عاشورہ محرم الحرام کا پیغام

عاشورہ محرم الحرام میں دہشت گردی کے واقعات نے سب کے دل چھلنی کردیے ہیں ۔


Editorial November 24, 2012
دنیا بھر کے مسلمان بلاامتیاز مسلکی وفقہی اختلاف کے عاشورہ محرم الحرام انتہائی عقیدت واحترام سے مناتے ہیں۔ فوٹو : فائل

KARACHI: آج یوم عاشور ہے' حضرت سیدنا امام حسینؓ اور ان کے جانثاروں کی شہادت کا دن۔ دنیا بھر کے مسلمان بلاامتیاز مسلکی وفقہی اختلاف کے عاشورہ محرم الحرام انتہائی عقیدت واحترام سے مناتے ہیں۔

پاکستان کے ہر شہر' قصبے اور گاؤں میں شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس عزا برپا ہوتی ہیں۔ شبیہہ ذوالجناح اور تعزیے برآمد ہوتے ہیں۔ دودھ اور میٹھے پانی کی سبیلیں لگائی جاتی اور لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ مسلمانوں کا ہر مسلک اپنے اپنے انداز میں شہید کربلا کا غم تازہ کرتا ہے۔ یوں محرم الحرام کے دس یوم مسلمانوں کے لیے انتہائی تقدس واحترام کے حامل ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس برس ان مقدس ایام میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ہیں، اس نے سب کے دل چھلنی کردیے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کی دہشت گردی کے واقعات کبھی نہیں ہوئے۔محرم الحرام کے آغاز سے ہی دہشت گردوں نے امام بارگاہوں اور مجالس کے مقامات پر خودکش حملے یا بم دھماکے شروع کردیے تھے۔ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ہفتے کو نویں محرم الحرام کو خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں مجلس عزا کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا جس میں 7 افراد جاں بحق ہو گئے۔ جمعے کو لکی مروت میں امام بارگاہ کے قریب خودکش حملہ ناکام بنایا گیا ہے۔ اس میں بم بار مارا گیا۔ اگر یہاں بھی دھماکا ہو جاتا تو خاصا جانی نقصان ہونا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے باقاعدہ جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور وہ تواتر سے حملے کر رہے ہیں۔

حکومت نے محرم الحرام کے ایام میں دہشت گردی روکنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں' محرم الحرام کے آغاز سے پہلے ہی حکومت کے پاس انفارمیشن بھی موجود تھی ۔حفاظتی اقدامات کے طور پر ہفتے کو تو ملک کے 49 شہروں میں موبائل اور وائرلیس فون بند کر دیے اور موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکار الرٹ رہے۔ اس قدر نگرانی اور حفاظتی اقدامات کے باوجود دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں واردات کر دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک خاصا مضبوط ہے اور وہ متحرک بھی ہے۔ اب یہ حقیقت تو آشکار ہو چکی ہے کہ دہشت گرد دین اور اس کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں۔ دہشت گرد امام بارگاہوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ مساجد میں بھی خودکش حملے ہو چکے ہیں۔

درگاہوں میں بھی بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا ہے۔ دہشت گرد اور ان کے ماسٹر مائنڈ نے محرم الحرام میں دہشت گردی کا منصوبہ بنا کر اور اس پر عملدرآمد کر کے ایک جانب حکومت کے اقدامات کی حقیقت عیاں کی ہے تو دوسری جانب ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں حکومتی پابندی کے باوجود موبائل فون سروس کھلی رہیں۔ حکومت کا فیصلہ غلط تھا یا صحیح' اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن حکومت کے آرڈر پر عملدرآمد ضرور ہونا چاہیے' یہی ریاست کی رٹ ہوتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک اسی وجہ سے قائم چلا آرہاہے کہ ریاست کی رٹ پوری طرح قائم نہیں ہے۔ پاکستان میں کہیں فاٹا ہے' کہیں ایف آر' کہیں اے ایریا ہے' کہیں بی ایریا اور کہیں اسٹیلڈ ایریا ہے' اس صورت حال نے پورے ملک کو متاثر کر رکھا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کی اپنی آئینی وقانونی مجبوریاں ہیں' یوں دہشت گردوں کے پاس محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور ان پر ریاستی گرفت بھی ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم نہیں ہو سکیں۔

محرم الحرام میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے اس عفریت کی طاقت اور عزائم کو پوری طرح آشکار کیا ہے۔ ریاست کے ادارے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن وہ ہر جگہ اور ہر مقام کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ پاکستان آج جس قسم کی صورت حال کا شکار ہے' یہ ایک روز میں نہیں بنی' ہماری سیاسی قیادت ہو یا مذہبی قیادت' اہل علم ہوں یا دانشور سب نے کسی نہ کسی حوالے سے اس معاشرے میں نظریاتی خلفشار کو جنم دیا ہے۔ بیورو کریسی بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ سردجنگ کے زمانے میں جو پالیسی اختیار کی گئی اس کے خاتمے کے بعد اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جنھیں ہم آج دہشت گرد یا فرقہ پرست تنظیمیں قرار دیتے ہیں، ان کی تنظیم اور مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ تنظیمیں چند برس پہلے تک آزادانہ کام کرتی رہی ہیں۔ بعد میں انھیں کالعدم قرار دیا گیا لیکن متنازعہ شخصیات نام بدل کر دوسری تنظیمیں چلا رہی ہیں۔ طالبان فیکٹر بھی موجود ہے۔

پاکستان کو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کثیرالجہتی پالیسی اختیار کرنی پڑے گی۔ محرم الحرام میں دہشت گردی کی جو لہر آئی ہے، اس کا مقصد واضح ہے۔ دہشت گردوں کا ایجنڈا یہی نظر آتا ہے کہ وہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کسی قسم کی فرقہ وارانہ چپقلش موجود نہیں ہے۔ عوام کے اندر مسلکی اور فقہی تقسیم ضرور موجود ہے لیکن یہ پرامن ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گردوں کے خلاف حکومت نہیں عوام لڑ رہی ہے تو یہ بھی بے جا نہ ہو گا۔ دہشت گردوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام نے اپنا اتحاد برقرار رکھا ہے۔ شیعہ ہو یا سنی، بریلوی ہو یا دیوبندی، سب مل جل کر رہ رہے ہیں۔ محرم الحرام کے ایام میں سب مسلمان اپنے اپنے انداز میں سوگ مناتے ہیں۔ ویسے بھی کربلا کا پیغام یہ ہے کہ ظلم اور بربریت کے سامنے حق کی آواز بلند کی جائے۔ اس مقصد کے لیے امام عالی مقام اور ان کے جانثار ساتھیوں اور اہل بیت نے اپنی جانیں قربان کر کے مسلمانوں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے راہ عمل کا تعین کر دیا ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے حوالے سے بھی شہدائے کربلا کا پیغام واضح ہے۔ دہشت گرد ظلم کی علامت ہیں۔

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ظلم کے خلاف ڈٹ جائے اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کا ہر مسلمان رسم شبیری ادا کر کے دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنا دے۔ یہی عاشورۂ محرم الحرام کا درس ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں