حسینؓ تیری تلاش میں ہے
صورتحال یہ ہے کہ ہر مسلک اور گروہ کے چند انتہا یا مفاد پرست اس کے نمایندہ اور ترجمان بن گئے ہیں ۔
نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا
ترے سفر کی جراحتوں سے ملا ہے مجھ کو مقام میرا
حسینؓ تجھ کو سلام میرا
حسینؓ تجھ کو سلام میرا
جس سلام کی یہ آخری چند لائنیں ہیں، وہ آج سے تقریباً چالیس برس پہلے ان دنوں میں لکھا گیا تھا جب ابھی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کے عمل سے گزر رہا تھا اور دھیان بار بار علامہ صاحب کے اس مصرعے کی طرف جایا کرتا تھا کہ ؎ قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں۔
سیاسی اختلافات' بے انصافی' لوٹ مار' افراتفری اور فرقہ واریت اس وقت بھی موجود تھے لیکن ان میں وہ شدت' بے حیائی اور تلخی بہت کم تھی جس کا آج کل ہم سامنا کر رہے ہیں۔ بالخصوص مذہبی بلکہ مسلکی اختلافات میں چند انتہا پسندوں کو چھوڑ کر(جو کم یا زیادہ تو ہو سکتے ہیں لیکن ہوتے ہر گروہ میں ہیں) عمومی سطح پر مسلمان کہلانے والے تمام لوگ نہ صرف مل جل کر پیار اور محبت سے رہتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے خیالات اور عقیدے کا احترام بھی کرتے تھے اور جہاں تک رسول کریمﷺ اور ان کے اہل بیت سے محبت کا تعلق ہے تو اس میں تو کوئی کسی سے کم نہیں تھا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ محرم کے جلوسوں کے رستے میں نہ صرف پانی کی بیشتر سبیلیں سنی حضرات لگایا کرتے تھے بلکہ اس حوالے سے نذر نیاز اور جلوسوں کی پرامن آمدورفت کے رستوں کی محافظت میں بھی وہی پیش پیش ہوا کرتے تھے اور یہ رباعی بلا تفریق ہر گھر میں دہرائی جاتی تھی کہ
دین است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
شاہ ہست حسینؓ بادشاہ ہست حسینؓ
سرداد نہ داد' دست دردست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ ہست حسینؓ
اس وقت اس بات کا رواج تو کیا تصور بھی نہیں تھا کہ وطن عزیز ہی کے بعض علاقوں میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کو ان کے شناختی کارڈوں پر درج عقیدے کی وجہ سے بسوں اور دیگر سواریوں سے اتار کر گولیاں مار دی جائیں گی یا امام بارگاہوں اور محرم کے جلوسوں پر خودکش حملہ آوروں کے ذریعے لاشوں کے ڈھیر لگا دیے جائیں گے۔ عام طور پر تبصرہ نگار حضرات اس کی وجہ بلکہ وجوہات کچھ اس طرح سے گنواتے ہیں کہ
1۔ پاکستان بننے کے بعد بعض اسلامی ممالک کی طرف سے اپنے اپنے مسلک سے وابستہ پاکستان کے مذہبی گروہوں' دارلعلوموں' گدی نشینوں اور بعض صورتوں میں شرارت پسندوں کو جو مالی امداد فراہم کی گئی، کسی نے اس کے مضر اثرات کو بروقت سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور یوں ایک ہی خدا ایک ہی رسولﷺ اور ایک ہی کتاب کے ماننے والوں کی اس بستی کے کروڑوں معصوم اور اچھے لوگ ان وظیفہ خواروں کی مفاد پرستی کے باعث ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔
2۔ ضیاالحق کے زمانے میں مذہبی انتہا پسندی کو بالواسطہ طور پر سرکاری سرپرستی حاصل ہو گئی اور یوں یہ صورتحال مزید گھمبیر اور خطرناک ہو گئی۔
3۔ ''افغان جہاد'' اور ''نائن الیون'' کے بعد بوجوہ اس فرقہ پرستی کے رجحان کو اس قدر ہوا دی گئی کہ اب وہ لوگ خال خال ہی رہ گئے ہیں جو اپنے ایمان کو اپنے مسلک اور عقیدے سے اوپر اور بالا تر رکھتے ہوں۔
سو اب صورتحال یہ ہے کہ ہر مسلک اور گروہ کے چند انتہا یا مفاد پرست اس کے نمایندہ اور ترجمان بن گئے ہیں اور ان کی وجہ سے بیشتر لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی غلط اور منفی پراپیگنڈے کی وجہ سے اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسلک کے جھنڈے تلے کھڑے ہو گئے ہیں جس کا بھرپور اور تباہ کن فائدہ وہ بیرونی عناصر اٹھا رہے ہیں جو اس ملک کو یقین' ایمان اور اتحاد سے محروم کر کے اسے اپنی مرضی کے مطابق شکل دینا چاہتے ہیں۔ ایسے میں عبدالحمید عدم (غالباً) مرحوم کا ایک شعر بہت یاد آتا ہے کہ
جب خیر و شر میں دقت تفریق ہو گئی
بے ساختہ حسینؓ کی تخلیق ہو گئی
اور اس کے پہلو بہ پہلو مولانا محمد علی جوہر کا یہ مصرعہ بھی دردل پر دستک دیتا ہے کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور دس محرم وہ دن ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کو یہ روشن اور عالم گیر سبق دیتا ہے کہ کسی اصول کے لیے جان تک کی قربانی دینے کے آداب کیا ہوتے ہیں۔ خالق کائنات کے لیے کون سی مشکل بات تھی کہ وہ اپنے محبوب نبی ﷺ کی امت کو ہر طرح کے امتحان' حادثے اور ظلم سے محفوظ رکھتا مگر منشائے الٰہی یہی تھا کہ ہر چیز کو اس انسانی فطرت کے تابع رکھا جائے جس میں خیر و شر اور عروج و زوال کے راستے سب کے لیے یکساں طور پر کھلے ہوں تاکہ اس کائنات اور اس میں انسان کی تخلیق اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی غائت اپنے آپ کو ظاہر کر سکے اور اگر اس حوالے سے انسانی تاریخ کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بلاشبہ جناب امام ؓ اور ان کے ساتھیوں کی یہ بے مثال قربانی پوری انسانیت کے لیے درس عمل اور افتخار کا درجہ رکھتی ہے۔
زبان پہ کانٹے سے اگ رہے ہیں پھر آج شدت وہ پیاس میں ہے
میرے وطن کی فضا عجب اک ہراس میں ہے
حسینؓ تیری تلاش میں ہے
یہ راہ بھٹکا ہوا قبیلہ
حسینؓ تیری تلاش میں ہے
حسینؓ تیری تلاش میں ہے
ترے سفر کی جراحتوں سے ملا ہے مجھ کو مقام میرا
حسینؓ تجھ کو سلام میرا
حسینؓ تجھ کو سلام میرا
جس سلام کی یہ آخری چند لائنیں ہیں، وہ آج سے تقریباً چالیس برس پہلے ان دنوں میں لکھا گیا تھا جب ابھی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کے عمل سے گزر رہا تھا اور دھیان بار بار علامہ صاحب کے اس مصرعے کی طرف جایا کرتا تھا کہ ؎ قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں۔
سیاسی اختلافات' بے انصافی' لوٹ مار' افراتفری اور فرقہ واریت اس وقت بھی موجود تھے لیکن ان میں وہ شدت' بے حیائی اور تلخی بہت کم تھی جس کا آج کل ہم سامنا کر رہے ہیں۔ بالخصوص مذہبی بلکہ مسلکی اختلافات میں چند انتہا پسندوں کو چھوڑ کر(جو کم یا زیادہ تو ہو سکتے ہیں لیکن ہوتے ہر گروہ میں ہیں) عمومی سطح پر مسلمان کہلانے والے تمام لوگ نہ صرف مل جل کر پیار اور محبت سے رہتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے خیالات اور عقیدے کا احترام بھی کرتے تھے اور جہاں تک رسول کریمﷺ اور ان کے اہل بیت سے محبت کا تعلق ہے تو اس میں تو کوئی کسی سے کم نہیں تھا۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ محرم کے جلوسوں کے رستے میں نہ صرف پانی کی بیشتر سبیلیں سنی حضرات لگایا کرتے تھے بلکہ اس حوالے سے نذر نیاز اور جلوسوں کی پرامن آمدورفت کے رستوں کی محافظت میں بھی وہی پیش پیش ہوا کرتے تھے اور یہ رباعی بلا تفریق ہر گھر میں دہرائی جاتی تھی کہ
دین است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
شاہ ہست حسینؓ بادشاہ ہست حسینؓ
سرداد نہ داد' دست دردست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ ہست حسینؓ
اس وقت اس بات کا رواج تو کیا تصور بھی نہیں تھا کہ وطن عزیز ہی کے بعض علاقوں میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کو ان کے شناختی کارڈوں پر درج عقیدے کی وجہ سے بسوں اور دیگر سواریوں سے اتار کر گولیاں مار دی جائیں گی یا امام بارگاہوں اور محرم کے جلوسوں پر خودکش حملہ آوروں کے ذریعے لاشوں کے ڈھیر لگا دیے جائیں گے۔ عام طور پر تبصرہ نگار حضرات اس کی وجہ بلکہ وجوہات کچھ اس طرح سے گنواتے ہیں کہ
1۔ پاکستان بننے کے بعد بعض اسلامی ممالک کی طرف سے اپنے اپنے مسلک سے وابستہ پاکستان کے مذہبی گروہوں' دارلعلوموں' گدی نشینوں اور بعض صورتوں میں شرارت پسندوں کو جو مالی امداد فراہم کی گئی، کسی نے اس کے مضر اثرات کو بروقت سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور یوں ایک ہی خدا ایک ہی رسولﷺ اور ایک ہی کتاب کے ماننے والوں کی اس بستی کے کروڑوں معصوم اور اچھے لوگ ان وظیفہ خواروں کی مفاد پرستی کے باعث ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔
2۔ ضیاالحق کے زمانے میں مذہبی انتہا پسندی کو بالواسطہ طور پر سرکاری سرپرستی حاصل ہو گئی اور یوں یہ صورتحال مزید گھمبیر اور خطرناک ہو گئی۔
3۔ ''افغان جہاد'' اور ''نائن الیون'' کے بعد بوجوہ اس فرقہ پرستی کے رجحان کو اس قدر ہوا دی گئی کہ اب وہ لوگ خال خال ہی رہ گئے ہیں جو اپنے ایمان کو اپنے مسلک اور عقیدے سے اوپر اور بالا تر رکھتے ہوں۔
سو اب صورتحال یہ ہے کہ ہر مسلک اور گروہ کے چند انتہا یا مفاد پرست اس کے نمایندہ اور ترجمان بن گئے ہیں اور ان کی وجہ سے بیشتر لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی غلط اور منفی پراپیگنڈے کی وجہ سے اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسلک کے جھنڈے تلے کھڑے ہو گئے ہیں جس کا بھرپور اور تباہ کن فائدہ وہ بیرونی عناصر اٹھا رہے ہیں جو اس ملک کو یقین' ایمان اور اتحاد سے محروم کر کے اسے اپنی مرضی کے مطابق شکل دینا چاہتے ہیں۔ ایسے میں عبدالحمید عدم (غالباً) مرحوم کا ایک شعر بہت یاد آتا ہے کہ
جب خیر و شر میں دقت تفریق ہو گئی
بے ساختہ حسینؓ کی تخلیق ہو گئی
اور اس کے پہلو بہ پہلو مولانا محمد علی جوہر کا یہ مصرعہ بھی دردل پر دستک دیتا ہے کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور دس محرم وہ دن ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کو یہ روشن اور عالم گیر سبق دیتا ہے کہ کسی اصول کے لیے جان تک کی قربانی دینے کے آداب کیا ہوتے ہیں۔ خالق کائنات کے لیے کون سی مشکل بات تھی کہ وہ اپنے محبوب نبی ﷺ کی امت کو ہر طرح کے امتحان' حادثے اور ظلم سے محفوظ رکھتا مگر منشائے الٰہی یہی تھا کہ ہر چیز کو اس انسانی فطرت کے تابع رکھا جائے جس میں خیر و شر اور عروج و زوال کے راستے سب کے لیے یکساں طور پر کھلے ہوں تاکہ اس کائنات اور اس میں انسان کی تخلیق اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی غائت اپنے آپ کو ظاہر کر سکے اور اگر اس حوالے سے انسانی تاریخ کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بلاشبہ جناب امام ؓ اور ان کے ساتھیوں کی یہ بے مثال قربانی پوری انسانیت کے لیے درس عمل اور افتخار کا درجہ رکھتی ہے۔
زبان پہ کانٹے سے اگ رہے ہیں پھر آج شدت وہ پیاس میں ہے
میرے وطن کی فضا عجب اک ہراس میں ہے
حسینؓ تیری تلاش میں ہے
یہ راہ بھٹکا ہوا قبیلہ
حسینؓ تیری تلاش میں ہے
حسینؓ تیری تلاش میں ہے