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹے دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جب کہ بنگلہ دیش بھی اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ ادھر ہندوستان میں جہیز نہ لانے والی خواتین کو جلا دیا جاتا ہے۔
سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جلد از جلد گھریلو تشدد کے خاتمے کا بل منظور کیا جائے۔ تشدد کی شکار خواتین کے لیے شیلٹرز ہوم کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ پولیس کو ٹریننگ دی جائے کہ وہ تشدد کی شکار خواتین کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کریں، ان کی ایف آئی آر درج کریں اور نامناسب سوالات پوچھ کر انھیں ہراساں نہ کریں۔
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2011 کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں کاروکاری کا نشانہ بنتی ہیں اور نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے، دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ملالہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے لڑکیوں کی تعلیم کو بین الاقوامی مہم میں تبدیل کردیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کے ذریعے عورتوں پر تشدد کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر سلامتی کا حق اور تشدد سے پاک زندگی گزارنے کا حق، کے احترام کے لیے مضبوط قوانین بنانا، ان پر عمل درآمد کرانا اور عورتوں کی حفاظت اور ان پر تشدد کی روک تھام کے لیے خدمات فراہم کرنا بھی قانون ساز اداروں کی ذمے داری ہے۔
پارلیمنٹ کو موجودہ قوانین کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کرنا چاہیے۔کسی بھی جمہوری ملک میں کوئی قانون اسی وقت کامیاب قرار پائے گا جب اسے صحیح طور پر نافذ بھی کیا جائے۔ اسمبلیوں کے ارکان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پولیس، پراسیکیوٹرز، ججز، صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والوں، سوشل ورکرز اور مذہبی رہنماؤں وغیرہ کو بھی اس عمل میں شامل کرسکتے ہیں، کسی بھی قانون کے کامیاب نفاذ کے لیے معاشرے میں اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے جس کے بارے میں قانون بنایا گیا ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اگر سول سوسائٹی اور میڈیا بھی اس مسئلے کے بارے میں ہمدردانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں دنیا بھر کی پارلیمانوں نے عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن یعنی 25 نومبر کو اس مسئلے کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کی پارلیمانوں کو ٹھوس قانون اصلاحات اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔یہاں ہم آپ کو اس عالمی دن کا پس منظر بھی بتاتے ہیں۔ 25 نومبر 1960کو ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔
میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 سے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، پاکستان میں عورتوں پر تشدد کی صورتحال عورت فاؤنڈیشن اور ٹروکیئر کی رپورٹوں کی روشنی میں کچھ یوں ہے:
''سال 2011 میں 8,539 عورتیں تشدد کا شکار ہوئیں جب کہ سال 2010 کے مقابلے میں اس ملک بھر میں عورتوں کے خلاف تشدد کے درج شدہ واقعات میں 6.74% اضافہ ہوا ہے۔ سال 2010 میں عورتوں کے خلاف تشدد کے 8,000 واقعات درج ہوئے تھے۔ سال 2009 میں 8,584 واقعات جب کہ سال 2008 میں ان واقعات کی تعداد 7,571 تھی۔ عورتوں کے خلاف تشدد کی صورتحال تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ عموماً ایک جیسی رہی اور ہمارے معاشرے میں عورتوں کے خلاف اس افسوسناک جرم میں کسی واضح کمی یا خاتمے کا رجحان دیکھنے میں نہیں آیا۔''
یہ صورتحال ایک جمودکی عکاسی کرتی ہے۔ نہ تو ریاست عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کچھ کر رہی ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اس غیر مہذب رویے کو ختم کرنے کے لیے کچھ کر رہا ہے۔ آئیے آج یہ دن مناتے ہوئے ایک روشن، تعلیم یافتہ اور تشدد سے پاک معاشرے کے قیام میں اپنا حصہ ڈالیں۔